انتہائی صارفیت(Hyper-Consumerism) کا رجحان اور سرمایہ دارانہ محرکات کا جائزہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انتہائی صارفیت(Hyper-Consumerism) کا رجحان اور سرمایہ دارانہ محرکات کا جائزہ

    انتہائی صارفیت سرمایہ دارانہ ماحول کے تابع انسانوں کے عادات و خصائل بگاڑکر لوگوں کو غیر ضروری و غیر پیداواری اشیاء خریدنے کی مسلسل ترغیب دے

    By haroon rasheed Published on Feb 23, 2022 Views 1087

    انتہائی صارفیت (Hyper-Consumerism) کا رجحان اور سرمایہ دارانہ محرکات کا جائزہ

    ہارون رشید۔راولپنڈی

    پچھلی چند دہائیوں میں بازاروں ، شاپنگ مالز ، ہائپر مارٹ(Hyper-mart) اور ریستورانوں و ہوٹلز وغیرہ کے کاروبار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔ یہ صورتِ حال پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی معاشی سرگرمیوں یعنی خریدو فروخت کے عمل میں دیکھنے میں بھیآئی ہے، بلکہ پاکستان تو اس عمل میں یورپ و امریکا کا بھرپور مقلدثابت ہوا ہے۔گو کہ یہ سب کچھ صارفین کی رضامندی اور دلچسپی کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن اس کے باوجود عجیب بات یہ ہے کہ انسان کو بہت ساری اشیا کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی وہ انھیں خریدنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔لہذا ان چیزوں کا اپنی ضروریات سے بڑھ کر غیرمعقول ، غیرفعال اور غیر پیداواری مقاصد کے لیے استعمال اور اس کی خرید و فروخت کے لیے غیرمرئی طور پر منسلک معاشرتی و سماجی دباؤ انتہائی صارفیت یا ہائپر کنزیومرازم ( Hyper-Consumerism) کہلاتا ہے۔ 

    یہ دراصل نتیجہ ہے معاشروں پر سرمایہ داری نظام کے تسلط کا کہ جس کے نتیجے میں لوگ کماؤ، کھاؤ پیو، خرچ کرو اور عیش کرو کی طرز پر زندگی گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ایسے میں لوگوں کی ذہن سازی کرنے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ جہاں پر مختلف کمپنیاں مسلسل اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے نام پر انسانی ذہنوں پر اشتہارات کی بمباری کرتی ہیں، جس کی وجہ سے عوام نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی مصنوعات خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔بڑے بڑے شاپنگ مالز اور ہائپر مارٹس بننے سے جہاں ایک چھت کے نیچے تمام اشیا کی دستیابی کو صارف کے لیے ممکن بنایا گیا ہے، وہیں اس کی جیب سے پیسے نکلوانے کے دسیوں، بیسیوں حربے بھی پر کشش آفرز کے نام پر آزمائے جاتے ہیں ۔ 

    صارفیت کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے اسباب پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ چند دہائیوں میں کی گئی مادی ترقیات کے نتیجے میں صارفیت کو فروغ دینے کے لیے باضابطہ اور منصوبہ بند کوششیں ہوئی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں 13- 2012ءمیں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق کسی بھی معاشرے میں انتہائی صارفیت یا ہائپر کنزیومرازم (Hyper-consumerism) اس ملک کے قرض کے بوجھ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ کیوں کہ ایسے معاشرے میں مقابلے کی دوڑ میں شامل ہوکر بلند معیارِ زندگی برقرار رکھنے کے لیے غیرملکی اشیا کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے، جس کا اثر تجارتی خسارے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔اس تحقیق میں بہ طورمثال،امریکی معاشرے کو پیش کیا گیا ہے کہ امریکی معاشرہ، خاص طور پر اس کی معیشت ایک ایسی تبدیلی سے گزر رہے ہیں، جس میں اشیا کی کھپت اس کی پیداوار کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہورہی ہے (گو کہ یہ علاحدہ بحث ہے کہ مقامی پیداوار کے متاثر ہونےکی وجہ کم قیمت درآمدات بھی ہیں) بہرحال اشیا  کی کھپت میں یہ اضافہ صرف انفرادی صارفین کی غلطیوں کا نتیجہ نہیں ہے،بلکہ بڑی بڑی صنعتوں،فیکٹریوں اور سرمایہ دارانہ نظام کی حامل حکومت نے یکساں طور پر صارفین کی کھپت کو فروغ دینے کے لیے سازباز کر رکھی ہے، جس کے نتیجے میں ”کھپت کے گرجا گھ‘‘۔  ر ( cathedrals of consumption) مثلاً، کیسینو، شاپنگ مالز، جوا خانے اور تھیم پارکس بنائے گئے ہیں اور صارفین کو ایسی چیزیں خریدنے اور کھانے پر ابھارا گیا ہے کہ جس کا نہ انھیں ادراک ہے اور نہ ہی ضرورت۔ اس عمل کابراہِ راست اثر ان کی انفرادی اور ملکی معیشت پر پڑا ہے اور وہاں پر لوگوں کے ساتھ ساتھ مرکزی معیشت بھی قرضوں کے بوجھ تلے دبتی چلی جارہی ہے۔ 

