سرکلر ڈیبٹ (گردشی قرضہ) - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سرکلر ڈیبٹ (گردشی قرضہ)

    سرکلر ڈیبٹ ا

    By محمد رضوان غنی Published on Aug 01, 2022 Views 1094
    سرکلر ڈیبٹ(گردشی قرضہ) 
    محمد رضوان غنی۔ میرپور آزاد کشمیر 

    وطن عزیز جو متعدد معدنیات سے بھرپور ، اورقدرتی وسائل سے مالامال ہے، اپنے قیام سے ہی ایسے نااہل لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ، جنھوں نے آج تک کوئی پالیسی عوامی فلاح و بہبود کے لیے نہیں بنائی۔ان کا مقصد ہمیشہ ایک خاص ایلیٹ کلاس کو تحفظ فراہم کرنا رہا ہے۔ یہاں ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو مسائل کاذمہ دار گردانتی ہے۔مگر ساتھ ساتھ وسائل کابےدریغ استعمال کرکے ملک کی جڑیں کھود رہی ہوتی ہے۔ہمارا ملک استحصال پسند سرمایہ داروں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔ یہاں سرمایہ دار سیاسی اثرو رسوخ کے ذریعے بڑی بڑی کمپنیاں بناتے ہیں ۔ پھر وہ دنوں میں اتنی مضبوط بن جاتی ہے کہ گورنمنٹ کو بھی اس سے ادھار لینا پڑ جاتا ہے۔یہاں یہی کام ہو رہا ہے، ملک میں موجود IPP انڈیپنڈنٹ پاور پروڈکشن کمپنیوں سے گورنمنٹ ادھار میں بجلی خریدتی ہے۔ پھر ان کو سود کے ساتھ قیمت واپس کرتی ہے۔یہاں ہر حکومت کی یہی روش رہی کہ وہ پرائیویٹ کمپنیوں کے ساتھ معاہدات کرتے ہیں۔ ان کو فائدہ پہنچانے اور اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے عوام پر بھاری بھرکم ٹیکس لگا تی ہے ،اور پھر بےجا اخراجات اور خزانے کےضیاع کاایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ پرائیویٹ کمپنیاں بھی بغیر اپنے مفاد کے اربوں روپے انویسٹ نہیں کرتیں،بلکہ وہ ادھار دی ہوئی رقم کو سود کے ساتھ وصول کرتی ہیں اور سود ہر دن بڑھتا ہے اور دنوں میں اپنی رقم کئی گنا کر لیتے ہیں۔ گورنمنٹ جب وہ رقم عوام سے بل کی شکل میں وصول کرتی ہے تو اس پر سود لگنے کی وَجہ سے پوری رقم ادا نہیں کر پاتی، تب وہ بجلی کا جعلی بحران پیدا کرتی ہے اور پھر پرائیویٹ بینک سے سود پر قرضہ لے کر مزید عوام کی بلی چڑھائی جاتی ہے۔ 
    یوں یہ سارا سرکل ادھار پر چل رہا ہوتا ہے-دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر حکومت صرف ہائیڈل انرجی کا ٹھیک سے استعمال کر کے منگلا، تربیلا اور کالاباغ ڈیم کو کام میں لے آئے تو 80٪ بجلی اس ذریعے سے پوری کی جاسکتی ہے ۔یہی نہیں پاکستان کوئلہ کے ریزرو کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔اس کے علاوہ ونڈانرجی، بائیوماس، ہائیڈل انرجی ، نیوکلرانرجی اور سولرانرجی کے حوالے سے بھی یہ ملک بجلی کی وافر مقدار پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی اشرافیہ اگر تمام کام عوام کی فلاح کے لیے کرے تو اپنا بینک بیلنس باہر کے ملکوں میں کیسے بنائے؟ قرضوں کی معیشت اور سود پر مبنی معاہدات کے علاوہ 75 سالوں میں ہمارے حکمرانوں نے کوئی کام عوام کی بہتری کے لیے نہیں کیا۔
    2007ءمیں حکومت نے ووٹ اکٹھا کرنے کے لیے عوام کو بجلی کے بلوں میں سبسڈی دی۔جس کی قیمت پاور کمپنیوں کو ادا نہیں کی گئی اور وہ کمپنیاں تیل اور گیس کے بل ادا نہیں کرسکیں۔تب ہی الیکشن سے پہلے کمرشل بینکوں سے 34 بلین ادھار لے کر ان کمپنیوں کو دیا گیا ۔جب کہ کمپنیوں سے لی گئی سبسڈی اس سے بھی زیادہ تھی۔یوں پورا کا پورا سرکل ادھار پہ چل رہاتھا۔تب تیل کی قیمت عالمی منڈی میں 100$ سے 147$ بیرل تک چلی گئی، جس سے بجلی کا بھی بحران پیدا ہوگیا ۔ اس حوالے سے کوئی حکمت عملی وضع نہیں گئی ۔ سرکلر ڈیبٹ 2019 ءمیں 1362 بلین تک پہنچ گیا-جو آج 2400 بلین سے زائد تک پہنچ چکا ہے۔اس تمام تر تباہی کےباوجود ہر دور کےحکمران خوش کن نعروں کے ذریعے عوام کے دل بہلاتے رہتے ہیں ۔ عوام کو ریلیف ملے یا نہ ملے، حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔یہاں ہونا تو یہ چاہیے کہ عوام کو سہولت فراہم کی جائے۔ وہ اپنے علاقے کی مناسبت سے ہائیڈرو یا سولرپلانٹس لگا کر اپنی بجلی کی ضروریات پورا کریں ۔اس کے لیے حکومت ان کی سپورٹ کرے، تا کہ گرڈ سے پیدا ہونے والی بجلی کے استعمال میں کمی لائی جاسکے ۔ پاکستان میں 1980ء کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا جبکہ ان 42 سالوں میں بجلی کا استعمال کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ پاکستان کو renewable انرجی ذرائع پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ایسے پالیسی میکر اور ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو حقیقی بنیادوں پر عوام کی بہتری کے لیے سوچے۔ دنیا میں بجلی بنانے کا جو سب سے سستا طریقہ ہے وہ ہائیڈل سسٹم ہے-اس وقت پاکستان 6555 میگاواٹ بجلی بنا رہا ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں کم و بیش45000 میگا واٹ بجلی بنانے کا پوٹینشل ہے۔ سولرانرجی سے پاکستان کم سے کم100,000 میگا واٹ اور تقریباً 50،000 میگا واٹ ونڈ(ہوا) انرجی سے بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
    پروردگار کی طرف سے وطن عزیز کو حاصل شدہ نعمتوں کا شمار نہیں، لیکن جہاں معاشرہ زوال کا شکار ہو، جہاں نوجوان میں قومی سوچ ابھارنےکاکوئی اہتمام نہ ہو، جہاں اجتماعی مفاد کو نظرانداز کیا جاتا ہو، وہاں رب کی رحمت نازل نہیں ہوتی ۔ ایسے حالات میں حقیقی تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ جو اللہ کی مخلوق کو حریت و آزاد ی،امن و امان اور خوش حال زندگی فراہم کرسکے ۔ان حالات میں معاشرے کے باشعور طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی اجتماعیت سے وابستہ ہو،جو حقیقی تبدیلی کے لیے کوشاں ہو ۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
    Share via Whatsapp