روٹی سالن
کوئی بھی شخص خدا کو تب تک نہیں پہچان سکتا جب تک وہ دنیا میں اپنے بھیجے جانے کے مقصدکو نہ جان لے۔
روٹی سالن
تحریر: محمد عقیل وٹو۔ راولپنڈی
یہاں ہر شخص عزت سے 2 وقت کی روٹی کمانے میں مصروف ہے، لیکن سالن کی کسی کو بھی فکر نہیں۔ یہ پُر مزاح چٹکلہ پڑھ کر یقیناً آپ کو ہنسی آئی ہوگی، لیکن اگر اس کی سنجیدگی پر غور کریں تو کئی پہلو ظاہر ہوتے ہیں۔
کیا انسان سالن کے بغیر روٹی کھا کر اپنی بھوک مٹا سکتا ہے؟
بات صرف بھوک مٹانے تک ہوتی تو میرا اور آپ کا جواب 'ہاں' میں ہوتا. اب یہاں سے ایک اور پہلو سامنے آتا ہے۔ اگر بھوک مٹانے کے لیے روٹی کافی ہے تو کیا پھر بھی سالن کی ضرورت ہے؟ جی ہاں، یہ اس لیے ہے تاکہ انسان کھانے سے لطف اندوز ہو سکے۔ گویا یہ بات واضح ہوئی کہ روٹی انسانی "ضرورت" ہے اور سالن انسان کے لیے "سہولت"۔ اب اگر ہم سوچ کے دائرے کو وسیع کریں تو یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے صرف ضرورتوں کا پورا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ سہولیات کی فراہمی بھی لازم ہے، ورنہ اسلام جیسا معتدل دین فضول خرچی کی تو کبھی اجازت نہیں دیتا اور سالن پر پابندی عائد کر دی جاتی۔ خوراک، لباس اور رہائش کے لیے گھر انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، لیکن صرف اتنا انتظام ہو جانے یا اس سے بھی کم پر انسان کو مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے، اور اگر کسی طبقے کی طرف سے یہ سوچ ابھاری جائے کہ اس دنیا میں روکھی سوکھی کھا کر آخرت کی بہتری کے لیے سوچنا چاہیے تو دور زوال کے فرسودہ خیالات میں سے ایک خیال اور سوچ ہے جیسا کہ دورِ جاہلیت (دور زوال) میں علمائے یہود کی سوچ تھی کہ یہ دنیا کی ترقی تو کافروں کے لیے ہے اور ہمارے لیے آخرت ہے۔ جب اللہ تبارک وتعالٰی انسان کے "سالن" بنانے کے لیے لوازمات مہیّا کر رھے ھیں اور انواع و اقسام کی سبزیاں زمین میں اگاتے ہیں تاکہ انسان کھانے سے بہتر طور محظوظ ہو سکے، انسان کو قدرتی وسائل فراہم کیے تاکہ وہ اپنے لیے سہولت اور ترقی کے مواقع پیدا کرے تو پھر یہ انسان کا اپنا انتخاب ہے کہ وہ دنیا میں اپنے حصے سے دستبردار ہو جائے۔ لیکن جب انسان کو سہولیات تو درکنار ضروریات کی فراہمی کے لیے بھی کسی دوسرے انسان یا انسانوں کے گروہ کا، جنہوں نے انسانوں کے خوراک کے وسائل پر ہر طریقے سے قبضہ کر لیا، محتاج ہونا پڑے تو ایسے محتاج شخص کے لیے اپنے مالک حقیقی کو پہچاننا مشکل ہے، کیوں کہ "مجازی خداؤں" نے ایسی مکروہ محتاجگی کے لیے "حقیقی خدا" کا غلط تعارف پھیلا رکھا ہے۔ انسان کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اپنے اندر عدل و انصاف اور معاشی خوش حالی پر مبنی معاشرہ تشکیل دینے کی صلاحیت پیدا کرے۔ لیکن طاغوتی قوتیں بہت چالاکی کے ساتھ آج کے مسلمان کی ایسی ذہن سازی کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں وہ سوچتا ہے کہ یہ دُنیا میں ترقی ہو یا نہ ہو، بس آخرت بہتر ہو جائے۔ جب ذاتی سطح پر یہ سوچ ہوگی تو قومی و اجتماعی سطح پر بھی ترقی کا خیال کیسے آئے گا۔
