پراپرٹی بزنس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات
کیسے موجودہ پالیسیاں اشرافیہ کے فائدے کے لئے پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچارہی ہیں
پراپرٹی بزنس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات
سعد میر۔ راولپنڈی
مکان ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہےجو پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 38 تمام افراد کو رہائش فراہم کرنے کا ذمہ دار، ریاست کو مقرر کرتا ہے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے ریاست کو بے گھر اور بڑھتی ہوئی آبادی پر توجہ کے ساتھ ٹھوس منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
حالیہ برسوں میں حکومت نے تعمیراتی شعبے کو ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ بھی دیا، جس کے نتیجے میں اس شعبے میں تقریبادو سال میں 35 فی صد مزید سرمایہ کاری ہوئی اور اس کی مالیاتی ویلیو ایک کھرب سے تجاوز کر گئی۔نیز یہ صنعت پاکستان کے جی ڈی پی میں تقریبا 2.5 فی صد اپنا حصہ ڈالتی ہے جو کہ 380 بلین روپے کے قریب بنتے ہیں۔[1[
بہ ظاہر تو یہ اعداد و شمار بہت حوصلہ افزاہیں، تاہم اگر یہ تجزیہ کیا جائے کہ کیا ریاست اپنی ذمہ داری نبھانے میں کامیاب ہوئی ہے اور اس صنعت نے مجموعی طور پر ملکی معیشت، ماحول و عوام پر کیا اثرات ڈالے ہیں تو یقینا مایوسی ہوگی۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اب بھی بے گھر لوگوں کی تعداد تقریباً 20 ملین ہے۔ [2] اس کےعلاوہ ایک بہت بڑی تعداد اپنے گھروں میں غیرمعیاری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مثال کے طور پر، یونیسیف کی ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان میں پچھلی دہائی میں، اوسطاً 3 سے زائد افراد ایک کمرے میں رہنے پر مجبور ہیں جو کہ اقوام متحدہ کی تجویز کردہ 1.4 سے کافی زیادہ ہے۔ [3]
اس شعبے کو صنعت قرار دیے جانے کے بعد مکانات کی قیمت عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مکانات کو ایک ٹریڈنگ کموڈٹی کے طور پر تجارت کیا جا رہا ہے، جہاں معاشرے کے امیر طاقت ور طبقے کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے۔اب اس گروہ کا واحد مقصد کم سے کم وقت میں سرمایہ کاری پر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہے۔
دوسری طرف ریاست کا یہ دعوی ہے کہ اس انڈسٹری سے غریب دہاڑی دار منسلک ہے، جس سے اس کو روزگار مل رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ریاست نے اس غریب کی معیار زندگی کو بہتر بنانےاور اس کے کام کی جگہوں و طریقہ کار کو محفوظ بنانے کے لیے بھی کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔
یہ سوال بھی انتہائی اہم ہے کہ کیا اس مزدور کی دہاڑی اتنی ہے، جس سے وہ اس مہنگائی کے طوفان میں اپنے خاندان کی کفالت کرسکے گا۔ نیز اپنے لیے چھت کا بندوبست کرسکے گا؟
اصل بات تو یہ ہے کہ تعمیراتی صنعت کے پاکستان کے ماحول و معیشت پر منفی اثرات کے بارے میں اب تک باقاعدہ ریسرچ کر کے اسے دستاویزی شکل ہی نہیں دی گئی ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں حکومتوں نے اس شعبہ میں کالا دھندہ کرنے والوں کو سزا دینے کے بجائے ان کی دولت کو سفید کرنے کے قانونی مواقع فراہم کیے ہیں۔ مثال کے طور پر 2018 ء میں پارلیمنٹ نے یہ بل منظور کیا کہ کوئی بھی اپنے اثاثے ظاہر کرسکتا ہے اور اس سے اس کی دولت کے ذرائع کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ صرف ایک معمولی سا ٹیکس ادا کرکے اپنی تمام تر لوٹ مار کو قانونی رنگ دے دیں۔ اسی طرح 2020 ءمیں تعمیراتی شعبے کو صنعت کا درجہ دیا گیا تو اس کے ساتھ ساتھ اس صنعت میں سرمایہ کاری کرنے والے افراد سے وعدہ کیا گیا کہ ان سے ان کی دولت کے ذرائع کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔
