سیلاب کی تباہ کاریاں مقتدرہ کی نااہلی اور بدانتظامی کی داستان
عوام کی خدمت خلق کا جزبہ دیدنی ہے مگر 2005 کے زلزلہ اور 2010 کے سیلاب کے بعد اربوں ڈالرز کے فنڈز ہونے کے باوجود دوبارہ تباہی کیوں آئی ہے؟
سیلاب کی تباہ کاریاں: مقتدرہ کی نااہلی اور
بدانتظامی کی داستان
سعد میر۔ راولپنڈی
پاکستان، دنیا میں فی کس آمدنی کے حساب سے
160ویں [1]نمبر پر ہے۔ Charities Aid Foundation کے World Giving Index 2021 میں
پاکستان کی عوام کل آبادی کے تناسب سے اپنے ہم وطنوں کی امداد کے لیے مال اور وقت لگانے
کے حساب سے رینکنگ میں 107 ویں نمبر پر ہے ۔ پاکستان2011ء میں 34 اور 2013ء میں اس
رینکنگ میں 53 نمبر پر تھا۔ [2]اس درجہ بندی
میں بتدریج کمی آبادی کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت کی نشان دہی کرتی ہے۔ رپورٹ میں یہ
بات سامنے آئی ہےکہ ایک بڑی تعداد میں افراد دوسروں کی مدد کرنے کے لیے تیار تو ہیں
لیکن اپنے خاندان کو روٹی مہیا کرنے میں ہی ان کا تمام وقت صرف ہوجاتا ہے۔ آبادی کا
40 فی صد طبقہ اگر کسی دن محنت مزدوری نہ کرپائے تو گھر میں فاقہ ہوجاتا ہے۔ [3]
اس کے باوجود اگرامدادی رقم کو مجموعی آمدن
کے تناسب سے دیکھا جائے تو پاکستانی عوام کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے
والے ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا ایک فی صد سے زیادہ صدقہ، خیرات
میں دیتا ہے، جو اسے برطانیہ (1.3 فی صد) اور کینیڈا (1.2 فی صد) جیسے بہت زیادہ امیر
ممالک کی صف میں دھکیل دیتا ہے۔
2005ء
کا زلزلہ ہو یا 2010ء اور 2011ء کاسیلاب،عوام نےاپنی تمام جمع پونجی متاثرین کی بحالی
میں لگا دی۔ گیلپ سروے کے مطابق بڑی تعداد میں افراد اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔
عوام کا یہ جذبہ و قربانی، متاثرین کی فوری مدد کا واحد سہارا ہے اور اس کی جتنی تعریف
کی جائے کم ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ یہ تمام تر امداد کسی منظم طریقے سے استعمال میں نہیں
لائی جاتی، جس کی وَجہ سے کچھ علاقوں میں امداد کی بہتات ہوجاتی ہے اور اکثر علاقے
محروم رہتے ہیں۔
2005ء
کے زلزلے کے بعد ریاست نے بلند و بالا دعوے کیے،کہ ہم تباہ شدہ شہروں کو جدید طرز پر
آباد کریں گے، جس کے بعد دنیا نے 6.2 بلین ڈالرز مختلف صورتوں میں پاکستان کو دینے
کا تہیہ کیا[4]۔ مگر افسر شاہی کی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث ہم دنیا کا
اعتماد حاصل نہ کرسکے۔ بڑی تعداد میں امداد قرضوں کے صورت میں حاصل ہوئی، لیکن اس میں
سے صرف 100 ملین ڈالر قسطوں کی صورت میں انتہائی تاخیر کے بعد متاثرین تک پہنچ سکے۔
نئے شہر آباد کیا ہوتے، انھی کھنڈرات کو قدرت کے قوانین کی دھجیاں اڑا کر دوبارہ آباد
کردیا گیا۔ نئی اتھارٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا جو سرکاری خزانہ پر مستقل بوجھ کے
علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ایک برطانوی رپورٹ نے 2010ء میں بتایا کہ 2005ء کے زلزلے کے بعد
ملنے والی 300 ملین پاؤنڈ سے زیادہ کی امداد کو دوسرے منصوبوں کی طرف موڑ دیا گیا تھا[5]۔دنیا
میں ہرسال 20 ہزار سے زائد زلزلے آتے ہیں اور خدانخواستہ دوبارہ ایک زلزلہ ان علاقوں
میں آگیا تو اس دفعہ تباہی پہلے سے چار گناہ زیادہ ہوگی۔[6]
اسی طرح آپ حالیہ سیلاب سے پہلے 2010ء اور
2011ء کے سیلاب سے تباہ شدہ بستیوں کو جاکر دیکھتے تو آپ کو سابقہ تباہی کے آثار تو
ضرور مل جاتے، لیکن عقل ماتم کرتی کہ ریاست نےہزاروں اموات اور مجموعی طور پر 25 فی
صد سے زائد علاقوں کی تباہی سے کیا سیکھا؟ جولائی 2010ء میں سیلاب سے متاثرہ خاندانوں
کو گھر کی دوبارہ تعمیر کے لیے ستمبر 2010ء سے 2011ء کے درمیان 20000 روپے فی خاندان
دیے گئے۔ اور پھر 2011ء اور 2013ء کے درمیان بین الاقوامی امداد کے سہارے 40000 روپے
دو قسطوں میں متاثرین کو دیے ۔یہ رقم جھونپڑیوں کی تعمیر نو کے لیے تو شاید کافی تھی
لیکن اس میں سالوں کی تاخیرسے اس کی افادیت نہ رہی۔لاکھوں متاثرین اے ٹی ایم کارڈ استعمال
کرنا نہیں جانتے تھے، جس کی وَجہ سے ٹھگوں نے ان کی رقم بٹور لی۔ عالمی امداد اور قرضوں کی رقم کا ایک بڑا حصہ متاثرین
تک قسطیں پہنچانے کے لیے خصوصی مراکز کے قیام، سرکاری اداروں کے اخراجات اورمیڈیا مہم
