محنت کشوں کا عالمی دن اور ان کے مسائل پر ایک نظر
تو قادر مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
محنت کشوں کا عالمی دن اور ان کے مسائل پر ایک نظر
تحریر: عمران علی اوگی، عمان
الکاسب حبیب اللہ
مزدور اللّٰہ کا دوست ہے
یہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے
اگر دینی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو اسلام کے نزدیک وسائل دولت کی منصفانہ اور عادلانہ تقسیم ہی کسی بھی سوسائٹی میں معاشی حقوق کا نظام قائم کر سکتی ہے کیونکہ پیدائش دولت کا عمل تب ہی آگے بڑھ سکتا ہے جب محنت کش طبقہ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔سرمایہ دارنہ نظام نے جب پورپین سوسائٹی میں اپنا عملی نظام قائم کیا تو اس کے نتیجے میں سوسائٹی کے اجتماعی وسائل کا ارتکاز ایک محصوص طبقے کے ہاتھ میں چلا گیا اور اس طبقے نے وہاں کے محنت کشوں پر ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے محنت کشوں سے 20 گھنٹے کام لیا جانے لگا۔ اجرتوں کا کوئی نظام نہیں تھا۔صحت کی بنیادی سہولیات کو مزدور ترس رہے تھے۔ اس ظلم اور جبر کے خلاف یکم
مئیء1886 میں مزدوروں نے شکاگو میں ہڑتال کی اور مقصد یہ تھا کہ ہمارے کام کے اوقات کار طے کیے جائیں ہمیں بنیادی ضروریات صحت اور مکان دیا جاے ہمارے بچوں کے لیے تعلیم کا۔ بندوبست کیا جائے۔پھر ہوا یوں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے یہ کالے قوانین حرکت میں آ تے ہیں اور ان مزدوروں پر تشدد
کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں گیارہ محنت کش موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔اس کے بعد سے آج تک ہر سال یکم مئی کو پوری دنیا میں شکاگو کے محنت کشوں کی یاد
کے یاد کے طور پر منایا جاتا ہے۔
لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے آج بھی مزدور اسی حالت میں ہیں سرمایہ دارانہ نظام نے محنت کشوں کو اپنے شکنجے میں رکھنے کے نت نئے طریقے ایجاد کر لیے ہیں۔اور محتلف ناموں اور کرداروں کے ساتھ آج بھی مزدور کا خون چوسا جا رہا ہے۔اگر ہم اس کی وجہ جاننے کی کوششں کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اصول ہی دراصل محنت کے استحصال اور سوسائٹی کے ایک چھوٹے سے طبقے کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ان کے ہاں پیدائش دولت کے عامل چارہیں تو پیداوار کے تین حصے آجر کے پاس چلے جاتے ہیں زمین کا حصّہ ،سرمایہ کا حصہ اور مینجمنٹ کا حصہ۔ باقی رہا مزدور کا حصہ تو اس میں بھی آجر اور اجیر کی ایک لمبی بحث ہے۔محتصر یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام بے روزگاری پیدا کرتاہے اقربا پروری اور رشوت کو پروموٹ کرتاہے میرٹ اور قابلیت کا قاتل ہے تو ایسے معاشرے میں پھر محنت کش اپنی محنت کو سرمایہ دار کے ہاتھوں بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے اس طرح سرمایہ دار کو سستی افرادی قوت باآسانی دستیاب ہو جاتی ہے۔ یہ چار عاملین پیدائش دولت سرمایہ دارانہ نظام کی اپنی اختراع ہے۔ اگر دیکھا جائے تو زمین اور سرمایہ ایک چیزہے۔ محنت اور تنظیم ایک چیز ہیں۔اصل میں پیدائش دولت کا بنیادی عامل ایک ہی ہے اور وہ ہے محنت دوسرا عامل سرمایہ ہےجو اس کا معاون ضرور ہے لیکن اصل نہیں ہے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں اصل سرمایہ ہے اور محنت کشوں کو اس کے گرد گھمایا جاتا ہے۔۔ آج کے جدید دور میں بھی مزدور طبقے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں اور ظلم اور بربریت کا بازار گرم ہے۔اس کا مشاہدہ اچھی طرح تب ہوتا ہے جب انسان روزی کی تلاش میں دوسرے ملکوں کا سفر کرتا ہے وہاں پر محنت کشوں کی حالتِ زار دیکھ کر کسی شاعر نے یہ صیح کہا تھا کہ
تو قادر مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