    مارک سیئر جوکہ میلبورن میں ریڈ چرچ کے سینئر لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں ، معاشرے میں چرچ کی گرتی ہوئی ساکھ کی بحالی پر بہت کام کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ بہت ساری کتابوں کے مصنف بھی ہیں، ان کا کہناہے کہ انتہائی صارفیت (Hyper-consumerism)  کی مذہبی خصوصیات بھی ہیں اور اسی لیے اس کا موازنہ ایک نئے مذہب سے کرتے ہیں جو صارفیت (Consumerism)کو سب سے اوپر رکھتا ہے۔ ان کے مطابق مذہبی زندگی کے عناصر کی جگہ صارفی زندگی نے لے لی ہے،گرجا گھروں کی جگہ شاپنگ مالز، صوفیا کی جگہ معروف شخصیات ، تپسیا یعنی عبادت کی جگہ شاپنگ کے شوق نے لے لی ہے اور اسی طرح موت کے بعد بہتر زندگی کی خواہش کی جگہ حال میں بہتر اور عیاشی سے بھرپور زندگی کی خواہش نے لے لی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

    صارفیت کے رجحان کو ترقی دینے میں سماجی دباؤ بھی ایک اہم وجہ ہے۔ چند عشروں قبل تک، صاحبِ حیثیت لوگ بھی مختلف تقاریب میں اسراف و تبذیر سے پرہیز اور سادگی اختیار کرتے تھے۔اسی طرح اہل ثروت مرد و خواتین کے پاس بھی چند مخصوص سوٹ ہوتے اور وہی تمام تقاریب میں پہنے جاتے تھے، لیکن آج کے دور میں اسے نہ صرف معیوب سمجھا جاتا ہے، بلکہ ہر تقریب کے لیے خاندان کے سربراہ سے لے کر بچوں تک کے لیے نئی شاپنگ کی جاتی ہے۔ اگرچہ مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ کررکھ دی ہے، لیکن مصنوعی نمود و نمائش اور دکھاوے کے لیے بے دریغ خرچ (Conspicuous consumption) کرنا باعث فخر سمجھا جاتاہے۔اپنے معیار زندگی کو بلند رکھنے(بلکہ ظاہر کرنے) کے لیے قرض لیا جاتا ہے،جس کے لیے ایک سے زیادہ کام اور نوکریاں کرنا پڑتی ہیں ، اس سے نہ صرف فیملی ممبرز سے تعلقات میں کمی عائلی زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے اور دوست احباب کا حلقہ بھی سکڑ جاتا ہے، بلکہ آمدنی میں اضافہ کے لیے ناجائز اور حرام طریقوں سے بھی اجتناب نہیں برتا جاسکتا۔ نتیجتاً معاشرتی و اخلاقی برائیاں جیسے دھوکہ دہی،چوری چکاری جھوٹ بولنا وغیرہ جنم لیتی ہیں اور بدعنوانی میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ سرمایہ پرستانہ ماحول اور اس کو پروان چڑھانے والا سرمایہ دارانہ نظام ہے جو اس طرز کی معاشرت کو فروغ دے کر خوب منافع کما رہا ہے۔ لیکن اس کے اس طرزعمل نے انسانیت کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے۔