میں خرچ ہوا۔ اس کے علاوہ سروے، مانیٹرنگ اور نگرانی کے لیے مقامی اور بین الاقوامی
کمپنیوں کو دل کھول کر فیس ادا کی گئی۔ایشیائی ترقیاتی بینک سے شاہراہوں کی مرمت، بحالی
اور تعمیر نو؛سیلاب سے بچاؤ کے مختلف پشتوں کی بحالی، اور نہر وں کے بنیادی ڈھانچے
کی بحالی کے لیے مختلف مواقع پر قرض لیے گئے۔ اس سے متعلقہ ایک پراجیکٹ 2021 میں اختتام
پزیر ہوا[7]۔ بین الاقوامی اداروں کی ویبسائٹس امداد اور قرضوں سے پاکستانی عوام کی
زندگیوں میں تبدیلیوں کے قصیدے پڑھ رہی ہے لیکن حالیہ سیلاب سے تباہی نے تمام حقیقت
کھول کر رکھ دی ہے۔ آبی وسائل کی منصوبہ بندی تو دور کی بات ہے؛ صدیوں پرانے آبی گزرگاہوں اور دریا کی چھوڑی ہوئی زمینوں پر پہلے
سے زیادہ تعمیرات بنا لی گئی۔عوام کی محفوظ علاقوں میں آباد کاری کے لیے کوئی جدوجہد
نہ کی گئی۔1990ء کے بعد سے اب تک ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں نہ ہونے کے
برابر اضافہ ہواہے۔[9]
جن
کی وَجہ سے تباہی ہوئی انھی سے داد رسی کی امید لگالی گئی۔ اکتوبر 2010ء میں ایک امریکی
جریدے نے ماہرین کی ایک رپورٹ پیش کی کہ سیلاب سے نقصان میں 70 فی صد کردار کرپشن اور
نااہلی کا ہے۔اسی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ سیلاب کا زیادہ تر پانی سمندر
تک نہیں پہنچ سکا اور بااثر افراد کی زرعی
زمین کو بچانے کے لیے سیلاب کا رخ غریب عوام
کی طرف موڑدیا گیا تھا۔[8]
جن علاقوں میں 2010ء اور 2011ء میں تباہی ہوئی، حالیہ مون سون
کی بارشوں سے انھی علاقوں میں دوبارہ سے جانی و مالی نقصان؛ نااہلی، بدعنوانی اور بدنیتی
کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے؟ دنیا سے جو 2 بلین ڈالر سے زائد رقم موصول ہوئی اور ریاست کے اپنے وسائل کے ضیاع کا کون جواب دہ ہے؟دریا کے تحفظ کے خوب صورت
عنوان سے جو نئے قوانین بنائے گئے اور آرڈیننس میں ترامیم کی گئی، اس کے عدم نفاذ کا
کون ذمہ دار ہے؟ ماہرین نے مئی،جون میں ہی آنے والے سیلاب کی پیشین گوئی کردی تھی تو
اس کے باجود بروقت انتظامات سے قیمتی انسانی جانوں کو کیوں کر نہ بچایا گیا؟
پاکستان کی معیشت پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار
تھی۔ اَب سیلاب سے مزید تباہی آچکی ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق ملکی معیشت کو موجودہ سیلاب
کے باعث دس بلین ڈالر کانقصان ہوا ہے۔[10] زراعت، لائیو اسٹاک اور انفراسٹرکچر شدید
متاثر ہوا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ خوراک کی ضروریات پوری
نہیں ہوپائیں گی اور درآمدی بل میں اضافہ ہوگا۔ اَب تک انٹرنیشنل کمیونٹی کی جانب سے
صرف 500 ملین ڈالر کی امداد اور قرض کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔[11]مگر ماضی کو دیکھتے
ہوئے مقتدرہ کی جانب سے کچھ اچھے کی امید نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں میں اجتماعی
شعور کو اُجاگر کیا جائے اور قومی سوچ اور ترقی کے خواہاں لوگ اس شعور کی روشنی میں
اس نظام سرمایہ داری سے باہر نکلیں۔ نظام کو درست بنیادوں پر استوار کرکے اداروں کو
مضبوط اور اہل لوگوں کے سپرد کرنا ضروری ہے، ورنہ ہر دوسرے سال اس قوم پر کسی نئی صورت
میں مصیبتیں نازل ہوتی رہیں گی۔ عوام میں جذبہ تو باقی رہے گا، لیکن دن بدن امداد کرنے
والوں کی تعداد میں کمی آتی رہے گی۔
[1]
Imf 2021 data
[2]
https://ssir.org/articles/entry/philanthropy_in_pakistan
[3]
https://www.thenews.com.pk/print/852321-poverty-in-pakistan-up-from-4-4pc-to-5-4pc-wb
[4]
STAFF TRIP REPORT TO THE COMMITTEE ON FOREIGN RELATIONS UNITED STATES SENATE
One Hundred Ninth Congress First Session December 2005
[5]
https://tribune.com.pk/story/39306/aid-for-2005-pakistan-quake-spent-elsewhere-report
[6]
https://www.jstor.org/stable/43615507
[7]
https://www.adb.org/news/adb-approves-197-million-loan-highway-rehabilitation-pakistan
[8]
https://www.scientificamerican.com/article/climate-change-deforestation-combine/
[9]
https://knoema.com/atlas/Pakistan/topics/Water/Dam-Capacity/Total-dam-capacity
[10]
https://dailycountrynews.com/article/28074
[11]
https://www.dawn.com/news/1706855