اجڑے کھیت اور خالی گھر - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اجڑے کھیت اور خالی گھر

    رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری سے ملکی معیشت کو شدید نقصان اور غربت، مہنگائی میں اضافہ اور ایک انسان کے گھر بنانے کا خواب ناممکنات میں سے ہوگیا

    By Rao abdul hameed Published on May 05, 2019 Views 3157

    جڑے کھیت اور خالی گھر

    تحریر : راؤ عبدالحمید ۔ لاہور

    ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں امن وامان کا قیام، معاشی سرگرمیاں اورانسانی بنیادی حقوق کی فراہمی سر فہرست ہوتی ہیں۔ معاشی سرگرمیوں کو اس طرح سے قابو میں رکھا جانا چاہیے کہ کوئی بھی طبقہ کسی دوسرے طبقے کا استحصال نہ کر سکے. خاص طور پر ان اسباب کی فراہمی جن کا تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہو. انسان کی بنیادی ضروریات میں، رہنے کے لئے ایک ایسی رہائش گاہ، جہاں وہ قدرتی عوامل سردی، گرمی، بارش، آندھی،طوفان، دھوپ وغیرہ سے محفوظ رہ سکے اور اس کی ذاتی زندگی میں غیر ضروری مداخلت نہ ہو سکے، بھی شامل ہے۔

    اصلاحی معاشروں میں بنیادی حقوق کے اسباب انتہائی ارزاں قیمت پر یا حکومت کی طرف سے مفت  دستیاب ہوتے ہیں. ان سے منسلک کاروبار کے شرح منافع کو حکومتی مداخلت یا سبسڈی سے قابو میں رکھا جاتا ہے. جیسے خوراک سے متعلق اجناس کی قیمت کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ویسے ہی رہائش سے متعلق اسباب کو بھی کنٹرول کیا جانا چاہیے. اس شعبے کی بنیادی شے زمین کا وہ قطعہ ہے جس پر گھر بنانا مقصود ہوتا ہے، پھر اس کو مکمل کرنے کے سامان، اینٹ سریا، بجری، سیمنٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔

     زمین کی خرید و فروخت تو ہمیشہ سے ہی ہوتی رہی ہے، پاکستان میں زمین کی قیمت کم و بیش بیس سال پہلے تک انتہائی مناسب ہوتی تھی، زمین کی خریداری کم قیمت پر ہوتی تھی اور اس پر آنے والی لاگت زیادہ ہوتی تھی. ایک گھر بنانے کے لیے جو سامان درکار ہوتا ہے اس سے کم ازکم چالیس طرح کی صنعتیں چلتی ہیں اور ریاست میں معاشی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں. انسان کی رہائش کی بنیادی ضرورت بھی بہ آسانی پوری ہوتی ہے اور معشیت کا پہیا بھی چلتا رہتا ہے.

    2000  کی پہلی دہائی میں رہائشی زمینوں کے کاروبار کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی. سرمایہ کاروں کا رخ صنعت سے نکال کر رہائشی اور کمرشل زمینوں کی خرید و فروخت کی طرف کر دیا گیا. اس سے حکومت کو شاید وقتی فائدہ تو ہوا لیکن عوامی سطح پر یہ کاروبار زہر قاتل ثابت ہوا اور سلسلہ تاحال جاری ہے.

    اس کاروبار کی شرح منافع کو بے لگام چھوڑ دیا گیا جس سے سارا سرمایہ جو کسی بھی پیداواری عمل میں شامل ہو کر ریاست کی معیشت کا پہیا چلائے ہوئے تھا نکل کر رئیل سٹیٹ کے کاروبار میں آگیا. یہ کاروبار پیداواری عمل سے عاری تھا. صرف زمین کی خرید و فروخت سے محدود نوعیت کی دولت گردش میں رہنے لگی. فیکٹریوں اور کارخانوں میں شرح منافع کم ہونے کی وجہ سے صنعت سے وابستہ لوگ، جو اصل میں ملک کی معیشت کو چلائے ہوئے تھے، وہ بھی اسی طرف راغب ہوگئے. صنعت میں پیداوار پر شرح منافع  اگر 20 فی صد ہو تو بہت ہی اچھا منافع سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں رئیل سٹیٹ میں سرمایہ کاری سے شرح منافع کئی سو فی صد بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے رئیل سٹیٹ کے برانڈ کا شرح منافع کئی ہزار فی صد تک پہنچ گیا. لیکن پیداواری عمل رک گیا،  ایک فیکٹری میں اگر ایک کروڑ روپے کے ماہانہ کاروبار کے لیے سینکڑوں لوگ درکار تھے تو اسی درجے کے رئیل سٹیٹ کے کاروبار کے لیے محض دوچار لوگ.

    اس شعبے میں غیر ضروری اور غیر معمولی سرمایہ کاری سے انسانی بنیادی ضرورت کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی، ایک عام آدمی کا گھر بنانے کا خواب ادھورا رہ گیا، ماہانہ آمدن ہزاروں میں اور پلاٹ کروڑوں کی مالیت کا ہو گیا. اس شعبے میں سرمایہ کاروں کے گروہ بن گئے، زرعی زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر کروڑوں روپوں میں بیچی جارہی ہیں. دولت کا توازن مسلسل بگڑ رہا ہے جس سے کرپشن، رشوت خوری اور بےروزگاری بڑھنے سے چوری ڈکیتی اور امن امان کی صورت حال دگرگوں ہوتی جارہی ہے۔

      نتیجہ حاصل یہ کہ ہر کاروبار، ریاست اور اجتماعیت کے لیے فائدہ مند نہیں ہوا کرتا۔ ہر شعبے کی اپنی نوعیت اور اس کے معاشرہ پر اثرات ہوتے ہیں. زمین اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے تاکہ انسان اس سے فائدہ اٹھائیں. نہ کہ غیر معمولی سرمایہ کی بدولت زمین کو انسانوں کے لیے تنگ کر دیا جائے. دنیا میں جہاں جہاں کیپیٹل ازم نے اپنے پنجے گاڑے وہاں وہاں انسانی بنیادی ضروریات وہاں کے باشندوں سے دور ہوتی گئی. چاہے وہ عرب ممالک ہوں، یورپ ہو یا امریکہ انسان بنیادی ضروریات کے سامنے گحٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے.


    Share via Whatsapp