پاکستان میں محنت کشوں کے حقوق کا استحصال
Exploitation of Labor Class of Society in Pakistan
پاکستان میں محنت کشوں
کے حقوق کا استحصال
فہد محمد
عدیل۔گوجرانوالہ
دنیا کے جدید ترین
نظاموں میں محنت اور محنت کش طبقہ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔معاشی عمل میں محنت ایک
اہم عامل پیدائش دولت ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار معاشرے کے محنت کش طبقے
کی ذہنی و جسمانی ترقی پر ہوتا ہے۔ اقوام محنت کش طبقے کی ترقی کے لیے منصوبہ بندی
کرتی ہیں اور اپنی معیشت کے اعتبار سے مختلف شعبوں کے محنت کش افراد کی تربیت ، ان
کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے، جس میں
ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں تاکہ وہ ملکی ترقی میں اپنا
بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
پاکستان 1947ء میں جب
معرض وجود میں آیا تو پاکستان بنانے والی جماعت کا کوئی واضح معاشی نظریہ اورمعاشی
حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں اور محنت کشوں کے لیےکوئی قانون سازی عمل میں
نہ لائی گئی۔ جس طرح معاشی اور سیاسی شعبوں کے حوالے سے انگریز کے بنائے ہوئے قوانین
کو مملکت کا آئین بنایا گیا ،اسی طرح سے محنت اور محنت کشوں کے حوالے سے بھی قانون
سازی کی گئی۔ ہمارا زرعی خطہ ہونے کے ناطے سے زیادہ تر محنت کش طبقے کا تعلق زرعی
شعبے سے تھا۔اور مسلم لیگ کی لیڈرشپ کی اکثریت فیوڈل لارڈز (جاگیر دار طبقے) پر
مشتمل تھی۔ لہٰذا آج تک زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کی بہتر سال گزرنے
کے باوجود نہ تو کوئی رجسٹریشن ہے، نہ ہی ان کے حوالے سے کوئی ادارہ جاتی فریم ورک
موجود ہے۔ جب کہ محنت کشوں کا ٪41.37حصہ زراعت ، ٪23.67 انڈسٹری اور تقرییاً
٪34.96دوسرے شعبوں کے ساتھ ہے۔
پاکستان کے 1973ء کے
آئین میں درج ذیل شقیں بنیادی محنت کشوں کے حقوق (لیبر رائٹس) کی وضاحت کرتی
ہیں:۔
٭آئین پاکستان کے
آرٹیکل 11 کے تحت غلامانہ ، جبری اور بچوں سے محنت کی ممانعت کی گئی ہے۔
٭ آرٹیکل 17 کے مطابق
مزدوروں کو یونینز اور ایسوسی ایشنز بنانے کا حق دیا گیا ہے۔
٭آرٹیکل 18 کے تحت ہر
کوئی شخص کسی بھی شعبے ، تجارت، کاروبار، خدمات وغیرہ کا آزادی سے انتخاب کر سکتا
ہے۔
٭آرٹیکل 37 (ای) مزدور
کے مناسب کام کرنے کے ماحول اور خواتین کے مخصوص ایام جیسے کہ میٹرنٹی وغیرہ میں
چھٹی کے حوالے سے وضاحت کرتا ہے۔
آجر اور اجیر کا
معاہدہ:
انڈسٹریل اینڈ
کمرشل ایمپلائمنٹ آرڈیننس 1968 کے تحت مزدور اور آجر یعنی ایمپلائر کے
درمیان ایک تحریری معاہدہ ہونا چاہیے۔ یہ تحریری معاہدہ مزدور کے کام ، اوقات کار
اور اجرت یا تنخواہ وغیرہ کی وضاحت کرے گا۔ پاکستانی نظام کا اگر جائزہ لیا جائے
تو گھر میں کام کرنے والی خواتین، زراعت سے منسلک محنت کش ، مختلف دکانوں میں کام
کرنے والے ملازمین کسی کھاتے میں ہی نہیں آتے نہ ہی ان کو کوئی تحریری معاہدہ دیا
جاتا ہے نہ ان کو ملازمت چھوڑنے کا کوئی نوٹس دیا جاتا ہے ان کی زندگی بالکل
غلاموں کی سی ہے جو کہ مالک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ کسی ادارہ کے تحت ان کی
کوئی رجسٹریشن نہیں ہوتی ہے۔ مالک کے منہ سے نکلا ہوا لفظ ان کے لیے قانون ہے۔
گھریلو ملازم بچوں کے اوپر تشدد کے واقعات سے اخبارات بھری پڑی ہیں۔ جب کہ چائلڈ
لیبر کی بھی سختی سے قانون میں ممانعت ہے۔ بڑی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں
