ملکی بجٹ 23-2022ء: ایک طائرانہ جائزہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ملکی بجٹ 23-2022ء: ایک طائرانہ جائزہ

    طویل المدتی معاشی منصوبہ بندی کا وطن عزیز میں کوئي خاص رواج نہیں۔ معاشی منصوبہ بندی محض ایک سال کے نمبر گیم کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ نتیجہ یہ کہ

    By امان اللہ گلال Published on Jul 20, 2022 Views 569

    ملکی بجٹ 23-2022ء: ایک طائرانہ جائزہ

    امان اللہ گلال۔ حیدرآباد

    ماہ جون کی آمد ہم سب، بہ شمول سرکاری ملازمین، تاجر، صنعت کار، ایکسپورٹر اور امپورٹر وغیرہ، یعنی معاشی سرگرمی سے جڑے تمام لوگ، طبقات آئندہ مالیاتی سال کی ملکی سطح پر معاشی منصوبہ بندی کے حوالے سے منتظر رہتے ہیں۔ جون پاکستان میں بجٹ کا مہینہ کہلا تا ہے، جس میں ان تمام افراد کے لیے امید یا مایوسی پنہاں ہوتی ہے۔ بجٹ کے اعلان کے بعد اپنی سطح کی مالیاتی منصوبہ بندی میں بجٹ کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔بجٹ میں بنیادی طور پر آئندہ سال کے حکومتی آمدن اور اخراجات کے تخمینہ جات کے ساتھ اس میں وسائل کی تقسیم کا ایک جامع پلان ہوتا ہے۔ آمدن کن ذرائع سے اور کتنی حاصل کی جائے گی اور کن مدات پر کتنی رقم خرچ کی جائے گی۔ یوں ملکی معیشت کے مختلف عناصر کے حاصلات اور لاحاصلات کا ایک چکر ہوتا ہے جو ہر سال گھمایا جاتا ہے۔

    بجٹ کا دوسرا رخ یہ ہوتا ہے کہ یہ قومی سطح پر طویل مدتی اور درمیانہ مدتی معاشی منصوبہ بندی (جوکہ ایک سال سے زیادہ مدت کے پروجیکٹ اور امور ہوتے ہیں) کو سالانہ اہداف میں تقسیم کر کے ہر سال اس منصوبے پر متعلقہ حصے کا کام مکمل کیا جاتا ہے۔ طویل مدتی امور میں ایسے پروجیکٹ جن کو وسائل اور وقت کے حوالے سے ایک سال میں مکمل نہ کیا جائے، جیسے ڈیمز اور شاہراہوں کی تعمیر، بڑے ادارے بنانا، معاشی اصلاحات، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ وغیرہ۔ ان کے علاوہ ایسے امور بھی جن کا تعلق معاشی ماڈل اور ڈھانچے کی تبدیلی کے ساتھ ہوتاہے وہ بھی ایک سال میں چوں کہ مکمل نہیں ہو سکتے، ایسے امور کی سالانہ اہداف میں تقسیم، ان کے لیے وسائل مختص کرنا، بجٹ کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہوا کرتا ہے۔ یوں ایک متعین عرصہ کے بعد ہر سال میں کی گئی چھوٹی چھوٹی اور معمولی تبدیلیاں ایک بہت بڑی تبدیلی کی شکل میں نتائج دیتی ہیں۔10 جون کو پیش کیے جانے والا بجٹ، 28جون 2022ءکو پارلیمنٹ نے اسے حتمی شکل دے دی ، اسکے کچھ خاص فیچرز درج ذیل ہیں؛

    حکومت نے ساڑھے نو ہزار ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ خسارے کا حجم تین ہزار آٹھ سو ارب روپے ہوگا، جو کہ جی ڈی پی، ملکی مجموعی پیداوار، کا چار عشاریہ نو فی صد بنتا ہے۔ آئندہ مالی سال کے کل آمدن میں سے 3،950 ارب روپے، یعنی 41 فی صد قرضہ جات کی مد میں واجب الادا ہوگا۔ 1،523 ارب روپے دفاع اور 808 ارب روپے ترقیاتی فنڈز میں خرچ کیے جائيں گے۔ 4،900 ارب روپے ٹیکس، جب کہ 2،000 ارب روپے نان ٹیکس مدات سے حاصل کیے جائیں گے۔ بجٹ 2022-2023ء کے بجٹ کے ڈاکومنٹ میں اس بجٹ کو گروتھ بجٹ قرار دیا ہے۔ جب کہ اس کے اجزا کا مطالعہ کچھ اور حقائق واضح کرتا ہے۔یہ بجٹ آئی ایم ایف کے احکامات (ویسے تو لفظ شرائط لکھا اور پڑھا جاتا ہے، مگر میں اس کو احکامات ہی لکھ پاتا ہوں) کے تحت بنایا گيا ہے، کیوں کہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالرکا قرضہ فوری طور پر درکار ہے ۔ اس طرح یہ سال عام لوگوں کے لیے یقینا مشکل ثابت ہوگا۔

