انسانی جسم اور روح کے تقاضے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انسانی جسم اور روح کے تقاضے

    انسان فطری طور پر دو چیزوں کا مرکب ہے ایک مادہ(ظاہری جسم) اور دوسرا باطن (روح) ان دونوں کے ملاپ سے ہی انسان اس زمین اور آسمان کے درمیان رہ سکتا ہے

    By شیر افضل خان Published on Jan 23, 2020 Views 3011
    انسانی جسم اور روح کے تقاضے
    تحریر: شیر افضل خان، کراچی

    انسان فطری طور پر دو چیزوں کا مرکب ہے ایک مادہ(ظاہری جسم) اور دوسرا باطن (روح) ان دونوں کے ملاپ سے ہی انسان اس زمین اور آسمان کے درمیان رہ سکتا ہے اگر ان دونوں چیزوں میں سے ایک بھی الگ ہو جائے تو روح پرواز کر جاتی ہے اور جسم زمین کے نیچے گھڑے میں دفن ہو جاتا ہے۔ حیات اسی کا نام ہے جس میں دونوں چیزیں بیک وقت موجود ہوں۔ انسانی جسم مادی و روحانی طور پر اپنی بقا و ترقی کےلیے مختلف چیزوں پر انحصار کرتا ہے اور ان چیزوں کی اہمیت اس کی نشونما کےلیے بے حد ضروری ہے مثلاٙٙ جسمانی ضروریات کےلیے اسے مختلف اشیاکی ضرورت پیش آتی ہے یعنی جسم کو ڈھانپنے کےلیے کپڑے کی ضرورت،رہنے کےلیے گھر کی ضرورت،غذائی اجناس،پانی،نسل کی بقا کا تحفظ،جان و مال کا تحفظ وغیرہ کی اسے ضرورت پیش آتی ہے چونکہ یہ تمام انسانوں کی اجتماعی ضروریات ہیں لہذا انہیں معاشرے میں موجود اداروں کے ذریعے سے انسانوں کو مہیا کی جاتی ہیں۔ دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں ان اداروں کے ذریعیوں سےعوام الناس کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے تاکہ انسانی معاشرہ بنیادی ضروریات اور مسائل سے نکل کر پر سکون طریقے سے زندگی بسر کرسکے۔
    جہاں انسان کی مادی ضروریات کا پورا ہونا اس کی بقا و ترقی کےلیے نہایت ضروری ہے وہیں اس کی روحانی ضروریات کا مکمل ہونا بھی اس کی روحانی ترقی کےلیے نہایت ضروری ہے اور ان دونوں کی بیک وقت ترقی اس کی خوشحالی کا ضامن ہے۔انسان روحانی طور پر پرسکون تبھی رہ سکتا ہے جب وہ مادی طور پر پرسکون ہو مثلاٙٙ ایک بھوکا،بیمار،مختلف مسائل کا شکار انسان جسمانی اور روحانی طور پر پریشان رہتا ہے۔

    انسان روحانی طور پر پرسکون رہنے کے لیے اپنے خالق سے نسبت جوڑتا ہے۔دیگر مسائل و پریشانی میں مبتلا انسانوں کی مدد کرنے سے روحانی تسکین حاصل کرتا ہے۔ اپنے اخلاق کو اعلی بنانے کی جستجو میں لگا رہتا ہے تاکہ لوگ اس سے محبت و شفقت والا معاملہ رکھیں۔دوسرے انسانوں کےحقوق کی ادائیگی سے اپنے ضمیر کو مطمئن پاتا ہے۔یہ ساری چیزیں فطری طور پر ہر انسان کے اندر اللہ پاک کی طرف سے ودیعت کی  گئیں ہیں مگر معاشی اورمعاشرتی نظام کی خرابی کی وجہ سے انسان ان فطری خصوصیات کا معاشرے میں اظہار کرنے سے قاصر ہے۔ معاشرے میں انسانی زندگی سے وابستہ بہت سے شعبے ہیں جن سے دلچسپی اور وابستگی کے نتیجے میں معاشرہ اجتماعی طور پر ترقی کرتا ہے۔ان شعبوں کی دو اقسام ہیں پیداواری شعبے اورغیر پیداواری شعبے۔ ہر شعبے میں اعتدال کا ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ انسانی زندگی اعتدال میں رہتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرے۔ جہاں انسانی  زندگی سے اعتدال ختم ہوجاتا ہے وہاں انسانی سماج  ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسانی عقل بلند و بالا سوچ رکھنے کے بجائے پست ذہنیت کی وجہ سے معمولی چیزوں کو اپنا مقصد و شعار بنالیتی ہے اور پھر اجتماعی سوچ کی جگہ انفرادی سوچ تک محدود ہوجاتی ہے اور اس کی اساس پر معاشرے میں موجود دیگراہم شعبوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہے آج ہمارے ملک میں معاشرتی نظام کی خرابی کے اثرات نے جہاں انسانی زندگی کے ہر شعبے کو تباہی و بربادی کی جانب دھکیلا ہے وہیں اس نے فکری طور پر نوجوان نسل کو بھی نہیں بخشا۔ آج وطن عزیز میں نوجوانوں کی اکثریت سماج کی تعمیر و تشکیل میں کردار ادا کرنے کے بجائے غیر پیداواری شعبوں میں سرگرم نظر آتی ہے مثلاً موسیقی کو اپنا لائف اسٹائل سمجھتی ہے یعنی زندگی کا مقصد موسیقی کو ہی قرار دیتی ہے۔سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک اور دیگر ایسی اپلیکیشن ہیں جو روز بروز نوجوانوں کو خیالات کی دنیا میں رہنے کا ترغیب دے رہی ہیں۔یہی حالت دیگر میڈیا و انٹرٹینمنٹ شعبوں کی بھی ہے۔ جس میں آج کا نوجوان اپنا پورا وقت گزارتا ہے اور اس کےلیے دیگر سماجی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے
    اس طر ح سے لاشعوری طور پر ایسے افراد کی سماج میں تعداد بڑھتی جارہی ہےجو کہ زندگی کے دیگر شعبوں میں حصہ لینے سے کنارہ کشی اختیار کرتے جارہے ہیں جبکہ  زندگی کے دیگر شعبوں میں حصہ لینا نہ صرف خودانسان بلکہ سماج کی بھی ترقی ہے۔ معاشرے میں موجود اداروں کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ غیر پیداواری شعبوں پر کنٹرول رکھےتاکہ پیداواری شعبےمتأثر نہ ہو سکیں۔ معاشرتی نظام کی خرابی کے اثرات نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی اصل روح کو ختم کر دیا ہے آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی تباہی و بربادی کے اسباب کو نہ صرف سمجھیں بلکہ اپنے آنے والی نسلوں کےلیے ایک ایسی راہ ہموار کریں جس پر چل کر وہ قوم کا اثاثہ بنیں اور اپنی قومی ذمہ داریوں کو سمجھے تاکہ سماج میں موجود تمام شعبے اپنے اصل نتائج دےکر سماج کو ترقی کی جانب لےکر جائیں اور انسانی زندگی بھی اعتدال میں رہتے ہوئے عدل و انصاف سے مادی اور روحانی دونوں طرح سے ترقی کرے۔
    Share via Whatsapp