ماہر معاشیات آج کل اس پراپنی آرا دے رہے ہیں کہ کیسے طاقت ور حلقوں نے اپنے محدود فائدے کے لیے ہمارے ملک کو rent seeking economy بنا دیا ہے، جہاں چند گروہ یا ادارے بغیر کسی پیداواری شراکت کے دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتےہیں، جس کے نتیجے میں دولت کے ارتکاز میں اضافہ ہوا ہے۔ چوں کہ کنسڑکشن اور ریئل اسٹیٹ کے شعبہ میں سرمایہ کاری جلد اورسب سے زیادہ منافع دے رہی ہے، اس وجہ سے ان صنعتوں اور شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں ہورہی جو کسی بھی ملک کی ترقی و خوش حالی کے لیے اہم ہیں مثلا مینوفیکچرنگ، ٹیکنالوجی،یا کوئی بھی ایسی صنعت جہاں محنت و ریسرچ کی بنیاد پر کوئی ایسی پراڈکٹ بنائی جائے، جسے ایکسپورٹ کرکے پاکستان کے تجارتی خسارہ کو کم کیا جاسکے۔
اس سارے عمل کے دوران عامر لطیف برائے انادولو ایجنسی نے رپورٹ میں ایک خوف ناک انکشاف کیا ہے۔اس کے مطابق پاکستان کے کسان بورڈ کے سیکرٹری جنرل شوکت علی چدھڑ نے بتایا کہ صوبہ پنجاب میں تقریباً 20 سے 30 فی صد زرخیز زمین، جو کہ ملک کی خوراک کی کل ضروریات کا 65 فی صد پورا کرتی تھی، کو صنعتی یونٹس اور ہاؤسنگ سکیموں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔[4[
صرف لاہور میں 70 فی صد زرعی اراضی کو ہاؤسنگ اور صنعتی یونٹس میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اس کے بعد گجرات کا نمبر ہے، جہاں یہ تناسب 60 فی صد ہے۔ شوکت علی کے مطابق، "لاہور میں، باقی 30 فی صد زرخیز زمینیں صرف سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر محفوظ ہیں کیوں کہ وہ ہندوستان کی سرحد کے قریب واقع ہیں۔"
انھوں نے مزید کہا کہ وسطی پنجاب کے دیگر زرعی اضلاع میں جنھیں مرکنٹائل پنجاب بھی کہا جاتا ہے، جیسے فیصل آباد، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور قصور میں، 30% سے 40% زرخیز زمین رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز اور صنعت کاروں کو فروخت کر دی گئی ہے۔[3[
ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اگر اسی طرح زرعی زمینوں پر سوسائٹیاں بنتی رہیں تو پاکستان کو مقامی طور پر بنیادی خوراک کی پیداوار و فراہمی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑےگا۔
حاصل بحث یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ معیشت میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کا لالچ سماج کی تباہی کی بنیاد بنتا ہے، جہاں آٹھ کروڑ سے زیادہ افراد سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں تو دوسری طرف یہاں کا اشرافیہ یہاں سے دولت اٹھا کربیرون ممالک بھیج رہا ہے۔ ایسے میں ریاست اپنے بنیادی فرائص نبھانے کے بجائے ایک مخصوص طبقہ کی سہولت کے لیے کام کرتی ہے۔
[1] https://invest.gov.pk/housing-and-construction#:~:text=The%20 country's%20construction%20industry%20accounts,to%20the%20Pakistan%20Economic%20Survey.
[2] [2] https://english.alarabiya.net/features/2018/11/13/-Shelter-homes-Understanding-Imran-Khan-s-initiative-for-Pakistan-s-homeless
[3]https://web.archive.org/web/20210704100224/https://bisp.gov.pk/SiteImage/Misc/files/Quantity-and-Quality.pdf
[4] https://www.aa.com.tr/en/anadolu-agencys-100th-year/pakistani-journalists-greet-anadolu-agency-on-100th-anniversary/1793719