وسائل سے مالا مال خطہ اور عوام الناس کی حالت زار
وطن عزیز میں وسائل تو بے انتہا ہیں مگر ان پرقابض ایک خاص طبقہ ہی چلاآ رہا ہے ۔ عوام کی مثال تو ہاتھ میں کشکول لیے بھکاری کی مانند ہے۔
وسائل سے مالا مال خطہ اور عوام الناس کی حالت زار
تحریر : شیرافضل خان،کراچی
آبادی کے اعتبار سے پاکستان براعظم ایشیا کا تیسرا بڑا ملک ہے ۔ وطن عزیزپاکستان کا وسیع و عریض جغرافیہ پہاڑ، صحرا، دریا اور سمندر پر مشتمل ہے۔جو اپنی زرخیز زمین کے سبب آمدنی کا زیادہ تر انحصار زرعی اجناس کی برآمدات سے حاصل کرتا ہے۔ پاکستان کے چاول،کپاس،گندم اور آم پوری دنیا میں خاصے مشہور ہیں۔ مغل دور حکومت کی معاشی ترقی نے اس خطے کو پوری دنیا میں سونے کی چڑیا کے نام سے مشہور کیا ۔ پوری دنیا سے لوگ یہاں تجارت اور تعلیم، فنون لطیفہ، ادب، دستکاری وغیرہ سیکھنے کی غرض سے یہاں آتے تھے اور یہیں اپنا بسیرہ ڈال دیتے تھے۔ یہاں کی حکومتی مشینری نے اس ملک کے تمام تر وسائل کو عوام پر خرچ کرنے کے مختلف طریقے، پالیسیاں اور پروگرامز ترتیب دیے تھے اور یہی وجہ اس خطے کی ترقی کا باعث بنتی رہی۔
1757 کے بعد ہندوستان بتدریج انگریز کی غلامی میں چلا گیا اور اس کا معاشی و سیاسی ڈھانچہ انگریز کی انسانیت دشمن پالیسی کی نذر ہوگیا ۔یوں آہستہ آہستہ یہ خطہ انگریز کی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے بدترین حالت کوپہنچ گیا ۔معاشی افلاس، سیاسی انارکی،مذہبی و لسانی بنیادوں پر گروہیتیں اور تقسیم نے اس سلطنت کی شہرت خاک میں ملادی اور اسے عروج سے زوال کی صف میں لا کھڑا کیا۔ ہندوستان میں بسنے والے آزادی و حریت کے جانبازوں نے اس ظالم بدیشی قوت کے خلاف اعلان جہاد کیا اور بالآخر 1947 میں اس خطے کوا نگریز سے نجات ملی لیکن انگریز جاتے ہوئے اس خطے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر کے ایک حصے کو انڈیا اور دوسرے کو پاکستان کا نام دےکر روانہ ہوا۔ جمہور کی تمنا یہ تھی کہ اتنا عرصہ غلامی اور قربانیوں کے بعد اب ہمیں حقیقی آزادی نصیب ہو۔
1947 ءکے بعد سے اس ملک میں کبھی جمہوریت آئی تو کبھی آمریت۔ مگر بد قسمتی سے ان 72 سالوں میں کسی حکومتی مشینری نے اس بےچاری عوام کا درد سمجھا نہ ان کو معاشی خوشحالی دی اور نہ سماجی امن دیا۔
وطن عزیز میں وسائل تو بے انتہا ہیں مگر ان پرقابض ایک خاص طبقہ ہی چلاآ رہا ہے ۔ عوام کی مثال تو ہاتھ میں کشکول لیے بھکاری کی مانند ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں قومی آمدنی کا بیشتر حصہ عوامی فلاح و بہبود پر لگایاجاتا ہے ۔ تیسری دنیا کے ممالک میں عوام کے حقوق دینا تو دور کی بات ، ان پر ٹیکسز کا بوجھ اتنا لاددیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مسائل میں ہی الجھے زندگی گزار دیتے ہیں۔
فرسودہ معاشی و سیاسی نظام کےاثرات جہاں انسانوں کے لیے تنگی،بھوک اور افلاس کا باعث بنتے ہیں وہیں انسانوں کی روحانی،نفسیاتی اور جسمانی بیماری و بربادی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ایسے میں وطن عزیز کے انسانی زندگی کے ایک شعبہ صحت کا ہی جائزہ لیں تو صحت کے اداروں میں مرض کی تشخیص درست بنیادوں پر کرنے کا عمل انتہائی پیچیدہ ہے۔ کسی مریض کوسرکاری یا نجی ہسپتال لے جایا جائے تو پہلے مرحلے میں میڈیکل ٹیسٹ لیے جاتے ہیں ۔جس کے لیے عموما مریض کو کسی دوسری جگہ پر قائم لیبارٹری بھیجا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض ٹیسٹوں پر علاج سے بھی زیادہ خرچ آجاتا ہے ۔ مرض کی تشخیص کےبعد علاج کےلیے مریض کومتعلقہ شعبہ میں منتقل کیا جاتا ہے ۔جہاں اس کا علاج شروع ہوتا ہے۔اگر کوئی ایسا مریض ہے جو مختلف امراض کا شکار ہے، پھر تو اسے مختلف ہسپتالوں میں لے کر بھی گھومنا پڑسکتا ہے۔ مریض کے ساتھ وابستہ عزیز و اقارب بھی اتنے ہی کرب سے گزرتے ہیں جتنا کہ مریض۔یہاں ایسی کوئی حکمت عملی نہیں کہ امراض میں بے تحاشااضافہ کی وجہ کو جانا جائے۔
مہنگائی کے اس دور میں گھر کا ایک فرد یعنی مریض پیشہ وارانہ امور سر انجام دینے سے قاصر ہے، اگر وہ شادی شدہ ہے تو اس کے بیوی بچوں کا خرچ بھی اس کے ذمے ہے ۔اس مرض کے سبب آمدنی کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا اور خرچ بھی بڑھ گیا۔ یعنی علاج کے خرچ کے ساتھ اس کے بیوی بچوں کا خرچ اس کی جمع پونجی کا خاتمہ کردیتا ہے ۔ایسا مریض اپنے پورے خاندان پر مالی بوجھ سے کم نہیں ہوتا۔علاج کی جدید سہولیات تو دور کی بات ، یہاں سستی ادویات اور تشخیص بھی ممکن نہیں۔ایسے میں وہ خاندان جو غربت سے نچلے درجے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، وقت گزرنے کے ساتھ ایسے مریض کو بوجھ تصور کرنے لگتے ہیں۔وہ مریض خو د بھی اللہ پاک کی ذات سے دعا گو ہوتا ہے کہ وہ اسےاس دنیا سے ہی اٹھا لے تا کہ باقی لوگوں کی زندگی میں سکون آجائے۔یہ تو صرف ایک شعبہ کی بات ہے دیگر شعبوں کی حالت زار بھی اس سے کم نہیں ۔ قومی نظام اور قومی معیشت سنوارنے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ عام انسانوں کی زندگی میں تبدیلیاں آئیں۔انہیں بنیادی حقوق میسر آئیں۔ ان کی زندگی میں سہولتیں پیدا ہوں ۔درست سیاسی و معاشی نظام میں یہ حقوق اور سہولت انہیں بھیک کی صورت میں نہیں بلکہ ان کا حق سمجھ کر ان تک پہنچائے جاتے ہیں ۔ کسی ملک کے وسائل کے اصل مالک اس خطہ کے تمام لوگ ہی ہوتے ہیں نہ کہ چند اشخاص یا چند خاندان۔