اسلام اور سرمایہ دارانہ معاشی نظاموں کا باہمی فرق - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اسلام اور سرمایہ دارانہ معاشی نظاموں کا باہمی فرق

    اسلام کے معاشی نظام کی روح انسانیت دوستی و انسانی خدمت ہے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا مقصد انسانیت کا استحصال اور سرمایہ و دولت کی حرص و ارتکاز

    By Fahad Muhammad Adiel Published on Feb 11, 2022 Views 2220

    اسلام اور سرمایہ دارانہ معاشی نظاموں کا باہمی فرق

    فہد محمدعدیل۔گوجرانوالہ

          انسانی زندگی میں معاشیات کی بہت اہمیت ہے۔کسی بھی معاشرے سے تعلق رکھنےوالےافراد کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے پاس بہتر معاشی وسائل ہوں اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہوں- انسانی زندگی کا بیش ترحصہ کسب معاش کے حصول میں وقف رہتا ہے۔ مختلف مذاہب معروضی تقاضوں کے تحت نظام معیشت مرتب کرتے ہیں۔انسانی تاریخ میں تجربات کی بنیاد پر معاشی پیشوں کا تعین کیا گیا، جن کا تعلق تجارت، زراعت ،صنعت و حرفت جیسی معاشی سرگرمیوں سے ہے۔

          اچھا نظام معیشت وہ ہوتاہےجو لوگوں کو معاشی آسانیاں بہم پہنچائے اسی بنیاد پر مختلف نظام ہائے معیشت کاباہمی فرق واضح ہوتاہے۔

          اس وقت اس مضمون میں زیر بحث دو نظام ہائے معیشت ہیں۔ ایک اسلام کاعادلانہ اقتصادی نظام  اور دوسرا سرمایہ داریت کے اصولوں پر قائم نظام ۔

         ہر دو معاشی نظام فکر اس بات کے دعوے دار ہیں کہ وہ انسانوں کو بہتر زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرتےہیں۔تاریخی حقائق کی روشنی میں اصل بات کو جاننا ضروری ہے- ہم جانتےہیں کہ اسلام نے نہ صرف معاشی اصول و ضوابط پیش کیے، بلکہ ان اصولوں پر ریاستوں کے عملی نظام بھی وجود میں آئے، جن میں سرفہرست اور نمونہ کی ریاست ، نبی اکرم ﷺ کی قائم کردہ ریاست ہے جس کو اگلے دور میں خلفائے راشدین نے بہترین طریقے سے چلا کر ایک مثالی تاریخ رقم کی۔

         رسول کریم صلی اللہعلیہ وسلم کے دور میں قائم ریاست میں سیاسی طور پر وحدت انسانیت کا سسٹم قائم تھا اور معاشی طور پر عدل و انصاف ، مساوات ، مفادعامہ اور فلاحی تصور کے اصولوں پر نظام قائم تھا۔ انسانی ضروریات وحاجات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے اجتماعی مقاصد کی بنیاد پر معاشی  قوانین مرتب کیے۔ اسلام نے زراعت، تجارت اور صنعت و حرفت کے جتنے اصول و ضوابط بنائے ان سب میں بنیادی روح انسانی خدمت اور ایثار کا جذبہ پیش نظررہا۔گویااسلامی نظام میں تمام تر پیشوں کا بنیادی مقصد انسانی خدمت اور انسانی ضروریات زندگی کی فراہمی ہے۔ جب کہ ان کا معاوضہ حق خدمت اورتعاون باہمی کےاصول پر ہے-

           دین اسلام کی اشاعت کا ایک بہت بڑا ذریعہ مسلمان تاجر اور صنعت کار تھے۔مسلم تاجروں نے درست ناپ تول کا جو معیار قائم کیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ مشرق بعید کے ممالک میں اسلام کی اشاعت و تبلیغ نیک سیرت تجار کی مرہون منت رہی۔ ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے دور حکومت، سترھویں اور اٹھارویں صدی عیسوی، میں دنیا میں سب سے زیادہ معاشی نمو ہندوستان کی رہی۔ ہندوستان کو سونے کی چڑیا ، یہاں کی زراعت ، صنعت وحرفت میں ترقی کی وجہ سے کہا جاتا تھا۔ 

          اس کے برعکس جب یورپین سرمایہ دارانہ معاشی نظریات کی بنیاد پر منڈیوں کی تلاش میں نکلے تو ملکوں اور قوموں کو اپنا غلام بناتے گئے، قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ، انسانی اقدار کی پامالی اور حرص و ہوس کی بنیاد پر قائم سرمایہ پرستانہ معاشی نظام غلام ریاستوں میں قائم کیا گیا- اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ مختلف معاشی طبقات میں منقسم ہوگیا۔ ایک طبقہ وسائل پر قابض ہوگیا اور دوسرا طبقہ بنیادی وسائل سے بھی محروم ہونا شروع ہوگیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ محروم المعیشت طبقہ جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا۔

          آج بیش تر ایشیائی اور افریقی ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے۔سرمایہ داریت کا بنیادی فکروفلسفہ لامحدود ملکیت اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہے۔ سرمایہ دارانہ سوچ نے دولت کی ہوس، لالچ اور حرص کی بنیاد پر پیشوں کی تشکیل کا عمل شروع کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہر پیشہ سے وابستہ افراد،جن کا بنیادی مقصد انسانی خدمت ہونا چاہیے تھا ،مگر وہ دولت و وسائل کو اکٹھا کرنےکی راہ پہ گامزن ہیں۔         

         سرمایہ دارانہ نظام میں تجارت کی غرض ہر جائز اور ناجائز طریقے سےدولت کمانا ، صنعت کار کا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسہ اکٹھا کرنابن چکاہے-سرمایہ دارانہ نظام میں ایک مزدور ، ریڑھی بان، ڈاکٹر، وکیل، پروفیسر، زمین دار، دوکان دار، سیاست دان، دانش ور، ماہرین امراض، سرکاری ملازمین، ٹھیکیدار، غرضیکہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والےاکثرو بیش تر افراد کا مطمع نظر صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے ،سرمایہ دارانہ نظام میں پیسہ کمانے کے ہدف کے پیش نظر بےایمانی، بدعنوانی، کم ناپ تول، جھوٹ، رشوت اور ہر جائز و ناجائز ذریعے سے دولت کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور اس کے مقاصد میں مفادعامہ، قومی و انسانی مفاد، فلاح اور خدا خوفی کا جذبہ نہیں ہوسکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اس رجحان کو قرآن حکیم نے مسترد کرنےکےساتھ سرمایہ پرستانہ سوچ اور رویوں کے پیچھے دولت اور وسائل کے ارتکاز کی نفسیات کا تحلیل و تجزیہ کر کے دنیا و آخرت میں اس کے نتائج سے خبردار کیا ہے۔ 

           سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں معاشرہ بالآخر ، دو طبقات میں منقسم ہو جاتا ہے، ایک وسائل پر قابض اور دوسرا وسائل سے محروم ،تمام ترقیات، عیاشی کے نت نئے سامان ، شاہانہ طرز زندگی، محلات، طبقاتیت پر مبنی صحت و تعلیم کی سہولیات اسی متمول(اقلیتی) طبقہ کی دسترس میں ہوتی ہیں اور ذلت و نکبت، بے روزگاری، بیماری، جہالت، غربت و افلاس محروم المعیشت عوام الناس (اکثریتی ) طبقہ کا مقدر بن جاتی ہیں۔ سرمایہ اور دولت کی بنیاد پر سرمایہ دارطبقات عوام پر حکومت کرتے ہیں اور انسانیت عامہ پر سرمایہ درانہ پالیسیزکو مسلط کر کے ان کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

          آج کے معاشروں میں بدعنوانی ، بددیانتی، جھوٹ، رشوت جیسی سماجی واخلاقی برائیوں کی بڑی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں انفرادی سطح سے لے کر بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیز کے ذریعے سے بے رحمانہ لوٹ کھسوٹ ، ملکوں اور اقوام کو اپنا غلام بنانے کا عمل جاری و ساری ہے۔ اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک سرمایہ دارانہ نظام اس دنیا پر قائم ہے۔ 

         ضرورت اس امر کی ہےکہ اسلام کے معاشی و سیاسی نظریات پر ایک تربیت یافتہ جماعت تیار کی جائے۔ معاشرے میں سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کر کے عادلانہ معاشی نظام کا قیام ہی دراصل موجودہ مسائل کا حل ہے۔

    Share via Whatsapp