کالا دھن
قومی پیداوار کیسے بڑھائی جائے؟ یہ ایک ایسا خواب ہے، جو ہر دور کی حکومت دیکھتی ہے اور اس کی تعبیر کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے۔ پاکستان جیسے بڑی آبادی
کالا دھن
محمدکاشف شریف، راولپنڈی
قومی پیداوار کیسے بڑھائی جائے؟ یہ ایک ایسا خواب ہے، جو ہر دور کی حکومت دیکھتی ہے اور اس کی تعبیر کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے۔ پاکستان جیسے بڑی آبادی والے پس ماندہ ممالک میں پیداوار سے بڑا مسئلہ اُس کے اعدادوشمار کے اکٹھے کرنے سے متعلق ہوتا ہے۔ چناںچہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 50 فی صد پیداوار کسی بھی ریکارڈ میں نہیں آتی۔ گویا گھریلو صنعت ہو یا زرعی شعبہ، اپنی مددآپ کے تحت کےے جانے والے خدمت کے کام ہوں یا محدود درجے پر کمائی کرنے والے شعبے جہاں پیداوار کا استعمال اُس کے عاملین خود ہی کرلیں، کا اندازہ لگانا یقینا مشکل کام ہے۔
ہمارے ٹیکس کے قوانین سب کو رضاکارانہ طور پر اپنی آمدن ظاہر کرنے اور اُس پر ٹیکس ادا کرنے کا پابند بناتے ہیں، لیکن اس پر وہ لوگ بھی عمل نہیں کرتے جو ایسے قوانین بناتے ہیں۔اس صورتِ حال میں زور زبردستی سے جتنا بھی ٹیکس اکٹھا کرلیا جاتا ہے، اُسے حکمران طبقے بے دردی سے لوٹ لیتے ہیں۔ اُن کی لوٹ مار کی کہانیاںسن سن کر رضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کرنے والا ایک فرد بھی عدم ادائیگی میں ہی عافیت جانتا ہے۔
یہ عمل دو قسم کی آمدن کو جنم دیتا ہے: ایک سفید دھن اور دوسرا کالا دھن۔ سفید دھن وہ سرمایہ ہے، جس پر کسی شخص یا کمپنی نے طے شدہ قاعدے کے مطابق ٹیکس ادا کیا ہے اور کالادھن، جسے کمانے کے لےے ریاست کو یا تو سِرے سے ٹیکس ادا ہی نہیں کیا گیا اور اگر ادا کیا بھی گیا ہے تو مکمل ادا نہیں کیا گیا۔ عموماًیہ سمجھا جاتا ہے کہ چوری، رشوت ستانی،فراڈ، جعل سازی اور فریب سے کمائی جانے والی دولت دراصل کالا دھن ہوتی ہے اور اس کے برعکس سفید دھن۔ لیکن نافذ قوانین کے حوالے سے معاملہ کچھ مختلف ہے۔ اگر اَخلاقی حوالے سے منفی طریقوں سے دولت کمائی جائے اور کاغذی کارروائی میں مناسب ٹیکس بھی ادا کردیا جائے تو وہی غلط ذرائع سے حاصل شدہ دولت سفید دھن قرار پائے گی اور ہمارے اکثر لوگ جو دن رات حق حلال کی کمائی کرکے زندگی گزارتے ہیں اور کسی بھی وجہ سے اُس دولت پر ٹیکس ادا نہیں کرتے، وہی حق حلال کی کمائی کالادھن بن جاتی ہے۔
اس تناظر میں آئندہ دورکی حکومتیں بھی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرح کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، جس میں حکومتی خدمت کے شعبے بہ تدریج مہنگے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ وہ اعلیٰ خدمات کے عوض زیادہ معاوضہ ٹیکس کی صورت میں وصول کررہی ہیں اور جس میں زیادہ دینے کی سکت نہ ہو، وہ اُسی دقیانوسی نظام کے مزے چکھے۔
یہی وجہ ہے کہ نظام کالے دھن کو سفید کرنے کے مواقع فراہم کرتا رہتا ہے، تاکہ مقتدرہ نہ صرف اپنی لوٹ مار کو سفید دھن میں ڈھال لے، بلکہ اُن میں یہ حوصلہ بھی جوان رکھے کہ کوئی بات نہیں، جاری رکھو! بعد میں سب ٹھیک ہو جائے گا اور کوئی نہیں پوچھے گا۔
چناںچہ ہر حکومت کے آخری سالوں میں ایسی سکیمیں مخالفت کے باوجود منظر
عام پر آجاتی ہیں، جن میں کالے دھن کو سفید کرنے کے بھرپور مواقع دے دیے جاتے ہیں۔
یوں تو ملک عزیز میں کالا دھن سفید کرنے کے کئی اَور طریقے بھی ہیں، لیکن عام عوام
نے انھیں استعمال کر کے عام اور کم اہم بنا دیا ہے۔ اب نئے جال کی ضرورت ہے۔ چناںچہ
حالیہ دنوں میں پراپرٹی کی خرید پر کالے دھن کو سفید کرنے کی سکیم کا اعلان کردیا گیا
ہے اور ہمیشہ کی طرح وہی ہو گا کہ بڑی تعداد میں لوگ ”حق حلال“ طریقوں سے ”کالادھن“
کماتے رہیں گے اوراس سکیم سے فائدہ نہیں اُٹھائیں گے اور دوسری جانب مقتدرہ اور ان
کے طفیلیئے اپنا کالا دھن ”سفید“ کروا کر سینہ چوڑا کرکے اُصول پسندی کی زندگی گزارنے
کی سہولت سے فائدہ اُٹھاتے رہیں گے۔