عالمی کساد بازاری کے خدشات اور مذموم سرمایہ دارانہ عزائم
عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے بڑی عیاری و چالاکی کے ساتھ دنیا کی معیشیت کو الفاظ اور ہندسوں کے گورکھ دھندوں میں الجھا کر رکھا ہوا ہے-
عالمی کساد بازاری کے خدشات اور مذموم سرمایہ دارانہ عزائم
ہارون رشید۔ راولپنڈی
کسی بھی ملک کی معیشت کی شرح نمو میں سالانہ اضافہ اس ملک کی عوام کے لیے مجموعی طور پر فائدہ مند ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں روزگار اور کاروبار کے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں۔کاروباری اداروں کے منافع بڑھ جاتے ہیں اور وہ اپنے ملازمین یا حصہ داروں کو زیادہ ادائیگیاں کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ایسے ماحول میں ریاست کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ اسے ٹیکسوں کی مد میں پہلے سے زیادہ وصولیاں ہوتی ہیں،جس سے فائدہ اٹھا کر وہ عوام کو رعایتیں ، ضرورت مندوں کی مالی مدد اور اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر سکتی ہے، ملکی معیشت کے شرح نمو میں اضافے سے عام شہریوں کی دولت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھار اشیا خدمات کی قدر میں کمی ہو جاتی ہے۔ جب اشیاء و خدمات کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہوتی رہے تو اسے معاشی گراوٹ کہتے ہیں۔ یہ عمل اگر طویل عرصے تک جاری رہے تو اے معاشی افسردگی یا کساد بازاری کہتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلسل خانہ جنگیوں اور ترقی یافتہ ملکوں کی تجارتی آویزش نے عالمی معیشت کو کساد بازاری کے اندھے کنویں میں دکھیل دیا ہے،جس کے نتیجے میں دنیا کے غریب اور پس ماندہ ممالک معاشی بحران کا شکار ہوگئے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق شرح سود اور مہنگائی میں اضافے کے باعث عالمی سطح پر مالیاتی مارکیٹوں کو بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے ۔ ان رجحانا ت کو دیکھنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عالمی سطح پر کساد بازاری کے بادل چھا جائیں گے، جس کے نتیجے میں ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں بھی مشکلات کا شکار ہوسکتی ہیں ۔ دراصل موجودہ عالمی سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام اور اس سے جڑی معیشتوں کا بحران ہے۔اگرچہ اس وقت ملکی سیاست میں عدم استحکام، ملک کو معاشی طور پر پیچھے کی جانب دھکیل رہا ہے ۔کیوں کہ عدم استحکام اور امن و امان کی غیریقینی صورتِ حال سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے،لیکن اس وقت پاکستان کا مسئلہ صرف عدم استحکام نہیں، بلکہ قومی مفادات سے عاری قیادت کا پچھلے 75 سالوں سے ریاست پر مسلط ہوناہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے۔ اور ہماری ایک تہائی سے بھی زیادہ آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے منسلک ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے اس شعبے میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ بلکہ ہم زرعی تحقیق اور پیداوار میں دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہماری حکومتوں اور اشرافیہ نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی ۔ طویل عرصے سے اسے نظرانداز کیے رکھا ۔ ملک بھر میں محض 10 کے قریب زرعی یونیورسٹیاں ہیں، جہاں تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے یا محققین تو موجود ہیں، لیکن ان کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ بلکہ "ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا" کے مصداق والی بات ہے کہ ملک کی زرعی زمینوں کو رئیل اسٹیٹ اور لینڈ مافیاز کے حوالے کر دیا گیا۔