    اسی طرح صارفیت میں بڑھوتری کےاس عمل سے ”استعمال کرو اور پھینک دو“ (Disposable Culture) کوبھی فروغ ملا ہے,صرف چند دہائیوں قبل ہی کی ہی بات ہے جب ہمارے اسلاف 5،4 جوڑے کپڑوں اور جوتوں میں کئی سال آرام سے گزار لیتے تھے اور ان کو باربار استعمال میں لانے میں بھی کوئی عارمحسوس نہ کرتے تھے، لیکن پھر سرمایہ دارانہ مارکیٹنگ اور اشتہار بازی نے ایسا کام دکھا یا اور ہر سیزن میں نئے فیشن کے مطابق خریداری کرنے کو رواج دیا گیا اور پرانی استعمال شدہ مصنوعات نے فضلہ کی شکل اختیار کرلی۔ اسی طرح آٹو موبائل انڈسٹری نے گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کے لیے نت نئے اور آسان طریقے رائج کیے۔ تاکہ کم آمدنی والے صارفین کی تعداد کوبھی بڑھایا جا سکے۔ نتیجتاً سڑکوں پر گاڑیوں کے بے تحاشا ہجوم سے گنجان ٹریفک اور فضائی و ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ پٹرول اور ڈیزل کی کھپت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا، جس کا براہ راست اثر درآمدات کی بے اعتدالیوں کی صورت میں بھی سامنے آرہا ہے۔

    ریستورانوں ، فاسٹ فوڈچین (Fast food chain)کی جگہ جگہ موجودگی اور کھانوں کی ہوم ڈیلیوری نے جہاں صارفین کےلیے سہولیات پیدا کیں ہیں، وہیں کھانے پینے کی عادات کو بھی بری طرح بگاڑ کررکھ دیا ہے۔گھر سے باہر کھانا کھانے جانا ”اسٹیٹس سمبل“ سمجھا جاتا ہے۔ اور اس رجحان کو تقویت دینے میں تقریباً ہر شہر میں ہی ”فوڈ اسٹریٹس“ بنا دی گئی ہیں۔صرف ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے اڑا دیے جاتے ہیں۔ حال آں کہ اس سے کمزور اور متوسط طبقہ کے افراد مہینے بھر کا راشن خرید سکتے ہیں۔  ویسے بھی ان کھانوں کے حوالے سے ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ ایک تو اِن میں تیز مصالحہ جات استعمال کیے جاتے ہیں، دوسرے گوشت کو جلد گلانے کے لیے مختلف کیمیائی اجزا ڈالے جاتے ہیں جو شکم سیری کے بعد انسانی معدے کو تباہ کرنےکاسبب بنتے ہیں ۔پیزا اور برگر جیسی خوراک ترقی یافتہ ممالک میں ایک سنگین معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے اور اس وجہ سے صرف امریکا میں 65 فی صد بالغ آبادی موٹاپے کے مرض کا شکار ہے۔

    انتہائی صارفیت نے سرمایہ دارانہ ماحول کی اتباع میں انسانوں کی عادات و خصائل کو بگاڑنے میں بھی اہم کردار کیا ہے، جس میں لوگ غیرضروری و غیرپیداواری اشیا پر بے تحاشا خرچ کررہے ہیں۔ مثلااس وقت دنیا میں بناؤسنگھار کی اشیا (cosmetic products) کی انڈسٹری کا حجم  400 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور دنیا بھر میں سگریٹ نوشی اور شراب نوشی پر ہر سال 300 ارب ڈالر سے زائدخرچ ہوتا ہے۔ جب کہ دوسری طرف دنیا بھر میں لوگوں کی بھوک اور غربت ختم کرنے کے لیے 200 ارب ڈالر درکار ہیں۔ اسی سے ہمیں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ترجیحات کا بھی بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ 

