پاکستانی سیاست کا کھیل - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستانی سیاست کا کھیل

    There was no change regarding the economic policies, observed during the Govt of PTI even it was the same as policies during PML N govt.

    By Fahad Muhammad Adiel Published on May 04, 2022 Views 765

    پاکستانی سیاست کا کھیل 

     حکومتوں کی تبدیلی اور سرمایہ دارانہ نظام کا تسلسل 

    فہد محمد عدیل۔ گوجرانوالہ

    سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف دنیا بھر میں جیسے جیسے احتجاج بڑھ رہا ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے پالیسی میکرز اپنی پالیسیز میں تبدیلیاں کررہے ہیں۔ اور دنیا کے کمزور ممالک پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے عالمی پابندیوں اور سیاسی مداخلت سمیت ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام عوامی احتجاج سے بچنے کے لیے عوام کو بنیادی حقوق کی بابت منتخب سہولیات دینے پر آمادہ ہے۔ اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام اپنی فیوڈل شکل میں موجود ہے۔ بدقسمتی سے ملک عزیز میں بھی سرمایہ دارانہ نظام بدترین شکل میں انسانیت کا استحصال کررہا ہے اور ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ نظام کے گماشتہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔

    پی ٹی آئی کی پیش رو حکومت مسلم لیگ ن کی معاشی پالیسیز سرمایہ دارانہ نظام کو قائم و دائم رکھنے کےلیے مشہور ہیں۔جب کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کیا ملک میں ان ہی معاشی پالیسیز کو جاری رکھا یا اپنے تین سالہ دور اقتدار میں مفادِ عامہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کو ریلیف دینے کے لیے معاشی و سیاسی اصلاحات متعارف کروائیں؟

    پاکستان میں مالیاتی پالیسی کے پیش نظر سب سے بڑا چیلنج مالیاتی خسارہ ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے پچھلی تمام حکومتوں نے آئی ایم ایف کے پروگرامز کو ملک میں نافذ کیا ۔اور اس کا نتیجہ یہی نکلتا رہا کہ معاشی طور پر ملک میں آئی ایم ایف کا شکنجہ مضبوط ہوتا رہا ۔ ٹیکسز کا نفاذ، تیل کی قیمتوں کا تعین، تنخواہوں، پنشنز، اجرتوں کا تعین، تعلیم و صحت کے مختص بجٹ سمیت حکومت کے عوامی معاشی ریلیف وغیرہ کے تمام فیصلے آئی ایم ایف کی ہدایات پر ہوتے ہیں اور ملک کا وزیر اعظم ہو یا وزیر خزانہ تمام افراد آئی ایم ایف کے ملازمین کی حیثیت سے کام کررہے ہوتے ہیں۔

    تحریک انصاف کی حکومت کے شروع میں ملک میں غیر پیداواری اور حکومتی عہدیداروں کے پروٹوکول پر اٹھنے والے اخراجات کو سیاست کا موضوع بنایا گیا۔ جوکہ مالیاتی خسارے کی بہت بڑی وَجہ ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ حکومتی وسائل کے بے دریغ استعمال، غیرپیداواری اخراجات کے کنٹرول اور مالیاتی خسارے کی بڑی وَجہ بننے والے اخراجات کو کنٹرول کرنے کی کوئی حکومتی حکمت عملی بنائی جاتی اور اس پرسختی سے عمل کروایا جاتا، مگر نہ تو وزرا ، عدلیہ، انتظامیہ کے پروٹوکول اور ان کے اخراجات میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی اس پر کو ئی حکمت عملی بنائی جا سکی۔

    تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا بڑا چیلنج ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانا تھا، اور انکم ٹیکس یعنی بلا واسطہ ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانا تھا، جس کے لیے ایف بی آر کا چیئر مین بھی باہر سے لایا گیا۔اس کے لیے ایف بی آر نے فائلرز اور نان فائلرز کا نعرہ لگایا۔اَب چوں کہ پاکستان میں بلاواسطہ ٹیکس دہندگان میں اکثریتی طبقہ سرکاری و نیم سرکاری ملازمین ہیں، جن کی تنخواہیں ٹیکس کٹوتی کے بعد ادا کی جاتی ہیں۔ چوں کہ تمام سرکاری ملازمین چھوٹے درجے سے لے کر افسران تک ریٹرنز فائل کرنے پر مجبور تھے۔اس لیےحکومتی عہدیداران نے شور مچانا شروع کردیا کہ ہم نے ریٹرن فائلنگ کا ٹارگٹ حاصل کرلیا ہے۔

    مگر جب ٹیکس نادہندہ تاجر، بزنس مین اور فیکٹری مالکان وغیرہ کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا تو ملک میں حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ اور نوبت یہاں تک آگئی کہ ایف بی آر چیئر مین کو حکومت کو فارغ کرنا پڑا۔ اور ٹیکس کا وہی فرسودہ نظام عوام کے مقدر میں آیاجو کہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے کہ ٹیکسز کا بوجھ بالواسطہ ٹیکسز کی صورت میں عوام کی گردنوں پرڈال دیا جائے۔ نیز حکومت نے جنوری 2022ء میں آئی ایم ایف کی ہدایات پر بہت سی ٹیکس مستثنیات کو بھی ختم کردیا۔ سرکاری و غیرسرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اصلاحات کا عمل بھی ن لیگ کی حکومت سے پہلے زیر التوا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت اس پر بھی کوئی اصلاحاتی پیکیج متعارف کروانے میں ناکام رہی۔اس کے برعکس آئی ایم ایف کی جانب سے پنشنرز کو قومی خزانے پر ایک بڑا بوجھ قرار دیا گیا۔