صرف صوبہ پنجاب میں تقریباً 20 سے 30 فی صد زرخیز زمین، جوکہ ملک کی خوراک کی کل ضروریات کا 65 فی صد پورا کرتی تھی، کو صنعتی یونٹس اور ہاؤسنگ سکیموں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم بین الاقوامی ترقیات پر غور کریں تو دنیا نالج بیسڈ اکانومی (علم پر مبنی معیشت) کی جانب بڑھ رہی ہے، جس میں پہلے تحقیق ہوتی ہے، اس کے بعد ایجاد کانمبر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ان نئی مصنوعات کی ہائی ٹیک ایکسپورٹس ہوتی ہیں جوملکی ترسیلات زر میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں، لیکں جیساکہ اوپر عرض کیا کہ ہماری مقتدرہ ایسی دوراندیشی اور وژن کی سوچ سے عاری ہے یا ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ عام طور پر ہماری حکومت ترقیاتی اور غیرترقیاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیکسوں کے ذریعے رقم جمع کرتی ہے، لیکن جب آمدنی سے زیادہ اخراجات ہوجائیں تو حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے، مگر جب کسی بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے قرض لیا جاتا ہے تو پھر اُن کی شرائط بھی پوری کرنا لازمی ہوتی ہیں، جس میں ایک شرط ٹیکسوں میں اضافے کی بھی ہوتی ہے یا ان شعبوں میں ٹیکس لاگو کرنا' جہاں ٹیکس نہیں ہے۔لیکن پاکستانی حکومت کی موجودہ پالیسیوں پر اگر غور کیا جائےتو اس سارے عمل میں معاشرے کے بنیادی پیداواری طبقات ہی حکومتی ٹیکسس کے اہداف کا شکار نظر آرہے ہیں جبکہ بڑی بڑی سرمایہ دار کمپنیوں کو ملکی معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کے نام پر سبسڈیز دے دی جاتی ہیں۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی اس وقت صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور اس کا بنیادی تعلق بڑھتی ہوئی عالمی کساد بازاری سے ہے،جس کے شکنجے میں امریکا سمیت دنیا کے تمام امیروغریب ممالک جکڑے ہوئے ہیں، جو اس سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ صورت حال کی سنگینی کی ایک وجہ تو کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے اثرات ہیں ، جب کہ دوسری وجہ روس اور یوکرین کی جنگ، جس میں تمام بڑی طاقتیں ملوث ہیں۔ امریکا کی زیرسرپرستی نیٹو ممالک یوکرین کی جدید ہتھیاروں کے ساتھ بھرپور مالی و مادّی مدد کررہے ہیں۔ ان ممالک نے روس پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کررکھی ہی، جس کے نتیجے میں یہ ممالک روس سے تیل اور گیس سمیت متعدد اشیا درآمد نہیں کرسکتے۔ اس سے توانائی اور خوراک کا عالمی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے نیٹو کے سربراہ اسٹولن برگ نے متنبہ کیا ہے کہ یوکرین جنگ کے اثرات نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور یہ جنگ برسوں جاری رہے گی( جو دراصل امریکا کی خواہش ہے)۔
انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس نے، جوکہ 450 مالیاتی کمپنیوں کا عالمی گروپ ہے، نے خبردار کیا ہے کہ عالمی معیشت کو کساد بازاری کے خطرات کے ساتھ ساتھ مالی بے ضابطگیوں کا بھی سامنا ہے۔جب کہ آکسفیم کا کہنا ہےکہ اس معاشی طبقاتیت اور غیرمساویانہ طرز عمل سے غریب ممالک میں خوراک ، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی شدید قلت پیدا ہو ر ہی ہے، جس کے نتیجے میں ہر روز کم از کم 21,300 افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب دنیا عالمی طور پر ایک نادیدہ وبائی مرض سے چھٹکارا حاصل کر کے معمول کی زندگی کی طرف پلٹ رہی ہے اور زندگی کا پہیہ تیزی کے ساتھ رواں دواں ہے، اشیائے خورد ونوش کی مانگ میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ، کارخانے اور فیکٹریاں بھر پور استعداد کے ساتھ سرگرم عمل ہیں ، گو کہ ہر طرف پیدا واری عمل میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے ، ایسے حالات میں بیروزگاری کی شرح میں تیزی کے ساتھ بڑھتا ہوا اضافہ ، ترسیلات زر کے عمل میں سست روی ، ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سے غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ سے کچھ سوالات جنم لے رہے ؟
