معاشی پسماندگی! اسباب و سد باب
انسانی معاشرے کی بیماریاں بھی انسانی جسم کی بیماریوں کی مانند ہوتیں ہیں ، جن کا علاج حکماء ہی کر سکتے ہیں۔
معاشی پسماندگی! اسباب و سد باب
تحریر :محمد شعیب آزاد، نوشہرہ کینٹ
انسانی معاشرے کی مثال انسانی جسم کی مانند ہے جو کبھی تندرست ہوتا ہے ، کبھی بیمار۔انسانی معاشروں کے بھی ڈاکٹرز ہوتے ہیں جو اللہ تعالی کی عطا کردہ حکیمانہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ جس کے ذریعے وہ معاشرے کی بیماریوں کی تشخیص کرتے ہیں پھر اُس معاشرے کا علاج تجویز کرتے ہیں۔یہ دور معاشیات کا ہے۔ مسلمانوں کے دورِ عروج اور زوال کے سنگم پر ایک فکری ، سماجی , سیاسی اور معاشی حکیم نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب کا باریک بینی سے مطالعہ کیا اور پھر اس زوال سے نکلنے کا راستہ بتا دیا۔ اِن سے دنیا کا اکثر دانشور طبقہ واقف ہے ۔ میری مراد امام شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی ؒہیں۔شاہ صاحب نے اپنی شاہکار کتاب حجتہ البالغہ کے باب ارتفاقات معاشیہ میں معاشی اور اقتصادی مسائل کی وجوہات اور اس کے حل کو واضح کیا ہے ۔
کسی بھی معاشرے میں حصول دولت کے چار ذرائع ہیں ۔
1۔ زراعت ۔ (Agriculture) 2۔ صنعت ۔ (Industry)
1۔ زمینی پیداوار جس میں زراعت معاشی عمل میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ زرعی معیشت کے حامل معاشروں کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں ۔اسی پر باقی عوامل کا انحصار ہے۔دوسرے درجے میں صنعت ہے۔ جو زمینی پیداوار کی افادیت میں اضافہ کرتی ہیں۔ تیسرے درجے میں زرعی و صنعتی عمل سے پیدا ہونے والی اشیاءکی خریدوفروخت یعنی
3۔ تجارت - (Trade ) 4۔ ملازمت - (Services )
2۔ افراد ایسے پیشے اختیار کریں گے جو ان کے معاشرتی ماحول ، افراد کی طبیعت اور سماجی ضروریات سے مطابقت رکھتے ہوں ۔
تجارت ہے اور پھران تینوں اشیاء سے جڑی خدمات یعنی ملازمت۔
اس تناظر میں وطنِ عزیز کے معاشی نظام کا جائزہ لیں تو تمام سوالوں کے جواب مل جائیں گے کہ کیا قومی معیشت میں زراعت کردار ادا کررہی ہے ؟ مالی وسائل کی تقسیم میں زراعت کے شعبوں کو کتنی اہمیت دی جا رہی ہے؟ رائج الوقت نظام میں کاشتکاروں کو بیج ، کھاد ، زرعی ادویات اور آبی وسائل میں سہولت دی جا رہی ہے یا اُن کا ممکن حد تک استحصال کر کے اُن کی محنت کو صفر سے ضرب دے دی جاتی ہے ؟ سہولیات کا فقدان اور محنت کا مکمل معاوضہ نہ ملنے کے سبب کاشتکاروں کی تعداد تو نہیں گھٹ رہی ؟ پیداوری شعبوں کی بڑھوتری ترقی پذیر ہے یا زوال پذیر ؟
3۔ یہ ہر دور کے اربابِ اختیار کا اولین فرض ہوتا ہے کہ معاشرے کی ضروریات کے مطابق ایسا تعلیمی اور عملی تربیت کی تکنیکی ترکیب واضح کریں جو معاشرے کے افراد کو اُن کی صلاحیتوں ، خاندانی پس منظر اور اُس علاقے کے طبعی رحجانات سے مطابقت رکھتا ہو۔
معاشی نموکے لیے سازگار ماحول ہونا ضروری ہے۔ جس کے لیے مملکت ہلکے ٹیکس اور بقدر ضرورت رکھے یعنی غیر پیداواری عمل کم سے کم ہو۔ غیر پیداواری شعبوں کا بھی وجود نہ ہو بلکہ حصول دولت کا زیادہ سے زیادہ انحصار اصل ذرائع پیدائش دولت بالترتیب یعنی زراعت ، صنعت ، تجارت اور خدمات پر ہو۔
اس کی مثال ایک گھر سے لے لیتے ہیں جس میں 5 افراد رہتے ہوں اور ہر فرد کے پاس گھر کی کوئی نہ کوئی ذمہ داری ہے مثلا صفائی، پانی کا انتظام ، کھانا پکانا بچوں کی پرورش وغیرہ۔ اور ہر کوئی بھرپور محنت کر رہا ہو مگرحصول دولت کا ذریعہ کوئی نہیں۔ ایسے گھر کا انجام کیا ہو گا ؟ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
2- کاشتکاروں، تاجروں اور پیشہ وروں پر بھاری ٹیکس لگانا بھی ملک کی بربادی کا سبب ہے، اس سے خیر خواہوں کی تعداد گھٹ جاتی ہے اور رفتہ رفتہ فرمانبردار ختم ہو جاتے ہیں اور لوگ ہروقت بغاوت پر آمادہ رہتے ہیں۔
یہی حال وطنِ عزیز کا ہے جس میں کمانے والے چند ہیں جبکہ اُن کی کمائی پر انحصار کرنے والے بہت زیادہ ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ سماج کی شیرازہ بندی کے وضع کردہ فطری اُصولوں سے جس قوم نے بھی رو گردانی کی ہے وہ معاشرہ سماجی طور پر طبقاتیت ، سیاسی طور پر بد امنی اور معاشی طور پر بھوک کا شکار ہوئی، لہذا ہمیں فطرت کے اصولوں کی طرف لوٹ کر سماج کی شیرازہ بندی اُنھیں فطری اصولوں پر کرنی ہو گی ۔اب اگر کوئی معاشی نظام مندرجہ بالا اصولوں پر پورا نہیں اترتا ہو تو اما م شاہ ولی اللہ کے مطابق معاشرے میں دو بیماریاں جنم لیں گی۔
1- سرکاری خزانے کا غیر ضروری مصارف کے بوجھ تلے دب جانا ، یعنی ایسے غیر پیداواری پیشوں کا انتخاب جو کسی بھی طریقے سے پیدائشِ دولت کے عمل کو تقویت دینے سے قاصر ہو مثلا ہرزہ سرائی ، شعر گوئی ، رقص و سرور ،سٹہ ، جوا ، منشیات فروشی وغیرہ وغیرہ
امام شاہ ولی اللہ کے نزدیک ایسا سماجی تمدن جو محنت کش کو اس کی صحیح قیمت ادانہ کرے ضروری ہے کہ اس فاسد تمدن کو جڑسے ختم کرکے اس کی جگہ نیا عادلانہ سماجی تمدن تشکیل دیا جائے جو صحت مند معاشی رشتوں پر استوار ہو اور انسانی احتیاجات کی تکمیل کرنے والا ہو تاکہ انسان آسودہ حال ہوکر اپنی اخلاقیات اور اخروی سعادت کی طرف متوجہ ہوں ۔