    اس بجٹ میں آئندہ سال کے لیے حکومت مسلسل " مشکل فیصلہ، مشکل سال، مشکل وقت" جیسے " منفی الفاظ" کے استعمال ہوتے رہیں گے ۔

     یہ بجٹ چوں کہ موجودہ حکومت نے اسے اپنا آخری بجٹ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس لحاظ سے الیکشن سال کا بجٹ ہے تو اس میں کچھ نمائشی فراخ دلی بھی دکھائی گئی،جس میں 15فی صد تنخواہوں میں اضافہ، لیپ ٹاپ سکیم، بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام، کم آمدن لوگوں کے لیے دو ہزار ماہانہ کیش کی تقسیم اور نوجوانوں کے لیے بغیر کسی منصوبے کے لون غیرہ جیسی ناقص سکیمیں اور بے محل معاشی ترجیحات اور منصوبہ بندی جیسی مثالیں شامل ہیں، جن کا خمیازہ ایک عرصے تک بھگتنا پڑے گا ۔ لیکن ان نمائشی اخراجات کی اپنی ایک مکمل داستان ہے جو ہمیشہ ہر حکومت بڑی دلچسپی سے دہراتی رہتی ہے۔ ایک طرف ملک میں معاشی ایمرجنسی کی صورتِ حال کے حوالے سے ذہن بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف نمائشی اخراجات میں اضافہ معاشی منصوبہ بندی کی قابلیت اور تجربے پرکئی سوالات پیدا کرتا ہے۔پیسے اور وسائل کو بلامعاوضہ سخاوت کے طور بانٹنے میں سب سے زیادہ، آسان اور محفوظ کرپشن ہوسکتی ہے، اس لیے حکومتیں اس قسم کی فضول سکیموں کو مسلسل قائم رکھے ہوئے ہیں اور بے تحاشہ وسائل ایسی سکیموں کی نظر کیے جاتے ہیں، جن کی معاشی پیداواری حیثیت صفر ہوتی ہے۔ وگرنہ ایسے "مشکل حالات" میں وسائل کو زیادہ سے زیادہ حد تک غیر پیداواری امور سے نکال کر پیداواری عوامل میں صرف کرنا لازم بن جاتا ہے۔

    طویل المدتی معاشی منصوبہ بندی کا وطن عزیز میں کوئی خاص رواج نہیں۔ معاشی منصوبہ بندی محض ایک سال کے نمبر گیم کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ نتیجہ یہ کہ طویل عرصے سے یہ ملک معاشی حوالے سے ایک مخصوص اور محدود دائرے میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ معاشی منصوبہ بندی کی کوئی خاص سمت متعین نہیں، ہمارا سفر، کسی طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے سال بھر کے سفر پر لگنے والی توانائیاں اور قربانیاں بے کار ہو جاتی ہیں۔ آئندہ سال کے لیے اس بجٹ کے نتائج کے طور پر حکومت ملکی مجموعی پیداوار میں پانچ فی صد بڑھوتری جب کہ مہنگائی کی شرح کے لیے گیارہ فی صد کا ہدف مقرر کر رہی ہے، باوجود اس کے کہ ترقیاتی فنڈز میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 16 فی صد کمی دکھا ئی گئی ہے ۔

    آزاد ذرائع اور معاشی تجزیہ کار ملکی پیداوار اور مہنگائی کے تخمینہ جات کو غیرحقیقی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق مجموعی پیداوار میں اضافہ پانچ فی صد کے بجائے تین سے ساڑھے تین فی صد تک رہے گا، جب کہ مہنگائی حکومت کے اندازے کے برعکس گيارہ اشاریہ پانچ فی صد کے بجائے پندرہ فی صد رہے گی۔ ترقیاتی فنڈ میں کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بلند ہوتا شرح سود معیشت میں اضافے کے بجائے کمی کرے گا، یعنی مجموعی ملکی پیداوار کا سائز سکیڑ دے گا۔ نتیجتاً معاشی سست روی، بے روزگاری اور مہنگا ئی میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ ساتھ ہی بھاری بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے قرضہ معاشی دباؤ کو مزید بڑھانے کا سبب بنےگا۔بجٹ کے بعد پریس کانفرنس میں جب وزیر خزانہ سے سوال ہوا کہ یہ بجٹ ڈالر کے کس ریٹ پر بنایا گیا ہے؟ (جب روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے)۔ اس سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے غلطی اور لا علمی کا اظہار کیا اور اس غلطی پر معذرت کی۔بجٹ بنانے (معاشی منصوبہ بندی) میں حکومت کی ایسی غیرسنجیدگی اور غلط تخمینے کے سبب قوم منی بجٹ کے لیے تیار رہے۔

    Share via Whatsapp