کے ساتھ بھی جو معاہدات ہوتے ہیں ان کی کاپیاں ان کو نہیں دی جاتیں۔ جب چاہے
انتظامیہ ان کو نکال دیتی ہے۔ ٹھیکے پر کام کرنے والے مزودر تعمیراتی شعبے میں کام
کرنے والے مستری اور مزودر بھی انہیں مسائل کا شکار ہیں۔
کام کے اوقات کار:
پاکستان میں فیکٹری
ایکٹ 1934ء (انگریز دور کا بناہوا ) کے تحت دن میں 9 گھنٹے اور ہفتے میں زیادہ سے
زیادہ 48 گھنٹے کام لیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سے 18 سال سے کم عمر بچے کو کام پر
نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ اور یہ ایکٹ ہر اس ادارے پر لاگو ہوگا، جس میں 10 یا 10 سے
زیادہ افراد کام کرتے ہیں۔ اسی طرح سے پراونشل شاپ آرڈی نینسز 1969 ء کے تحت ہفتہ
میں زیادہ سے زیادہ 48 گھنٹے کام لینے کی اجازت ہوتی ہے۔ حقیقت میں اگر دیکھا جائے
تو دکانوں ، فیکٹریوں میں کام کرنے کے کوئی اوقات کار معین نہیں ہیں۔ جب تک مالک
بیٹھا ہوا ہے مزدور یا ملازم کو گھر جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے ۔ اسی طرح سے
فیکٹریوں میں ٹھیکے پر کام کرنے والے مزدور طبقہ کا ٹھیکیدار بھی مختار کل سمجھا
جاتا ہے ۔ مزودروں سے 12 سے 16 گھنٹے پاکستان میں کام اپنا قانونی حق سمجھ کر
کروایا جاتا ہے۔
کام کرنے کا ماحول:
فیکٹریز ایکٹ 1934 ء کے
ذیلی قانون 7 کے تحت آجر کے لیے ضروری ہے کہ کام کرنے کے حوالے سے مزدوروں کو اچھا
ماحول فراہم کرے، جس میں ہوا دار کمرے ، بہتر روشنی واش رومز وغیرہ شامل ہیں۔
مشینوں پر کام کرنے والے مزودورں کے لیے ضروری ہے کہ ان کی باقاعدہ مشین آپریٹ
کرنے کی تربیت کی جائے اور کسی بھی حادثے کی صورت میں متعلقہ محکمہ کومطلع کیا
جائے۔ مزدوروں کے علاج معالجے کے لیے پراونشل سوشل سیکیورٹی آرڈینینس 1965 ء کے
تحت سوشل سیکیورٹی اداروں کی تشکیل کی گئی مگر بہت سارے حادثات جن میں مزدور
فیکٹریز میں جاں بحق ہو جاتے ہیں ان کی اداروں کے تحت رجسٹریشن ہی نہیں ہوئی ہوتی،
جس سے ان کے ورثا کو سہولیات ملنے میں بہت سی قانونی پیچیدگیاں سامنے آجاتی ہیں۔
فیکٹریوں میں کام کرنے کے ماحول کو بہتر بنانے کے حوالے سے صوبائی سطح پر
محکمہ لیبر اور محکمہ ماحولیات بنائے گئے، جن کی کارکردگی بھی زبانی جمع خرچ سے
زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ان محکموں کے انسپکٹرز کو فیکٹری مالکان باقاعدہ سے ماہانہ
بھتہ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ بھی 20 سے30 فی صد لیبر کو رجسٹرڈ
کروایا جاتا ہے۔ اور سالانہ آڈٹس میں کروڑوں روپے رشوت دے کر کام نکلوائے جاتے
ہیں۔
اجرت کے قوانین:
اجرت کا قانون بھی
پیمنٹ ویجز ایکٹ 1936 ء یعنی انگریز کا بنایا ہوا ہی اپنایا گیا ہے۔ اس قانون کے
تحت اجرت کا ایک باقاعدہ بورڈ ہوتا ہے جو کہ گزٹ نوٹیفیکیشن کے ذریعے سے کم سے کم
اجرت کا تعین کرتا ہے۔ اس میں ایک اہم چیز جو بیان کرنی ضروری ہے وہ ہنر مند مزدور
اور غیر ہنر مند مزدور کی اصطلاحات ہوتی ہیں۔ ایک غیر ہنر مند مزدور کی کم سے کم
ماہانہ اجرت -/17500 روپے برائے مالی سال 2020-2019 کے لیے ہے۔ ہنر مند
مزدوروں کی کیٹگریز بنائی گئی ہیں، جیسے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری، الیکٹرک انڈسٹری،
شوگر انڈسٹری، سیمنٹ انڈسٹری وغیرہ ہر قسم کے ہنر مند مزدور کی اجرت کی کم سے کم
اجرت کا تعین گزٹ نوٹیفیکیشن میں کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات ہے کہ -/17500