    ملک میں مہنگائی کی بڑی وجوہات سیاسی بدانتظامی ، طلب و رسد کا عدم توازن، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں بڑا اضافہ اور تمام شعبوں پر سیاسی و کاروباری مافیاز کا راج ہے۔ جیسا کہ گندم ، اجناس اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجوہات پیداواری مصارف بجلی، بیج کی قیمتوں میں اضافہ اور ملک میں کھاد مافیا کا حکومت کے کنٹرول سے باہر ہونا ہے۔نیز غلہ منڈیوں میں آڑھتی طبقہ اور اسٹاکسٹ بھی اس میں شامل ہیں۔ 

    تحریک انصاف کے دور میں ہی جب وزیراعظم کی طرف سے مہنگائی پر نوٹسز لینے کا سلسہ جاری تھا تو حکومتی نمائندوں کی طرف سے پاکستان میں آڑھت کے نظام پر بہت تنقید کی گئی۔اور کہا گیا کہ جب تک کسانوں کو مڈل مین کے بغیر منڈیوں تک رسائی نہیں دی جاتی اس وقت تک اجناس کی قیمتوں کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔جب کہ حکومت اس سلسلے میں بھی آڑھتیوں ، اسٹاکسٹ کے خلاف نہ تو کوئی قانون لاسکی۔اور نہ ہی منڈیوں کے موجودہ نظام میں دیگر شعبوں کی طرح کو ئی اصلاحات اپنے دور اقتدار میں متعارف کرواسکی۔اور روزمرہ اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا وہی پرانا طریقہ جو نوازشریف اور شہباز حکومت میں اپنایا جاتا رہا، یعنی رمضان بازاروں کی طرز پر بازار بنا کر بیوروکریسی کی نگرانی میں کام کروایا گیا۔اور ناقص حکمت عملیوں کی وَجہ سے مہنگائی کی عفریت حکومت وقت قابو کرنے میں ناکام رہی۔

    پاکستان کی تجارتی صورتِ حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستان اسی طرح عالمی اشیا کی منڈی بنا رہا،جس ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو۔اس ملک کی اشرافیہ کے اخراجات میں کروڑوں روپے کی پر تعیش گاڑیاں، لاکھوں روپے کی اشیا تعیش نہ صرف پاکستانی معیشت کے امپورٹ بل کو بڑھاتے رہے، بلکہ یہاں کے محنت کشوں کی کمائی کو بیرون ملک منتقل کرتے رہے۔ پاکستانی کرنسی کی قدر خطے کے تمام ممالک سے غیر مستحکم رہی۔ ن لیگ کی حکومت کا چھوڑا ہوا پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کا حجم بھی پی ٹی آئی دور میں بے لگام رہا جو کہ ماہرین معاشیات کے نزدیک صریحاً سیاسی بد انتظامی کا نتیجہ ہوتا ہے۔

    تحریک انصاف نے تین سالہ دور اقتدارمیں اگرچہ شرح سود میں کمی کی، مگر اس کے ثمرات سرمایہ دارانہ نظام کی وَجہ سے چھوٹی سطح کے قرضہ جات کے ضرورت مندعوام تک نہیں پہنچے۔بلکہ پرسنل لون کے مد ات میں پاکستان کے بینک 20 سے 25 فی صد شرح سود پرقرضوں کے اجرا کر کےغریب اور متوسط طبقات کا خون چوستے رہے۔ سب سے بڑھ کر آئی ایم ایف کی ہدایات پر پاکستان کے قومی بینک یعنی اسٹیٹ بینک کو حکومت کی پالیسیوں سےآزاد کر کےآئی ایم ایف کے ماتحت کرنے کا بل اسمبلی سے منظور کروا لیا،جس پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی کو ئی بڑا احتجاج سامنے نہ آیا۔ گویا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی پالیسیز کو ملک میں نافذ کرنے میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں۔

    اگر یہ کہا جائے کہ ملک عزیز میں سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں کوئی بھی حکومت آجائے تو پاکستان عوام کے معاشی حالات میں بہتری نہیں آسکتی۔ اپریل 2022 ءمیں اقتدار کی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی ن لیگ کی حکومت کے معاشی اہداف کیا ہیں اور وہ عوام کو عالمی کساد بازاری کے ماحول میں کیا ریلیف فراہم کرتی ہے۔اس کا اندازہ نعروں اور دعوؤں کے بجائے تمام جماعتوں کی ماضی کی حکومتوں اور ان کی پالیسیوں سے کیا جا سکتا ہے۔اس لیے جب تک ملک میں سرمایہ دارانہ نظام مسلط ہے۔محض حکومتوں کی تبدیلی اور خوب صورت نعروں سے عوام کے مسائل حل ہونے کی کوئی امید نہیں۔اس لیے ہمیں حکومتوں کی تبدیلی کے کھیل سے نکل کر تبدیلی نظام کی شعوری جدوجہد کا راستہ اپنانا ہوگا۔

    Share via Whatsapp