وطن عزیز میں سیلابی ریلے اور ہمارے انتظامات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • وطن عزیز میں سیلابی ریلے اور ہمارے انتظامات

    سیلاب 2010ء اور 2022ء کا تجزیہ

    By سعد اللہ مری بلوچ Published on Sep 15, 2022 Views 715
    وطن عزیز میں سیلابی ریلے اور ہمارے انتظامات 
    تحریر: سعد اللہ مری بلوچ، سبی۔بلوچستان 

    اللہ تعالیٰ نےاپنی نیابت و خلافت کاشرف تمام مخلوقات میں سے صرف انسان کو بخشا ہےاور یہی وَجہ اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی ہے ۔انسان ہونے کے ناطے ہم پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوئی ہیں۔اور مسلمان ہونے کے اعزاز کے سبب یہ ذمہ داری دوچند ہوگئی ہے کہ ہم تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے ذمہ دار ہیں۔ 
    جب اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف صفت ربوبیت،رحمانیت،رحیمیت اور مالکیت سے کرایا تو ہماری تمام تر ذمہ داریاں بالکل واضح ہوگئیں۔
    ہر دور میں آنے والے انبیاعلیہم السلام نے نیابت انسانی کے فکروعمل کو نئی آب و تاب بخشی ۔اور انسانی ترقی کی رکاوٹوں کو دور کیا، جیسےموسی علیہ السلام بہ مقابلہ فرعون،ابراہیم علیہ السلام بہ مقابلہ نمرود اور حضرت محمدﷺ بہ مقابلہ قیصروکسریٰ بہ شمول ابوجہل وغیرہ کے۔
    اب دیکھتے ہیں کہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے اس ملک کا معاشی و انتظامی ڈھانچہ اپنے دعوے کے مطابق ہے؟ اور جب سے ہمیں کچھ نہ کچھ سمجھ آ نے لگا تو آ ہستہ آ ہستہ یہ بات بھی ذہن میں چبھنے لگی کہ اس ملک یا دنیابھر میں غریب عوام پر جو کچھ حالت گزر رہی ہے ۔اس کا ذمہ دار کون ہے۔قدرت یا چند مفادپرست،شروع میں تو یہ فلسفہ اس وقت بیان ہوا جب قابض انگریز سرکار کی ہندوستان میںتشریف آوری ہوئی ۔
    انگریز کی آ مدبھی ظل اللہ سے تعبیر ہوئی۔ اس کے انسانیت سوز مظالم سے عوام کی نظریں ہٹانے کے لیے اور اس کے طرزِحکومت کے بھیانک نتائج سے عوام کو غافل رکھنے کے لیے کئی نعرے اور نظریے ایجاد کیے گئے،جن میں اپنی بدانتظامی ،بے تدبیری، لالچ و حرص اور مجرمانہ غفلت کو جیسے عوام ویسے حکمراں یا یہ خدائی عذاب ہے،جیسی باتوں کے شور میں دَبانے کی ایک مجرمانہ روش اختیار کی گئی۔غریب عوام کو اس نظام کے ذریعے بےبس کرکے قسمت کے حوالے کردیاگیا اور مٹھی بھر امرا اللہتعالیٰ کے قریبی ٹھہرے کہ ان کی قسمت اچھی رہی۔
    جب سے آ زادی ملی، وطن عزیز بنا، تب سے عوام کے اعمال خراب ہو نا شروع ہوگئے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا قوم مقروض ہو تی گئی،جس کے نتیجے میں اشیا خوردونوش غریب کی پہنچ سے نکلتی گئیں۔ 
    جب کبھی اس پر احتجاج جلسے جلوس ہوتے تو فوراً ہماری مسجدوں سے وعظ ہوتا کہ یہ سب کچھ تو تمھارے اپنے گناہ ہیں اور کچھ نہیں ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ جلد از جلد توبہ کرو اور بندے دے پتر بنو۔پھر جب اس سے عوام مانوس ہوگئے، تو لٹیروں کو یہ طرزِعمل اچھا لگا پھر ہر مشکل گھڑی کا نام تقریباً قدرتی آفت رکھا اور وَجہ بھی وہی پرانی اور دلال بھی وہی پرانے۔
    اس کا آ نکھوں دیکھا احوال  2010ءکےسیلاب کے بعد حال 2022ء  کے سیلاب میں دیکھا گیا ۔بدقسمتی سے عوام سے اتنا بڑا گناہ سر زد ہو ا کہ وزیر سے لے کر مشیر تک عالم سے لے کر عابد تک سب پریشان ہیں، حتی کہ بےچاری عوام کو خود بھی اپنے کیے سے اتنی شرمندگی محسوس ہوئی کہ بچے ، بوڑھے،ماسٹر،ڈاکٹر،صحافی اپنی توانائیاں اعمال کی درستی پر صرف کر رہے تھے۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ دعو ی تو سب کا ایک ہے۔ 
