اقتصادی راہ داری منصوبہ
کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے مستحکم معاشی نظام کا قیام ناگزیر ضرورت ہے۔
اقتصادی راہ داری منصوبہ
تحریر: تنویر احمد سلہریا ۔مانسہرہ
پاک چین اقتصادی راہ داری کا منصوبہ خطے کی ترقی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل سمجھاجا تا ہے۔ منصوبہ یقینا دور رس نتائج پیدا کرے گا اور حقیقی معنوں میں خطے میں گیم چینجر ثابت ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس منصوبہ کی بازگشت ہر طرف سنائی دیتی رہی ہے۔ جو آج کل ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ہر خاص و عام اس میں دلچسپی لیتا تھا ۔اور بے شمار امیدیں وابستہ کیے دکھائی دیتا تھا۔ تاہم اب بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ یہ منصوبہ خیرو عافیت سے پایہ تکمیل کو پہنچےگا۔
قابل غوربات یہ ہے کہ کیا یہ منصوبہ پاکستان میں بسنے والے عام آدمی کی زندگی بدلے گا ؟ کیا یہ اس کے لیے بھی گیم چینجر ثابت ہوگا؟ کیا عام آدمی کے بنیادی حقوق اس کی دہلیز پر ملنے شروع ہوجائیں گے؟ لیکن ایسا کچھ نہیں ہے، اگر کوئی اس طرح امید لگائے بیٹھا ہے تو یہ محض ایک خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ۔ کیوں کہ وسائل اور ذرائع کی تو یہاں پہلے بھی قلت نہیں رہی۔ بہترین زرعی زمین ، افرادی قوت، معدنیات سے بھرے پہاڑ، دریا،سمندر اور جنگلات سب کچھ تو ہے،لیکن صرف کمی ہے تو اس معاشی و سیاسی نظام کی جو ان ثمرات کو عام آدمی تک پہنچائے ۔ ہمیں اب بغیر کسی تأمل کے اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ پاکستان میں موجود فرسودہ سرمایہ داری نظام اس جیسے منصوبوں کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچنے دیتا۔ حتی کہ اس کا اعتراف بانی پاکستان جیسی ملک کی قدآور شخصیت نے بھی کیا، حالانکہ ان کے اپنے اثاثوں کی مالیت کا جائزہ اگر آج کے دور سے کیا جائے تو ان کی حیثیت دو ارب ڈالر سے زائد اور روپوں میں ساڑھے تین کھرب بنتی ہے (یہ برطانوی عہد میں جنم پانے والے اثاثوں کی تفصیل ہے) انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر یکم جولائی 1948ء کو اپنی لکھی ہوئی تقریر میں کہا تھا کہ '' مغربی معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاتعداد ناقابل حل مسائل کھڑے کر دیے ہیں ۔مغربی طرز کا معاشی نظام ہمارے ملک میں خوش حالی اور ترقی پیدا نہیں کرسکتا- ہمیں اپنی بہبود کے لیے کوئی نیا طریقہ وضع کرنا ہوگا۔ اور دنیا کو ایسا معاشی نظام متعارف کروانا ہوگا،جس کی بنیادیں اسلامی مساوات اور معاشرتی انصاف پر مبنی ہیں ۔ایسا کرنے سے ہم مسلمان قوم کی حیثیت سے دنیا کو ایک ایسا معاشی نظام دینے میں کامیاب ہوجائیں گے جو تمام بنی نوع انسان کے لیے امن کا پیغام بن کر آئے گا۔ یاد رہے کہ امن ہی سے انسانیت کی بقا اور خوش حالی قائم رہ سکتی ہے۔"(بحوالہ :ٹیکسٹ بک ، مطالعہ پاکستان برائے انٹرمیڈیٹ کلاسز، صفحہ نمبر 41، یونیورسٹی بک پرنٹرز پبلشرز پشاور)
یہ ایک افسوسناک بلکہ المناک حقیقت ہے کہ بانی پاکستان کے بقول انسانیت کے لیے لاتعداد ناقابل حل مسائل کا باعث معاشی ماڈل ، آزادی کے چوہتر سال گزارنے کے بعد بھی ہنوز موجود ہے ۔ جو مغربی سرمایہ داروں نے اپنے ناجائز معاشی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے اور ایک خاص طبقے کی عمل داری قائم رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا تھا، جس کے بنیادی اصول اجتماعی مفادکیے لیے زہر قاتل ہیں،سرمائے کی بالادستی اور محنت کے استحصال پر مبنی یہ نظام ہمارے ملی، قومی اور فطری تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔اس لیے عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی محض خواب و خیال سے نہیں آئے گی بلکہ" زمین میں جو کچھ ہے وہ تم سب کا ہے۔" (سورۃ البقرہ۔29) کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا معاشی ماڈل تشکیل دینا ہوگا، جو تمام افراد کو برابری کی بنیاد پر ملکی وسائل سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرے اور اسی طرح اس مصداق پر پورا ترے :
"انسان کے لیے اتنا ہی ہے، جتنی اس نے کوشش کی۔" (سورۃ النجم۔39)
کی بنیاد پر محنت کی بالادستی کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام افراد کو ان کی ضرورت کے مطابق ان کا حصہ فراہم کرنے والا نظام ہی اس درد کی اصل دوا ہے۔ اس لیے ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے بجائے حقیقی بنیادوں پر سوچنا چاہیے کہ ایک عادلانہ فطری معاشی نظام ہی تمام افراد کی بنیادی ضروریات کی فراہمی ممکن بنا سکتا ہے اور ان کی محنت کا انھیں پورا پورا حق دلا سکتا ہے۔اور ایک ایسے معاشرے کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے، جس میں سب لوگ امن و سکون کی زندگی بسر کر سکیں اور اپنی دنیاوی زندگی سے آسودہ حال ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ اخلاقی ترقی میں منہمک ہوسکیں۔