    رہا یہ سوال کہ عالمی سطح پر ایک یوم Buy Nothing Day جو کہ نومبر کے آخری ہفتے (ہفتے والے دن )منایا جاتا ہے، جس کا مقصدیہ ہے کہ اس دن کوئی شخص کچھ بھی نہ خریدے اور بڑھتی ہوئی انتہائی صارفیت کے خلاف لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے ،لیکن ایسے نمائشی اقدامات سے کوئی خاطر خواہ نتائج پیدا ہونےکا امکان اس لیے نہیں کیوں کہ ایسی تحریکات نظریاتی بنیادوں پر نہیں، بلکہ درپردہ سرمایہ داریت کی حمایت سے ہی چل رہی ہوتی ہیں۔ تاکہ سرمایہ داری کے غیرانسانی ہتھکنڈوں کے خلاف لوگوں میں پیدا ہونے والےممکنہ ردعمل کا تدارک کیا جا سکے ۔

    جب ہم اس انتہائی صارفیت(Hyper-consumerism)  کا قرآن و حدیث کے اصولوں کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اسلام ہمیں انتہائی متوازن طریقے سےخرید وفروخت کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔

    مثلاارشاد ربانی ہے:

    ’’ فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں‘‘۔ (الاسرا: ۲۷) 

    اسی طرح حکمِ خداوندی ہے :

     ’’کھاؤ اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو‘‘۔ (الاعراف:۳۱) 

    نبیﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

    ”سادگی، اعتدال،میانہ روی نبوت کا چوبیسواں حصہ ہیں‘‘۔  (ترمذی) 

    اسلام کے یہ سنہری اصول ہائے زندگی صرف کتابوں کی حد تک ہی نہیں ہیں، بلکہ دنیا میں اس پر ایک شان دارسیاسی ،معاشی اور معاشرتی نظام بھی جو حضور نبی اکرم ﷺ کی قائم کردہ ریاست ،خلافت راشدہ کے نظام سے لے کر کم و بیش 1000 سال تک دنیا بھر میں موجود رہا ،جس میں نہ صرف ایک معتدل معاشرت کو فروغ دے کر انسانوں کی ضروریات کو بہ سہولت پوراکرنے کا نظامِ ارتفاقات قائم کیا گیا، بلکہ انھیں ایک اچھا اور مفید فرد بنانے کےلیےاخلاقیات کے اعلیٰ معیارات کو بھی قائم رکھا گیا۔

    آج سرمایہ داریت کے غلبے کے ہوتے ہوئے نہ ان انتہائی صارفیت کے رجحانات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انسانی زندگی کو اس مصنوعی دوڑ سے نکال کر ان میں میں مجموعی طور پر بہتری یا اعتدال کی کوئی صورت پیدا کی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ یہ مفاسد انتہائی مربوط اور منظم طریقے سےاسی نظامِ استبداد کے ذریعے عمل میں لائے گئے ہیں۔ تاکہ یہ نظامِ زر اپنی ہوسناکیاں جاری رکھے اور خوب منافع بٹورتا رہے۔

    دینِ اسلام مادی ترقی کا انکار نہیں کرتا، ہاں! ایک مخصوص طبقے کی ترقی کے بجائے کل انسانیت کو مادی سہولیات بہم پہنچانا چاہتا ہے،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دین اسلام کا نظام عدل وانصاف معاشرے میں قائم کیا جائے اور نظامِ سرمایہ داری کے بتوں کو پاش پاش کردیا جائے۔ تاکہ اس مصنوعی صارفیت جیسے مکروہ عوامل اور اس کے بدترین اثرات کا تدارک ممکن ہو سکے۔

    ماخذ!

     “Hyperconsumption” and “Hyperdebt”: A “Hypercritical” Analysis

    George Ritzer

    DOI:10.1093/acprof:oso/9780199873722.003.0003 

    https://fortune.com/2017/01/10/smoking-costs-who-cancer-institute-trillion

    https://greenseedgroup.com/alcohol-drinks-market-size-trends

    https://www.globalgiving.org/learn/how-much-would-it-cost-to-end-world-hunger

    https://www.globalgiving.org/learn/how-much-would-it-cost-to-end-world-hunger/

    Share via Whatsapp