    نوعیت گناہ کے تعین میں ہر ارسطو کی رائے مختلف ہے۔البتہ اس سے انکار کر نا کہ یہ کسی گناہ کا نتیجہ نہیں ہے عقل و درایت کے خلاف ہے۔ پر یہ معلوم کرنا کہ اصل مرض (گناہ) ہے کیا، جس کی تشخیص کر کے مستقبل میں مستقل بنیادوں پرعلاج کیا جائے۔بدقسمتی سے اس کا حل عقل مند معاشروں کے پاس ہوگا، ہمارے پاس نہیں ہے۔الاماشاءاللہ ۔
    کا من سینس کی بات ہے کہ جب ان دانش وروں سے کوئی پوچھے کہ کیا آج کے ترقی یافتہ دور میں اس طرح کی صورتِ حال کو ناگہانی آ فات کہا جائے، جس کاعلم انسان کو آٹھ، دس ہفتہ پہلے ہو؟ خاص کر اس قوم کے لیے کہ جس کے موسمی آلا ت اتنے تیز ہوں کہ اتنی بارش اس علاقے میں اتنے ٹائم میں اتنے ملی میٹر برسے گی۔
    دوسری طرف ملک میں انتظامات کایہ عالم ہوکہ اپنے ہی آبی ذخائر ہمیں لے ڈوبیں۔اور ہم بے بسی کاراگ الاپ کر صرف ڈبکیاں کھاتے عوام کی ویڈیوز بناتے رہیں۔صاحب شعور لوگوں کوسوچنے کی ضرورت ہےکہ اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ایمرجنسی حالات سے نمٹنا کوئی مشکل کام ہےبالخصوص ایسےملک کوجو ایٹمی طاقت بھی ہو۔
    یہ بات تو سمجھ میں آنے والی ہے کہ مستقبل کی پلاننگ میں قوموں کو دِقت پیش آئے، شاید وہ سوسالہ پلاننگ میں کہیں غلطی کریں۔لیکن ہمارے دانش وروں کا معاملہ کچھ مختلف ہے ۔
    میں خود سماجی ورکر ہونے کے ناطے اپنی علاقائی صورتِ حال سے انتظامیہ کو آگاہ کررہا تھا کہ وہاں ایک ایسا مسئلہ سامنے آیا کہ ایک علاقے کےلوگ تقریباً  26 دنوں سے ندی میں مسلسل پانی بہنے کی وَجہ سے بھوک و پیاس کے گھیرے میں ہیں۔
    تو طے یہ ہوا کہ جی ویڈیو بنا کر لائیں تب کچھ ہوگا۔تو میں سوچ میں پڑگیا کہ کیا ایسا کیمرہ بھی ایجاد ہوا جو بھوک و پیاس کی ویڈیو بنا ئے۔ہاں! البتہ اس کیفیت کو آ نکھوں کی فلش اور دل کی احساسات سے تو ضبط کیا جاسکتا ہے جو ہمارے حکمرانوں کے پاس نہیں ہیں۔دوسری طرف یہ دعویٰ سامنے آیا کہ ہم نے متاثرین پر کروڑوں روپے خرچ کیےجوکہ خوشی کی بات ہے، لیکن اگر یہ رقم پہلے ہی پلاننگ کے تحت اس عوام پر خرچ کرتے تو شاید ڈوبنے کی نوبت نہ آتی۔
    لہذا  ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں چند باتوں کی درست تشریحات ہونی چاہییں۔ 
     1۔بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے یہ اس دنیا میں زیادہ یا کم مقدار میں ہوتی رہتی ہے۔ البتہ ان اقوام کے لیے زحمت (باعث تکلیف) ہے، جن کی پلاننگ درست نہ ہو۔
    2۔ ہمارے(عوام) کےگناہوں کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنا سیاسی لیڈر غلط چنا ہے۔ ہم اس گناہ کی سزا بھگت رہے ہیں، نہ کہ دوسرے گناہ جیسے کہ ہمارے ہاں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ 
    3۔مسلمہ قانون ہے کہ گناہ کی سزا اعمال کے مطابق دی جاتی ہے۔
    4۔ قوموں کی ترقی اور تباہی اس ملک کی سیاسی پارٹیوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
    5۔  گناہ و اجر عوام کے سر پر ڈالنےکے بجائے اصل ذمہ دار حکمران طبقات ہیں ۔
    6۔ اس مشکل سے نجات کا ذریعہ صرف اور صرف ایک ایسی باشعور جماعت کے ساتھ وابستہ رہنا ہے جو مثبت قومی سوچ رکھتی ہو۔
    7۔ گناہوں سے توبہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ آ ئندہ سے خودغرض و مفادپرست جماعتوں اور ان کےقائم کردہ فرسودہ نظام سے اعلان برات ہوجوملک وملت کے لیے مفیدنہ ہو ۔ورنہ مسائل جوں کے توں رہیں گے۔بلکہ مزید بڑھتے جائیں گے۔
    Share via Whatsapp