روپے میں ایک گھر کا ماہانہ بجٹ بنانا ناممکن ہے یعنی مزدور آدمی نہ تو اپنے بچوں
کی غذائی ضروریات پوری کرسکتا ہے نہ ہی تعلیم دلوا سکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے
کہ اس کم سے کم اجرت کی پابندی تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جس فیکٹری میں 500 یا
اس سے زیادہ مزدور کام کرتے ہیں اس میں تو کسی حد تک ممکن ہے مگر اس سے چھوٹی
انڈسٹریز میں ظلم کا بازار گرم ہوتا ہے اپنی مرضی سے مزدوروں کو تنخواہیں دی جاتی ہیں
اور جو احتجاج کرتا ہے اس کو فارغ کر دیا جاتا ہے ۔ مزدوروں کی پنشن کے حوالے سے
قائم شدہ محکمہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹس میں بھی زیادہ تر ورکرز کو رجسٹرڈ ہی
نہیں کروایا جاتا اور 2020-2019 کی ای او بی آئی پینشن صرف -/6500 روپے ہے۔
اب ایک 60 سال سے اوپر مزدور اس رقم میں کس طرح مہینہ گزار سکتا ہے یہ پاکستانی
سائنسدان ہی بتا سکتے ہیں۔
لیبر یونینز:
آئین پاکستان کے آڑٹیکل
17 کے تحت لیبر یونینز کا قیام عمل میں لایا جاسکتاہے۔ اس موضوع پر تفصیل سے بہت
کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر مختصراً یہاں پر بیان کرنا چاہتا ہوں کہ مختلف فیکٹریز جو
ایس ای سی پی (سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان) کے تحت رجسٹرڈ ہوتی ہیں عموماً
وہی سی بی اے ( collective bargain
agreement )
یونین بنانے کی اجازت دیتی ہیں۔ اکثر میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک فرضی یونین
بنا کر رجسٹر کروالی جاتی ہے اور چند من پسند لوگوں کو لیڈرز بنا کر اپنی مرضی کے
یونین ایگریمنٹس کیے جاتے ہیں۔ اگر کسی جگہ پر حقیقی یونین وجود میں آ جاتی ہے تو
وہاں پر لیبر لیڈرز کو انتظامیہ کی طرف سے نوازا جاتا ہے۔ ان کو اندر کھاتے
سہولیات اور پرٹوکول دے کر بقیہ مزدوروں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
چھوٹے درجے کے لیبر لیڈرز مزدوروں کے مختلف کام کروانے پر محکموں جیسے کہ سوشل
سیکورٹی ، ای و بی آئی ، ورکر ویلفیر کے ٹاؤٹس کا کام کرتے ہیں۔ ان محکموں میں
زیادہ تر مالی بے ضابطگیوں، فراڈز اور سکینڈلز میں ان ہی نام نہاد لیبر لیڈرز کا
کلیدی کردار ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام:
ترقی یافتہ اقوام لیبر
قوانین کو بھی جدید بنا چکی ہیں، جس میں لیبر رجسٹریشنز، سوشل سیکیورٹی، آورلی
پیمنٹس، لیبر سوشل ویلفیئر ، لیبر ٹریننگ، لیبر اینوائرمنٹ ، ہیومین ریسورس
مینجمنٹ وغیرہ ۔ پاکستان میں زیادہ تر لیبر قوانین پاکستان بننے سے پہلے کے
ہیں۔ جن پر عمل درآمد کی شرح بہت کم ہے ۔ بالفاظ دیگر معاشیات کا یہ شعبہ بھی
انتہائی کسمپرسی کے حالات کا شکار ہے۔ جس کا حل حقیقی سماجی تبدیلی کے نظریہ میں
پنہاں ہے
ترقی یافتہ اقوام لیبر
قوانین کو جدید خطوط پر استوار کرچکی ہیں۔جس کے باعث ان کے ہاں اوقات کار
میں بہتری پیدا ہو نے کے باعث پیداوار میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔جب کہ اس کے
برعکس پاکستان میں جو قوانین ہیں ایک تو وہ غلامی کے عہد کی یادگار ہیں
دوسرا انہیں قومی حالات سے ہم آہنگ بنانے کے بجائے انہیں مزدوروں پر
جبر کا شکنجہ مزید کسنے کا ذریعہ بنایا گیا ۔یہی وہ جہ ہے کہ یہ قوانین نہ
تو پیداوار میں اضافہ کرسکے ہیں اور نہ ہی مزدوروں کا اعتماد حاصل کر نے میں
کامیاب ہو سکے ہیں۔