ملکی معیشت کے بگاڑ میں اشرافیہ کا کردار
پاکستان کے بننے سے ابتک چند خاندان ہی اس ملک پر مسلسل حکمرانی قائم رکھے ہوئے ہیں اور ان کے فیصلہ عوامی فلاح کے بجائے ذاتی مفاد پر مبنی ہوتے ہیں۔
ملکی معیشت کے بگاڑ میں اشرافیہ کا کردار
سعد میر ۔ راولپنڈی
پاکستان کے وزیراعظم نے گزشتہ ماہ ایک تقریب میں خطاب کے دوران اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا : وہ عوام کو سمجھا نہیں پا رہے کہ مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف، کئی سیاسی و سرکاری تقرریاں اپنی مرضی کے مطابق کیں، آرڈینینس جاری کیے اور کئی نوٹیفیکیشن روک دیے۔اس سب کو دیکھ کر ایک عام انسان بات سمجھ نہیں پاتا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف حکومت روزمرہ کی بنیاد پر اقدامات کرتی نظر آرہی ہو اور دوسری طرف عوام کے حالات بہتر نہ بنا پا رہی ہو۔
اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا کہ کسی ایک شخصیت کو تمام مسائل کا حل بتایا گیا ہو، اس کو اقتدار بھی مل گیا ہو اور وہ عوام کے حالات بہتر کرنے میں ناکام ہوگیا ہو۔ بلکہ ہر دور میں نعرہ بدلتا رہا ہے۔ کبھی روٹی کپڑا اور مکان، کبھی اسلام، کبھی روشن خیالی، کبھی ایشین ٹائیگر اور کبھی ریاست مدینہ۔
غرض یہ کہ عوام کو دھوکہ دینے کے لیے ہر دور کے مطابق بہترین عنوان منتخب کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن کبھی بھی نظام ظلم کا مکمل تعارف عوام کے سامنے نہیں رکھا گیا۔ نوجوان کو کبھی یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ جس ملک میں رہتا ہے وہ معاشی طور پر بین الاقوامی اداروں کی غلامی میں ہے اور یہ غلامی یہاں کے مقتدر طبقہ کی مرہون منت ہے۔
پاکستان کے بننے سے اب تک کی حکومتوں و ریاستی اداروں کے سربراہان کی فہرست مرتب کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ چند خاندان ہی اس ملک پر مسلسل حکمرانی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جن کے پیش نظر صرف اور صرف ذاتی مفادات ہیں۔ وہ ہر قدم ایسا اٹھاتے ہیں، جس سے ان کے کارخانے اور کاروبار تو ترقی پاتے ہیں۔ لیکن عوام کے لیے معاشی بد حالی پیدا ہو جاتی ہے۔ایک طرف یہاں کی ٹاپ کی ایک سو کمپنیاں تو سال میں تقریبا ایک ہزار ارب روپے کا منافع کمارہی ہوں، لیکن دوسری طرف معلوم ہو کہ اسی ملک کی معاشی حالت خراب ہے، جسے سہارا دینے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے پاس جانا پڑے گا اور پھر ان سے ایسی شرائط پر قرضہ لیا جاتا ہے، جس کا بوجھ عوام پر آتا ہے۔ جب کہ اشرافیہ کی اپنی عیاشیاں جاری رہتی ہیں۔ اس میں اگر کوئی ابہام ہو تو آئی ایم ایف سے قرضے کی نئی قسط حاصل کرنے کے لیے شرائط و مذاکرت کی داستان پڑھ لیں۔ تمام ایسی شرائط ہیں جن کا اثر براہ راست ایک عام انسان کی زندگی پر ہے۔
مثلاحالیہ دنوں میں، آئی ایم ایف کے دیے گئے 225 ارب کے مزید اہداف کو حاصل کرنے کے لیے تنخواہ دار اور چھوٹے تاجر طبقے پر مزید ٹیکسز کا بوجھ لاد دیا گیا۔اور اس کے لیے تمام قانونی کارروائیاں مکمل کرنے کے لیے اپوزیشن وحکومت نے مل کر منی بجٹ بھی منظور کر لیا۔ جب کہ دوسری طرف اس ملک کی اشرافیہ کی جاگیروں سے حاصل کردہ آمدنی پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا اور نہ ہی اس کی شرح پر اضافہ کیا گیا۔
2019ء میں اس ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ نے اپنی زرعی زمین کی آمدنی ظاہر کی تو اس پرصرف 2 فی صد کے حساب سے 22 لاکھ ٹیکس ادا کیا گیا تھا۔ اتنی ہی آمدن اگر کسی کاروبار یا تنخواہ سے ظاہر کی جاتی تو اس پر 34 فی صد تک کی شرح سے 4 کروڑ سے زائد ٹیکس ادا کرنا پڑتا۔
ہماری معیشت کے سب سے زیادہ آمدنی والے طبقے کی طرف سے کم ٹیکس ادا کرنے کی وجہ سے، تنخواہ دار اور کاروباری طبقے غیرمعمولی طور پر زیادہ شرحوں کے ساتھ خلا کو پُر کرنے پر مجبور ہیں۔ ستم یہ ہے کہ انھیں سیاست دانوں کی جانب سے عوام کو ٹیکس چور کہا جاتا ہے، لیکن اپنے مفاد میں خود قانون سازی کرکے اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ معاہدات کے ذریعے اپنی تمام تر آمدنی کو نہ صرف ٹیکسوں سے محفوظ رکھتے ہیں، بلکہ یہاں کا پیسہ بھی بیرون ممالک بھیج دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے لیے پاکستان کے سابق ڈائریکٹر مارک آندرے نے اپنے حالیہ انٹرویو میں یہاں کی اشرافیہ کے پول کھول کر رکھ دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ " یہاں کی اشرافیہ کے موجودہ رویوں کے ہوتے ہوئے یہاں کی معیشت اور عوام کے حالات کبھی بہتر نہیں ہوسکتے۔ ایسی اشرافیہ نہیں ہونی چاہیے جو:
پیسہ کماتے وقت بہت سستی اور ان پڑھ لیبر کا فائدہ اٹھائے، مگر جب پارٹی کی سیاست کرنے کا وقت آئے تو وہ لندن میں پائی جائے۔
جب چیزیں اور جائیداد خریدنے کا وقت ہوتا ہے تو وہ دبئی، یورپ اور نیویارک میں ہوتا ہے“۔
اس نے ان جاگیرداروں کے بارے میں جو یہاں کے مقتدر طبقہ کا بڑا حصہ ہےاور سرمایہ دار سے گٹھ جوڑ کیے ہوے ہے، بتایا :
"میں نے چند بڑے زمین داروں سے ملاقات کی ہے، جنھوں نے صدیوں سے (یہاں کی) زمین اور عوام کا استحصال کیا ہے، پانی کے لیے تقریباً صفر رقم ادا کی ہے، اور کس طرح وہ لوگوں کو اپنا معاشی اور سیاسی غلام بنا لیتے ہیں۔ پھر وہ اقوام متحدہ یا دیگر عالمی معاشی اداروں کے پاس آتے ہیں اور ہم سے اپنے ضلع کے لوگوں کے لیے پانی، صفائی اور تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے کو کہتے ہیں۔ مجھے یہ کافی شرمناک لگتا ہے"۔
اس سب سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ عوام کے لیے ان معاشی مشکلات کا ذمہ دار یہاں کی اشرافیہ ہے اور جب تک ان کا نظام موجود ہے،اسے تبدیل کیے بغیر حالات بہتر ہونے کی امید رکھنا ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