یوم مئی ؛ محنت کشوں سے کھلواڑ کا دن
یوم مزدور کو صرف نعروں ، تحریروں اور تقریروں کی حد تک منایا جاتا ہے مزدوروں کے لئے کوئی عملی جدوجہد نہیں کی جاتی
یوم مئی ؛ محنت کشوں سے کھلواڑ کا دن
محمد شہزاد۔ گوجرانوالہ
بوجھ کاندھوں سے کم کرو صاحب!
دن منانے سے کچھ نہیں ہوتا
اس بار بھی پھر وہی کچھ دہرایا گیا جو کئی عشروں سے کیا جا رہا تھا۔ یکم مئی کو یوم مزدور منانے کا وہی روایتی اور گھسا پٹا انداز
بوڑھے مزدوروں کو محنت اور مشقت کرتے دکھا کر،
بچوں کی جبری محنت و مشقت کی تصاویر بنا کر،
مزدوروں کی حالتِ زار کو بیان کر کے،
مزدوروں پر ہونے والے مظالم کو تحریر میں لا کر،
محنت کشوں کے حقوق سلبی کی داستان بیان کرکے،
مزدوروں کے حق میں نعرے لگا کر،
سوشل میڈیا پر مزدوروں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ کر،
اخبارات میں کالم لکھ کر ،
میڈیا چینلز پر مزدوروں کی ہمدردی اور خیرخواہی کے پروگرام کر کے،
بینرز اٹھا کر سڑکوں پر علامتی ریلی نکال کر ،
مزدوروں کے بارے میں نیک تمناؤں کا اظہار کر کے،
مزدوروں کے حق میں کھوکھلی قراردادیں پاس کر کے،
مزدوروں کا عالمی دن منا یا گیا۔
کیا ان تحریریں لکھنے والوں کو صرف دادِ تحسین وصول کرنے، انسانی حقوق کی تنظیموں کو صرف چندہ اکٹھا کرنے اور میڈیا چینلز کو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے علاوہ کچھ حاصل ہوا؟
ان سرگرمیوں کے نتیجے میں مزدوروں کو کیا ملا؟
کیا ان کی زندگی بدل گئی؟
کیا وہ خوش حال ہو گئے؟
کیا ان کو عزت دار شہری مان لیا گیا؟
کیا ان کی اجرت ان کی ضروریاتِ زندگی کے مطابق کر دی گئی ؟
کیا ان کی محنت و مشقت کم ہو گئی ؟
کیا ان کے بچے معیاری اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہو گئے ؟
کیا ان کو علاج معالجے کی سہولیات میسر ہوگئیں ؟
کیا ان کو اپنا گھر میسر ہوا ؟
اگر تو یہ سب حقوق مزدوروں کو میسر ہو گئے پھر تو اسی طرح یوم مزدور منا نا چاہیے، بلکہ دوسروں کو بھی دعوت دینی چاہیے۔ ورنہ ہمیں سوچنا ہو گا اور اپنی سرگرمیوں کا جائزہ لینا ہوگا اور یہ جاننا ہوگا کہ کیا ہمارے دلوں میں محنت کشوں، مزدوروں اور محرومیوں کا شکار لوگوں کا حقیقی احساس پیدا ہوا ہے؟
حقیقت بینی سے دیکھا جائے تو معذرت کے ساتھ یہ کہوں گا ’’جی نہیں! ہمارے اندر ان کا احساس بالکل نہیں ہوا ‘‘
اگر احساس ہوتا تو ہم ان کے لیے عملی طور پر کچھ کرتے۔ ہم اپنے ملک میں ایک ایسا معاشی نظام تشکیل دیتے، جس میں مزدوروں کے حقوق ادا ہوتے، جس میں مزدور ذلیل و رسوا نہ ہوتے۔ایسا معاشی نظام جو مزدورکو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اجرت ادا کرے۔ ایسا معاشی نظام جو محنت کی بنیاد پر تشکیل پائے اور (الکاسب حبیب اللہ: محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے ) محنت کرنے والے کو معاشرے میں عزت حاصل ہو۔ جس معاشی نظام میں زکوۃ دینے والے تو ہوں، لیکن زکوۃ لینے والے نہ ہوں(خلیفہ عمر بن عبد العزیزؓ کا دور )، جس معاشی نظام میں بے روزگاروں کو بےروزگاری الاؤنس دیا جائے(حضرت عمر ؓ فاروق کا دور)، جس نظام میں کوئی بھوکا نہ سوتا ہو(خلیفہ ولید بن عبدالملکؒ کے دور میں)
کیا ہم نے ایسا معاشی نظام تشکیل دینے میں عملی جدوجہد کی یا زبانی جمع خرچ پر ہی اکتفا کیا ؟
ایسی کاوشیں جو صرف تحریروں ، تقریروں یا زبانی کلامی ہوں اور صرف دادِ تحسین وصول کرنے کے لیے ہوں، جو صرف اچھے تعریفی (comments) وصول کرنے کے لیے ہوں اور عملی طور پر کچھ نہ کرنے پر ختم ہو جاتی ہوں وہ منافقت کے زمرے میں آتی ہیں ۔
قرآن حکیم نے منافقین کی ایک نشانی ایسی ہی بتائی ہے۔ (لم تقولون ما لا تفعلون: تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو)
زبان و کلام اور قلم و تحریر تو مزدوروں کے حق میں ہو لیکن عملی طور پر ان کے لیے خوش حالی پیدا کرنے والا، ان پر ہونے والے مظالم ختم کرنے والا اور ان کے حقوق ادا کرنے والا معاشی نظام بنانے کی جدو جہد نہ کرنا، یہ منافقت ہے ۔
قرآن حکیم نے فرعون کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرعون نے طبقات بنائے ہوئے تھے ایک بہت بڑا کمزورطبقہ بنایا ہوا تھا اسے قرآن نے (استضعفوا، کمزور لوگ) کہا ہے۔ یہ محروم المعیشت لوگ تھے انھیں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (ونرید ان نّمنّ علی الّلذین استضعفوا فی الارض : اور ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ زمین پر کمزور کر دیے گئے ہیں ان کو (ملک کے)سردار اور وارث بنادیں )۔ اللہ تعالیٰ کی منشا اور ارادہ یہی ہے کہ ان کمزور اور محروم المعیشت لوگوں کو سردار بنائیں کیوں کہ اسی طبقے کو کمزور لوگوں کا حقیقی احساس ہوتا ہے اور وہ ان لوگوں کو محرومیوں سے نکالنے کے لیے حقیقی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں منافقت سے بچائے اور آج کے دور میں ہمارے لیے درست نظریہ اور درست عمل کی راہ متعین فرمائے۔ آمین!