مثلاً، ایک طالب علم اگر میٹرک میں سائنس سبجیکٹ نہیں پڑھتا اور وہ یہ سوچ لیتا ہے کہ وہ ڈاکٹر، انجینئر یا سائنٹسٹ بنےگا تو یہ اس کی خواہش تو ہو سکتی ہے مگر حقیقت نہیں۔ اگر دنیا میں پُر امن معاشی ترقی اور اجتماعیت قائم کرنے کی پریکٹس نہیں کی، باقی اقوام کی امامت کی قابلیت پیدا نہیں کی تو جنّت میں باقی اُمتوں کی سرداری کا خیال کس بنیاد پر اپنے ذہنوں پر راسخ کر رکھا ہے۔ ایسے میں جنت کو امن کا گہوارہ بنانا ممکن نہیں، کیوں کہ جنت بھی انہی انسانوں سے آباد ہوگی جو اس دنیا میں بھیجے گئےاور دنیا میں اسی لیے بھیجے گئے تاکہ وہ اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے معاشرتی سطح پر اپنی تربیت کر سکیں۔ جنّت کا نظام بھی انسانی رویّوں کی عکاسی ہے، اگر فسادی لوگ جہنم کے بجائے جنّت میں ڈال دیے جائیں تو جنّت کا بھی یہی حال ہوگا جو اس وقت دنیا کا ہے۔
لیکن سامراج نے انسانی عقل کا ایسا ستیاناس کیا کہ انسان اپنے حقوق کو پہچانتا ہی نہیں۔ جو شخص اپنے حقوق سے آگاہ نہیں وہ کیا اور کیسے جانے کہ حق تلفی کرنے والا گروہ کون ہے۔ جب زندگی کا مقصد واضح نہیں تو کیا معلوم دوست کون اور دشمن کون ہے۔ اور پھر اسی لا علمی میں وہ اپنے دشمن کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ اس کا دشمن اس کے لیے بھوک و افلاس اور فرسٹریشن کا ایسا نظام بناتا ہے کہ اسے دو وقت کی روٹی کے لیے انتھک جدوجھد کرنی پڑتی ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے بس دو وقت کی روٹی پوری ہوجائے ۔ اور آہستہ آہستہ یہ سوچ پروان چڑھنے لگتی ہے کہ بس ضروریات کسی طرح پوری ہو جائیں کسی طرح، سہولیات کی خیر ہے۔ پھر ایک اور سامراجی ہتھکنڈا اور فاسد خیال سامنے لایا جاتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی تو زندگی بہت سادگی اور تنگی میں بسر کی، لیکن یہ بات چھپا لی جاتی ہے کہ انہوں نے معاشرے کو ایسا نظام ضرور دیا کہ جس میں ایک عام شخص معاشی خوش حالی اور امن و امان کے ساتھ باعزت زندگی گزار سکے۔ جہاں انصاف کا دور ہو اور انسان اپنے معاملات میں ہر طرف سے مطمئن ہو کر اُس ذات باری تعالٰی کے حضور پیش ہو کہ اس کی تمام تر توجہ اپنے مالک حقیقی کی طرف راغب ہو۔ یہ انبیائے کرام اور جماعت صحابہ کے تقویٰ کا اعلی مقام ہے کہ وہ اپنی ضروریات کو محدود رکھتے اور خود کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے کاموں میں اتنا مصروف رکھتے کہ لوگ ان کی محنت کی بدولت اپنے اللہ کو پہچان سکے۔ لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ تقویٰ میں تو عام انسان کو صحابہ اور انبیا کی پیروی کرنے کو کہا جاتا ہے۔ جب کہ ان کے انصاف قائم کرنے کے مشن کے بارے میں یہ سوچ دی جاتی کہ یہ تو انبیا اور صحابہ کا کمال ہے عام انسان میں اتنی صلاحیت کہاں!
