ملکی وسائل اور اس کی تقسیم کے اثرات
انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پوری تاریخ اپنے ادوار میں دو طرح کے نظام کو بتلاتی ہے یعنی صحیح معاشرتی نظام اور خراب معاشرتی نظام
ملکی وسائل اور اس کی تقسیم کے اثرات
تحریر: شیر افضل خان،کراچی
اللہ پاک نے اس کائنات میں اپنی تخلیق کے نمایاں آیات و نشانات رکھے ہیں اور اس کائنات کی معلوم اشیاء کے ذرے ذرے سے لےکر بڑے سے بڑے سیاروں و ستاروں تک میں اللہ پاک کی تخلیق کے شاہکار نظر آتے ہیں اور ہر ذرے کوایک خاص شکل وصورت اور خواص سے بھرپور بنایا ہے
اور ان سب سے بڑھ کر کہیں زیادہ خوبصورت تخلیق اللہ پاک کی یہ حضرت انسان ہے جسے اس نے خوبصورت سانچے میں ڈھالا اور اسے احسن تقویم قرار دیا کہ یہ اپنی ذات میں پوری کائنات کی مثال ہے اور ساتھ ہی اسے عقل جیسی نعمت عطا کر کے اپنی تمام مخلوقات میں سب سے افضل واشرف قرار دے دیا اور پوری کائنات اس کےلیے مسخر کردی تاکہ بنی نوع انسان اس سے مکمل فائدہ اٹھائے اور ترقی کی منازل طے کرے اور اپنے پروردگار کی ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کرے۔
اللہ پاک کی اس کائنات میں پیدا کردہ جتنے بھی ظاہر و پوشیدہ وسائل موجود ہیں یہ تمام اس نے اپنی مخلوقات کےلیے وافر مقدار میں پیدا فرمائے ہیں تاکہ وہ ان وسائل سے فائدہ اٹھاسکے ان کی اصلی شکل میں یا ان میں اپنی ضرورت کے مطابق نئی افادیت پیدا کرکے اور بنی نوع انسان کو تمام مخلوقات میں سب سے افضل قرار دے کر اسے اپنا نائب بنایا اور اسے کچھ اختیارات عطا فرمائے تا کہ وہ اللہ پاک کی تخلیق کردہ اس کائنات میں عدل و انصاف کو قائم رکھتے ہوئے وسائل کی منصفانہ تقسیم کرے تاکہ اس کی کائنات میں موجود مخلوقات میں سے نہ صرف انسان بلکہ دیگر حیوانات و نباتات، چرند و پرند بھی اپنی حیات کو قائم رکھ سکیں۔ اللہ پاک کے یہ وسائل اس کی تمام مخلوقات کےلیے ہیں مگر بد قسمتی سے ان وسائل پر آج کے دور میں ایک مخصوص طبقے نے قبضہ کر کے باقی تمام انسانوں کو ان وسائل سے محروم کر دیا اور دیگر مخلوقات پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پوری تاریخ اپنے ادوار میں دو طرح کے نظام کی موجودگی کو بتلاتی ہے یعنیصحیح معاشرتی نظام اور خراب معاشرتی نظام، تاریخ میں جہاں معاشرتی نظام انسان دوست درست اصولوں اور ضابطوں پر استوار رہا وہاں سماج میں امن،خوشحالی،تعلیمی ترقی،اخلاقی ترقی،سماجی مساوات وغیرہ جیسی قابل قدر اقدار موجود رہیںالغرض وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بدولت معاشرے میں موجود تمام انسان ہر لحاظ سے خوشحال تھے اور اسی درست معاشرتی نظام کی وجہ سے وہاں کی دیگر مخلوقات،حیوانات کو بھی ان وسائل سے ان کی زندگی کا حصہ ملا جس کی مثال تاریخ میں ملتی ہے کہ خلافت راشدہ سے لےکر مغل سلطنت کے دور عروج تک سواری ومال برداری کے جانوروں کے حقوق بھی متعین تھے جس کی خلاف ورزی پر اداروں کی جانب سے احتساب کا نظام موجود تھا۔ تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ جن معاشروں میں معاشرتی نظام گروہی بنیادوں پر استوار تھا اور اس کے حاصل نتائج کسی خاص طبقے کو فائدہ دیتے تھے ان معاشروں میں انسان اپنی بنیادی ضروریات سے بھی محروم تھے،معاشی بھوک،خوف،لڑائی جھگڑوں نے نئی نسل کو بھی زندگی کے معنی یہی سمجھائے کہ مسائل میں جھگڑوں کا قائم رہنا اصل زندگی ہے یعنی انسانی ترقی کی راہ میں کتنی قسم کی رکاوٹیں ڈالی گئیں اس قسم کے خراب اور فرسودہ سماج و معاشرتی نظام کے ذریعےسے کچھ علاقوں میں انسانی تاریخ کی صدیاں انہی مصائب و آلام میں گزر گئیں ورنہ شاید آج انسان کسی اور مقام پہ کھڑا ہوتا۔ آج تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہاں وسائل کی منصفانہ تقسیم کا کوئی مؤثر نظام موجود نہ ہو وہاں تمام انسانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مخلوقات کی زندگیوں میں بھی بربادی و تباہی کے اثرات نظر آتے ہیں ایسی سوسائٹی میں انسانوں کی عقلوں پر بھی پردے پڑ جایا کرتے ہیں وسائل کی موجودگی کے باوجود محروم رہتے ہیں گویا پیاسا دریا کے کنارے مرجائے اور پانی سے پیاس نہ بجھاسکے . زندہ اور باشعور قومیں اپنے وسائل پر کڑی نظر رکھتے ہوئے اس کا درست استعمال کرتی ہے اور اپنے سماج کو خوشحال بناتی ہے جس کے اثرات اس سماج کے تمام انسانوں اور جانوروں پر پڑتےہیں۔
آج ضرورت ہے ایسی فکرکی جو ہمارے معاشرے کی تمام برائیوں کو ختم کر کے ہمارے مسائل کو حل کرسکے اور یہاں کی انسانیت اپنی محرومیوں اور کسمپرسی کی زندگی سے آزادی حاصل کرکے اپنی زندگی اور وسائل کے حوالہ سے مدبرانہ پالیسیاں تشکیل دے اور اھل قیادت اور سوشل قوت تربیتی مراحل طے کر کے عروج و بلندیوں تک پہنچ سکے اور بالخصوص ایشیا و افریقہ کی مظلوم قوموں اور بالعموم دنیا کی تمام اقوام کی نظروں میں وطن عزیز ایک رول ماڈل کے طور پر ابھرے۔ آمین