انسانیت کے مادی اور اخلاقی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی روکاوٹ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو ایک طرف بندے اور خدا کے تعلق کے راستے میں روکاوٹ بن کے کھڑا ہے تو دوسری طرف اس کی مادی ترقی کے تمام وسائل کو اپنے قبضے میں رکھ کرمعاشروں کو غلام بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیراہے۔۔اپنی اس سرمائے کی بھوک کو مٹانے کے لیے کئی ملکوں پر چڑھائی کر چکاہے۔عراق لیبیا شام افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہم بحیثیت پاکستانی جس سماج کا حصہ ہیں یہاں تو پورے کا پورا سماج ہی عدم توازن کا شکار ہے سیاسی،معاشی سماجی اور تعلیمی اداروں میں طبقاتی سوچ پر کام کیا جاتاہے ہمارے ملک اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کی بدترین مثال ہے یہاں پر آج بھی لوگوں کو بیڑیوں سے باندھ کر کام کروایا جارہا ہے جاگیرار دار کے ہاتھوں نہ تو محنت کشوں کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی ان کا جان و مال ۔ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں آٹا اور چینی کے بحران کا سامنا ہے وجہ یہ نہیں کہ وسائل کم ہیں بلکہ سرمایہ دار طبقے نے ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی طور پر اشیاء خوردونوش کا بحران پیدا کیا ہوا ہے۔پاکستان کے چند حاندان ملک کے اجتماعی وسائل پر قابض ہیں۔ اور غربت کی ماری عوام اپنے بچوں اور اپنے جسم۔کے محتلف اعضاء کو بیچنے پر مجبور ہے۔ ملک کی 50 فیصد سے بھی زائد آبادی افلاس سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان بننے سے لےکر ابھی تک محنت کشوں کے مسائل کو سامنے رکھ کر نہ کوئی بجٹ بنا اور نہ کوئی پلاننگ کی گئی۔ہر سال بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی بنک سے قرضہ لیا جاتا ہے جتنی ملک کی ٹوٹل آمدنی ہے اس سے دوگنا فرضی بجٹ پیش کرکے لوگوں کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھا کے رکھا جاتا ہے۔ ہر سال غیر پیداواری مد میں ایک بہت بڑی رقم انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے نام سے ان ظالم طبقات کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ہمارے ریونیو کا %70 کے قریب زراعت سے آتا ہے آج تک کوئی بھی بجٹ زراعت کو مدنظر رکھ نہیں بنایا گیا ۔2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی تبدیلی کا نعرہ لےکر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچی لیکن اگر دوسالہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو محنت کشوں کے مسائل میں کمی کے بجائے اضافے کی شرح دیکھنے میں آئی ہے۔روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے پرگرتی جارہی ہے۔اور آئے دن روپے کی قدر میں گراوٹ ہی ہوتی جارہی ہے۔ مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ حکومتی اقدامات صرف اس حد تک ہیں کہ لنگر خانے کھول دو۔ لوگوں میں احساس پروگرام کے تحت خیرات بانٹنے کا کام شروع کر دو یعنی ملک کو خیراتی پیسوں پر پلنے والا معاشرہ بنایا جا رہا ہے گویاغربت ختم کرنے کا پروگرام یہ ہےکہ لوگوں میں خیرات تقسیم کرنا شروع کردو۔؟ صحت کی سہولیات فراہم کرنےاور سرکاری ہسپتالوں کو معیاری اور فنگشنل بنانے کے بجائے صحت کارڈ کا اجراءکیا گیا۔اور وہ بھی شفاف نہیں تھا سیاسی گروہوں کے اپنے من پسند لوگوں میں وہ کارڈ تقسیم ہوے ہیں۔ اب جو لوگ اس نظام میں رہتے ہوئے اس کو تبدیل کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں وہ دراصل عوام کو بے وقوف بناتے ہیں اور جہاں عوام کے اندر سیاسی شعور نہ ہو وہ بہت جلد ان کے دھوکے میں آجاتی ہے
جیسا کہ حالیہ الیکشن میں ہوا۔اور گزشتہ73 سال سے
ہوتا آ رہا ہے کہ ہر پانچ سال بعد نئے چہرے سامنے لائے جاتے اور نظام ویسے کا ویسا ہی ہے اور ہر آنے والا تھوڑے عرصے کے بعد یہ کہنا شروع کر دیتا ہے مجھے تو ابھی ایک سال ہوا ہے تھوڑا وقت تو لگے گا اس کو ٹھیک کرنے میں اور یہی کہہ کر اپنا وقت پورا کر کے چلا جاتا ہے
حالیہ کورونا فتنہ کی وجہ سے بھی سب سے زیادہ متأثر ہونے والا طبقہ مزدور ہی ہے ۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ ان دو ماہ میں دنیا کے 24 امیر ترین لوگوں کی دولت میں ریکارڈ اضافے کی شرح دیکھنے میں آئی ہے ایک طرف دنیا کی اکثریتی آبادی دو وقت کی روٹی کا بندوست کرنے سے قاصر ہے اور دوسری طرف سرمایہ داراں کی دولت میں بڑھوتری؟
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام کی خرابیوں کو سمجھا جائے اور تبدیلی نظام کا صحیح شعور حاصل کیا جا ئے
اگر ہم نے اس ظلم کے نظام کو تبدیل کرنا ہے تو ہمیں ایک اعلیٰ اور سچا نظریہ اختیار کرنا ہوگا جو انسان کے دونوں تقاضوں مادی اور روحانی ترقی کا پروگرام رکھتا ہو۔اور پھر اس نظریے پر تربیت کے لیے اپنے آپ کو پیشِ کرنا ہوگا