آج سادگی کی بات تو کی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی انفرادیت کی سوچ بھی ڈال دی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تو عرب قوم کو جو صدیوں سے لڑتے آرہے تھے ان کو اکٹھا کیا، اُن میں اجتماعیت قائم کی، تبھی عرب کو دنیا کی امامت ملی۔ اور امامت ہمیشہ اعلیٰ نظریہ کی حامل، بااخلاق اور باشعور قوموں کو ملتی ہے۔ بد اخلاق اور بے شعور قومیں ہمیشہ غلامی ہی کرتی ہیں۔ اگر صحابہ کرام نے سادہ زندگی گزاری تو کسی جنگل یا ویرانے میں تو بسیرا نہیں کیا ،بلکہ اسی دنیا میں رہتے ہوئے انسانیت کے مسائل کو سمجھنے اور انسان کو انسانی غلامی سے نجات دلانے اور اپنے حقوق حاصل کرنے میں ان کی مدد کی۔ ان کی تربیت کی کہ وہ سامراج کو پہچان سکیں اور اللہ کے عطا کردہ وسائل کو اپنی ترقی کے لیے استعمال کر سکیں۔سادہ زندگی بسر کی لیکن ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔ ان کے دور میں کبھی باران رحمت، زحمت نہیں بنی تھی۔ لیکن آج کا انسان ساری زندگی لگا کر کچھ جمع پونجی اکٹھی کرتا ہے اپنا گھر بار بناتا ہے، لیکن حکومتی سطح پر پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی ساری جمع پونجی بارشوں کے پانی میں بہہ جاتی ہے جب کہ یہ پانی تو بجلی بنانے، فصلیں سیراب کرنے اور دیگر پروجیکٹس میں کام آنا چاہیے تھا۔ پھر انسان سے کہا جاتا ہے اللّٰہ نے آزمائش میں ڈال دیا۔ قدرتی آفات سے کون لڑ سکتا ہے۔ اور پھر ہر اُس کام کو اللہ کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے جو حقیقت میں اپنی نااہلی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ آزمائشیں اور آفات اللہ نے خلفائے راشدین، اُمیہ، عباسی، عثمانی یا مغل دور حکومت میں کیوں نہیں نازل کیں؟ یقیناً کی تھیں۔ اور تب کا حاکمِ وقت زمین پر اپنا عصاء مار کر زمین سے سوال کرتا ہے کیا تیرے اوپر انصاف قائم نہیں کیا جاتا، پھر کیوں لرز رہی ہے۔اور وہ قدرتی آفت، وہ آزمائش واپس پلٹ جاتی ہے۔ اب ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے۔ یا تو اُس وقت کے خدا اور اب کے خدا میں فرق ہے، یا پھر اُس وقت کے عوام و حکمران طبقے اور آج کے عوام و حکمران طبقے کی عقل و شعور، فلسفے اور جدوجہد میں فرق ہے!!!
اگر ہر درپیش مسئلے کا حل اللّٰہ نے اپنے تک محدود رکھا ہے اور ہر ظلم کا فیصلہ آخرت میں ہونا ہے تو انسانی معاشرے اور جنگلی جانوروں کے غول میں کیا فرق، جہاں ایک طاقت ور کمزور کو کھا جاتا ہے۔ جہاں ایک طاقت ور کمزور کے حقوق غصب کر جاتا ہے۔ پھر خدا نے انسان کو عقل کیوں دی!!!؟؟
آج کے انسان کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ وہ نہیں جانتا اس کو عقل کیوں دی گئی ورنہ چند سرمایہ پرست کمپنیاں پوری انسانیت کو اپنا غلام بنانے کے قابل نہ ہوتیں۔ چند سیاست دان پوری قوم کو آپس میں لڑانے میں کامیاب نہ ہوتے۔ چند علمائے امت میں تفرقہ پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوتے۔
چناں چہ آپ جب بھی کھانا کھائیں تو ایک بار ضرور سوچیں، روٹی کے ساتھ سالن کیوں ضروری ہے!؟؟؟ سلاد، رائتہ اور سویٹ ڈش کو چاہے اپنی سوچ کے دائرے سے خارج کر دیجیے۔۔۔۔