الف۔ بالفرض اگر دنیا میں کسادبازاری اور مندی کا عمل جاری ہے تو آخر یہ ساری دولت کہاں اکٹھی ہو رہی ہے اور کن کی تجوریوں میں جارہی ہے ؟
ب۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام مکمل طور پر غالب ہے، وہی اس معاشی بحران کی لپیٹ میں کیوں آرہے ہیں؟
ج۔ وہ ممالک جو رد سرمایہ داریت یا اشتراکیت کے نظریے پر قائم ہیں، بالخصوص روس جو کہ اس وقت بری طرح عالمی پابندیوں کی زد میں ہے،عالمی استعماری طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کے باوجود وہاں پر ایسا معاشی بحران کیوں نظر نہیں آرہا۔؟
آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق اس معاشی بحران کے نتیجے میں پچھلے دو سالوں میں دنیا میں ہر 30 گھنٹے میں ایک ارب پتی (ڈالر میں) کا اضافہ ہوا ہے اور 537 نئے ارب پتی سامنے آئے ہیں۔ جب کہ ہر 33گھنٹے میں تقریبا 10دس لاکھ لوگ خط غربت سے بھی نیچے گر رہے ہیں۔ ارب پتیوں کی دولت میں بیش بہا اضافہ اس لیے نہیں ہوا ہے کہ وہ زیادہ ہوشیار اور عقل مند ہیں یا انھوں نے بہت زیادہ محنت کی ہے ، حال آں کہ مزدور کاشت کار اور پیداواری طبقہ کم اجرت پر اور بدتر حالات میں زیادہ محنت کر رہے ہیں۔ درحقیقیت یہ انتہائی امیر افراد نے پچھلی کئی دہائیوں سےسرمایہ داری کے ذریعے دنیا کے ممالک کی جو دولت دھوکےاور فریب کے ذریعے ہتھائی ہے اب وہ اس کالے دھن کو سفید کررہے ہیں۔ انھوں نے پرائیویٹائزیشن اور اجارہ داریوں کے نتیجے میں دنیا کی دولت کے حیران کن حصے پر قبضہ کر لیا ہے،ریاستی قواعد و ضوابط اور مزدوروں کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے ٹیکس کی پناہ گاہوں میں اپنی دولت جمع کر لی ہے اور یہ سب حکومتوں کی ملی بھگت سے ہے، بلکہ اب تو پس پردہ حکومت میں بھی یہی بڑے بڑے سرمایہ دار مافیاز ہی ہیں جو حکومتی ایوانوں میں اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں، جس کے نتیجے میں دنیا کی مجموعی دولت چند کمپنیوں اور کارٹل کے ہاتھوں میں سمٹتی جارہی ہے ۔
کساد عظیم کے دور میں بھی برطانیہ نے ہندوستان میں سونے کا نرخ بڑھا دیا اور کاغذی کرنسی کے بدلے ہندوستان کا سونا خریدنا شروع کر دیا۔ اگلے دس سالوں میں برطانیہ نے کاغذی کرنسی ادا کر کے ہندوستان کا 1337 ٹن سونا ہتھیا لیا ۔اصل میں جو سونا ہندوستان سے لندن بھیج رہا تھا وہ مقامی آبادی کے کرب و ا بتلا کا نتیجہ تھا۔ لوگ زیور بیچ کر روٹی کپڑے خریدتے تھے اور ٹیکس ادا کرتے تھے۔اس وقت وائسرائے لارڈ ویلنگڈن نے خوشی کا اظہار کیا تھا کہ تاریخ میں پہلی دفعہ معاشی حالات کی وجہ سے ہندوستانی اپنا سونا اُگل رہے ہیں۔سونا خوش حالی کی علامت ہوتا ہےاور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گریٹ ڈپریشن کے دوران جب عوام بھوکوں مر رہے تھے، بینکاروں کے سونے میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔
درحقیقت اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بڑی بڑی بے لگام سرمایہ دار کمپنیوں کے منافع کی شرح کو کنٹرول کرنے اور انھیں حقیقی طور پر ٹیکس کے دھارے میں لانے کی ضرورت ہے ۔تاکہ دنیا کو مزید معاشی بحرانوں سے بچایا جا سکے۔ جو عادلانہ سیاسی و معاشی نظام کے بغیر نا ممکن ہے ۔