خوشحال خطے کی بد حال عوام.
ملکی معاشی حالات
خوش حال خطے کی بدحال عوام
حافظ علی محمد گدارو (سکرنڈ۔نواب شاہ)
ویسے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے پوری دنیا کو نوازا ہے، لیکن براعظم ایشیا کو دوسرے براعظموں سے کہیں زیادہ انعامات بخشے ہیں۔براعظم ایشیا ایک ایسا خطہ ہے، جس کو قدرت نے اپنی تمام نعمتوں سے مالامال کیا ہے۔ براعظم ایشیا میں پہاڑوں کے مشہور عالم سلسلے واقع ہیں۔ پہاڑوں کے ان خوب صورت نظاروں کو دیکھ کر دل بے اختیار سبحان اللہ کہہ اُٹھتا ہے۔ پہاڑوں کے اندر پوشیدہ خزانوں کی صورت میں قدرت کی صناعی انسانی جستجو کو اَور تیز کررہی ہے ۔ اس کے علاوہ اللہ نے اس خطے کو پانی کی بیش بہا ذخائر سے نوازا ہے، جس میں دریاؤں کا بہت بڑا نظام ہے، جن میں پانی کی فراوانی ہے ۔ میٹھا طاقت ور اور ذائقےدار ایسا پانی، جس سے زندگی اپنا وجود باقی رکھ سکے اور ترقی بھی کرے۔ سمندروں نے تو اس خطے کو اپنی جھولی میں سمو رکھا ہے۔ سمندروں کے جال سے پوری دنیا بہرہ ور ہورہی ہے۔ براعظم ایشیا میں موسموں کا ایسا نظام موجود ہے، جس میں ہر وہ چیزپیدا ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو بخشی ہے۔ یہاں کی سرزمین کی تو بات ہی الگ ہے جو دنیا کے لیےسونا اُگلے،جس زمین کی خوش بُو دنیا کے کونے کونے تک پہنچے اور ساری دنیا کے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے اور دنیا کے لوگ اس کے پاس کھنچے چلے آئیں۔ انگریزوں کے سوا یہاں جو بھی آیا وہ یہیں کا ہوگیا ، لیکن افسوس صد افسوس! کہ گذشتہ تین سو سالوں میں برطانوی جو باہر سے آئے۔ انھوں نے اس سرزمین کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جو اس زمین کے باسی ہیں انھوں نے اس کے ساتھ وفاداری کا حق ادا کیا۔ انگریزوں نےاس زمین کی بے بہا نعمتوں کو لوٹ کر اپنے خزانے بھرے۔قدرت نے اپنی نعمتوں میں کبھی بھی کنجوسی نہیں کی۔آج بھی اس زمین کی مٹی کی چمک دشمن کے در و دیوار سے جھلکتی ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان براعظم ایشیا کا ایک ایسا ملک ہے جو ان نعمتوں کے حوالے سے مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ ویسے تو یہ خطہ ان گنت نعمتوں سے مالامال ہے، جو ان ساری نعمتوں اور بے بہا نعمتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔مگر وطن عزیز پاکستان کی زمین میں زراعت تو اپنی مثال آپ رکھتی ہے۔ قدرت کی پیدا کردہ ایسی کوئی جڑی بوٹی نہیں، جس نے اس زمین میں اُگنے سے انکار کیا ہو۔ خوش قسمتی یہ ہے ہر قسم اور ہر موسم کا پھل اس زمین نے اپنے باسیوں کو عنایت کیا ہے۔ لیکن جب اس زمین کے باسیوں کی حالتِ زار دیکھتے ہیں تو آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں۔ اتنی بے بہا نعمتوں کے باوجود بھی اس زمین کے باسیوں کی اکثریت کو عزت سے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہوتی۔
تعلیم کی تو جیسے ان کو ضرورت ہی نہیں یہ پتھر کے دور کے جو ٹھہرے۔ تعلیم کیا ہوتی ہے، کیسے ملتی ہے، کہاں ملتی ہے، کیوں حاصل کی جاتی ہے؟ ان کو تو کچھ پتہ ہی نہیں رہا۔ صحت کا معاملہ وہ تو ہم بیمار ہوتے ہی نہیں، ہلکی پھلکی بیماری کو تو اس زمین کے باسی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اگر خود کو کبھی یہ بیمار تصور بھی کریں تو علاج کرانا، ان کے بس کی بات نہیں۔ زیادہ سے زیادہ میڈیکل اسٹور سے خود کی ڈاکٹری کا نسخہ استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے اس زمین کے باسی خود کو صحت مند تصور کرتے ہیں۔ اگر کوئی زیادہ بیمار ہو جائے تو گھر والے مریض کے ساتھ ہی موت کی راہ دیکھتے ہیں کہ کب ہم پر مہربان ہوتی ہے۔ اس زمین کی بھوکی، بیمار اور غریب قوم کا کوئی پرسانِ حال نہیں جو اس کی ضروریات پوری کرے۔ جب اس بھوکی اور بیمار قوم کی فصل تیار ہوتی ہے تو چاہے کوئی بڑا کاروباری ہو یا کوئی بڑا بیوروکریٹ یا جاگیردار ہو، جس کی آمدن ماہانہ لاکھوں میں ہو۔ لیکن سب دوڑے چلے آتے ہیں، اپنی ضروریات لے کر، بلکہ سرکاری ادارے بھی اپنی ضروریات اس سے پوری کرواتے ہیں۔ وہ پولیس کا ادارہ ہو، واپڈا کا ادارہ ہو، وہ دریاؤں اور نہروں کے بیلدار ہوں جو کسان کو پانی بھی فراہم نہیں کرتے، زمینوں کی پیمائش کرنے والے منشی ہوں۔ حتیٰ کہ مساجد اور مدارس کے نام پر اپنے گھروں کی تجوریاں بھرنے والے مولوی صاحبان بھی، بلکہ ہر کوئی ان سے حصہ پتی لینے کے لیے پہنچ جاتے ہے۔ یہ ادارے یا سرکردہ لوگ اتنی گندم جمع کرتے ہیں کہ ان کے گودام بھر جاتے ہیں اور اچھی خاصی رقم حاصل کرتے ہیں، لیکن یہ بیچارے بیمار اور بھوکے لوگ چھ ماہ رات دن ایک کرکے گندم کی فصل کاشت کرتے ہیں اور اتنی بھی گندم میسر نہیں ہوتی کہ چھ ماہ تک ہی سہی پیٹ بھر کر روٹی کھا سکیں۔ تین چار ماہ بعد اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے ان سرمایہ دار اور سرکردہ لوگوں کے دروازوں پر اپنی ایڑیاں رگڑتے ہیں اور قرضے لے کر اپنے دن گزارتے ہیں۔ جنھوں نے ہمارے ہی وسائل پر قانونی و غیرقانونی طریقے سے قبضہ جما رکھا ہے۔ کارخانوں، ملوں میں مزدور، کھیتوں کھلیانوں میں ہاری اور کاشت کار، ریڑھی بان، دوکان دار اور عام لوگ اس معاشی ناہمواری کی وَجہ سے بھوک و غربت اور افلاس کے دوزخ میں برسوں سے جی رہے ہیں۔
معاشی تنگی کی وَجہ سے اپنی عزت نفس، اپنی اَنا و غیرت اور انسانی اخلاق سے تہی دامن ہماری قوم کی اکثریت کو یہ شعور بھی نہیں کہ ہم اتنے مفلس و بدحال کیوں ہیں۔ ہمارا جرم کیا ہے کہ ہماری ہی قوم کے چند ہزار انسان تو عیش و عشرت میں مگن، محل نما گھروں میں زندگی کے مزے اڑائیں، ان کے کتے اور گھوڑے گوشت اور مکھن کھاتے رہیں، باہر گاؤں اور شہروں میں کروفر سے دندناتے ہوئے عام لوگوں پر رعونت آمیز نگاہیں دوڑاتے ہوئے، روڈ راستوں پر ہمارے چہروں پر مٹی اڑاتے ہوئے لاکھوں کروڑوں کی گاڑیوں میں اڑتے رہیں، ملک کے ہر بڑے شہر میں محل ہوں، بچے مہنگے، عالی شان تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام پر قوم پر غلامی مسلط رکھنے کے منصوبے پڑھتے رہیں، نہ خوفِ خدا اور نہ انسانیت کی رمق اور اخلاق کی فکر۔ اور قوم کی اکثریت نانِ جویں کو ترستے ہوئے اپنے ننگ دھڑنگ بچوں کو مٹی میں رُلتے ہوئے، دوائی نہ ہونے کی وَجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت سے ہم آغوش ہوتے ہوئے، کچے گھروندوں میں برساتی پانیوں میں ڈبکیاں لیتے ہوئے، زندگی کا عذاب جھیلتے رہیں، نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی مثل نہ زندوں میں نہ مردوں میں، مہنگائی کے مارے ہوئے، نہ تعلیم نہ صحت، نہ امن و انصاف اور نہ ہی روزگار کے مواقع میسر اور نہ ترقی کی سوچ ہے۔
ہماری فطرت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم غفلت کی نیند سے بیدار ہوں اور دوسروں کو بھی بیدار کریں اور اس انسان دشمن نظام وحشت و ظلمت کو حقیقی بنیادوں پر درست طریقے سے تبدیل کرکے، انسان دوست بنیادوں پر ایسا نظام قائم کریں کہ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں پیدا کی ہیں، جو کہ تمام انسانوں کے لیے ہی ہیں اور ہمارے لیے پیدا کی ہیں ان سے بھرپور فائدہ حاصل کرکے قومی ترقی و بقا کا راستہ اپنایا جاسکے۔