عالمی سرمایہ دارانہ نظام: تاریخ اور حقائق
One line summaryآج کی جدید دنیا بھی سرمایہ دارانہ نظام سے نکل کر نئی کروٹ لے رہی ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے دو اہم ترین اداروں کی اجارہ داری ختم
عالمی سرمایہ دارانہ نظام: تاریخ اور حقائق
تحریر: شاہ فہد، اسلام آباد
تاریخ انسانی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے جیسے انسان نسلی و عقلی لحاظ سے ترقی کرتا چلا گیا ویسے ہی اس میں کچھ حیوان صفت انسان بھی آئے۔ جنہوں نے اپنے ذاتی اغراض کے لیے دوسرے انسانوں کا ناحق خون بہایا۔ مظلوم انسانوں کی گردنوں کے مالک بنے۔ میزان میں کمی کی۔ اقوام کی دولت کو سمیٹ کر بھوک وا افلاس کی فضا قائم کی۔ اپنی حکومت کو قائم کرنے کی لیے انسانوں کو ذبح کیا۔ معاشرے میں بے حیائی کے فروغ کی لیے عورتوں کو زندہ رکھا۔ یہاں تک کہ ان کے راستے میں جو چیز رکاوٹ بنتی گئی اسے جڑ سے اکھاڑا۔
بالکل اسی طرح آج کی جدید دنیا بھی سرمایہ دارانہ نظام سے نکل کر نئی کروٹ لے رہی ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے دو اہم ترین اداروں کی اجارہ داری ختم ہونے جارہی ہے۔ اس کے برعکس ایک نیا عالمی سپر پاور جگہ لے رہا ہے۔ (جس کی بات آج سے 100 سال قبل امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی نے کی تھی)۔ بڑے پرامن طریقے سے تمام اقوام کو ایک فورم پر لانے کے لئے کبھی (SCO) شنگھائی تعاون تنظیم,کبھی ون بیلٹ ون روڈ,کبھی دیگر اداروں کی بنیادیں ڈالی جا رہی ہیں۔ ایک منظم و پرامن طریقے سے اقوام عالم کو اپنا گرویدہ بنایا جارہا ہے ۔ اسی وجہ سے سرمایہ دارانہ آلہ کاروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔
کچھ تاریخی حقائق:
جنگ عظیم اوّل اور پھر دوم کے نتیجے میں بالخصوص مسلمانوں اور بالعموم انسانیت کو عدل وانصاف فراہم کرنے والی عظیم سلطنت سلطنتِ عثمانیہ کو سخت نقصان پہنچا۔ یہ جنگیں دراصل اقوام عالم اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ کی بندر بانٹ کا اقدام تھا۔ پھر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے 1920ء میں ایک بلاک بنام لیگ آف نیشن بنائی۔ جس کا مقصد یہ بتایا گیا کہ آئندہ ان جنگوں جیسی عظیم جنگوں کا تدارک کیا جا سکے۔ جو مکمل ناکام ہو چکی ہے۔
1945ء میں اس نئے ادارے کا نام اقوامِ متحدہ رکھا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ دنیا میں مظلوم انسانیت کی مدد کرسکے۔ جہاں پر ظلم ہو وہاں ظالم کا ہاتھ روکے۔ لڑائی جھگڑوں کا خاتمہ کریں۔ لیکن! تاریخ گواہ ہے کہ اس ادارے کوعالمی سرمایہ دارانہ نظام کی جڑوں کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسی ادارے کے مستقل رکن نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر دنیا میں اپنا رعب جمانے کے لیے ایٹم بم پھینکے۔ آج تک وہاں کی نسلیں معذور پیدا ہو رہی ہیں۔اسی بلاک کے مستقل رکن (امریکہ) نے مشرقی وسطیٰ افریقہ کی دولت کو لوٹنے کے لیے جنگیں مسلط کیں۔ دنیا کا امن خراب کرنے اور اپنے کارندوں کی حکومت قائم کرنے کے لیے القاعدہ، طالبان (افغانستان) بوکو حرام (افریقہ) داعش (شام ۔عراق۔یمن) جیسی دہشت گرد تنظیموں کو بنایا۔ جس کا اقرار کئی امریکن صدور نے کیا۔ اسی امریکہ نے نسلی بنیادوں پر تفرّقہ پیدا کیا۔
معاشی اقدامات
کیپٹلزم کو قوت دینے کے لیے 2 بڑ ے ادارے (آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک) بنائے گئے۔ ان کا مقصد یہ بتایا گیا کہ جو ممالک کسی بھی وجہ سے معاشی طور پر کمزور ہیں ان کی مالی معاونت کی جائے۔ لیکن بدقسمتی سے اس کی بنیاد ہی ظالمانہ معاشی نظام پر تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان اداروں نے سوائے کیپٹل ازم کو قوت دینے کے اور کچھ نہیں کیا۔ ایک طرف تو ممالک کی دولت کو سمیٹا اور دوسری جانب قرضوں کے بوجھ تلے روند ڈالا۔
سرمایہ دارانہ نظام کا طریقہ کار
طاغوت، انسانی دشمن قوتیں اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے تین طریقوں کا استعمال کرتی ہیں۔
1۔ اسلحے کی طاقت پر۔2۔ قوم میں تفرقہ پیدا کر کے اس پر حکومت کرنا۔3۔ ہیکنگ یا آج کل جس وائرس نے ہلچل مچادی ہے۔
آج جو صورتِ حال ہمارے سامنے ہے کہ ایک وائرس نے پوری دنیا پر حملہ کیا ہوا ہے۔ بنیادی طور پر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک نیا وار ہے۔ مسقبل کی ایسی پلاننگ ہےجو ایک نئی معاشی طاقت کو گرانے کے لیے استعمال کیے جارہے ہے۔
دنیا اب زیادہ دیر تک سرمایہ دارانہ نظام کے تلے اپنی آپ کو روند نہیں سکتی۔اب نئے انقلابات جنم لے رہے ہیں۔ منظم اقوام کیپٹل ازم کے ظلم کے نظام سے نکل کر قومی سلامتی میں داخل ہونا چاہ رہی ہیں۔
آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف چین جب اس وار کی زد میں آیا تو اُس نے بڑے احسن انداز سے اس کو کنٹرول کیا۔ اب دنیا کو اپنے ڈاکٹرز دے رہے ہیں۔ اس کے مدِ مقابل انسان دشمن طاقتیں ہیں۔ خود امریکہ بھی اس سانپ کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ اپنی عوام کو اس موذی مرض سے نجات دے۔ وہ دیگر ممالک کو امداد دینے کی باتیں کر رہا ہے۔ جو ماشاللہ یہاں کے آلہ کاروں نے پہلے ہی قبول کر لی ہے۔ (ایک ایران ہے جس نے انکار کیا) اس کیپٹل ازم کو انسانوں سے نہیں بلکہ سرمائے سے غرض ہے۔
آج کا میڈیا، یہاں کے دانش ور، پڑھے لکھے اکثریتی طبقہ گھبرہٹ کا شکار ہے اور عقل و شعور سے عالمی سازشون کو سمجھنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ واحد ولی اللہی جماعت ہے جو بار بار ہماری راہ نمائی فرماتی ہے کہ ہم عقل و شعور سے کام لیں۔ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں اور سامراج کی چالوں کا ادراک کریں کہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام اپنے پنجھے گاڑنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اسلاف کی تاریخ کو پڑھیں۔ جذباتی نہ بنیں۔ آلہ کار نہ بنیں۔ بلکہ رہنمائی کا کردار ادا کریں۔
اللہ تعالیٰ درست نظریہ اور فکر سے وابستگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین