جمال عبدالناصر: ایک انقلابی راہ نما کی داستان - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • جمال عبدالناصر: ایک انقلابی راہ نما کی داستان

    "اگر سمندر کی تہہ میں بھی دو مچھلیاں برسرپیکار ہیں تو اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہوگا۔" اس قول میں جمال عبدالناصر کی یہ واضح فکر ظاہر ہوتی ہے کہ وہ ..

    By Asghar Surani Published on Nov 15, 2024 Views 292

    جمال عبدالناصر: ایک انقلابی راہ نما کی داستان

    تحریر: محمد اصغر خان سورانی۔ بنوں

     

    جمال عبدالناصر، مصر کے ایک عظیم راہ نما نے اپنی زندگی میں نہ صرف اپنے ملک، بلکہ پورے عرب دنیا کے لیے ایک نئی امید اور عزم کا پیغام دیا۔ 15 جنوری 1918 کو پیدا ہونے والے ناصر نے اپنی ابتدائی تعلیم قاہرہ میں حاصل کی، جہاں وہ سیاست میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کے درمیان فعال ہوئے۔   جمال عبدالناصر نے اپنی جوانی میں ہی سامراج کے خلاف مزاحمتی سوچ اپنا لی تھی اور اپنے ملک مصر کو سامراجی قوتوں کے تسلط سے آزاد کرانے کی مہم کا آغاز کیا۔ اس ضمن میں ان کی قیادت نے نہ صرف مصر بلکہ پورے عرب خطے کو سامراج کے خلاف متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔   1952ء میں، جب انھوں نے فوجی انقلاب کے ذریعے مصری بادشاہت کا خاتمہ کیا، تو وہ عرب قوم پرستی کے علمبردار کے طور پر ابھرے۔ اپ نے اپنی زندگی میں جو سیاسی کارنامے سر انجام دیے، وہ آج بھی ان کے نام کو زندہ رکھتے ہیں۔

    نہر سویز کی قومی تحویل

    جمال عبدالناصر کی قیادت کا سب سے اہم واقعہ نہر سویز کی قومی تحویل تھا۔ 1956 میں، آپ نے اس اہم آبی گزرگاہ کو برطانوی اور فرانسیسی تسلط سے آزاد کرانے کا فیصلہ کیا، جو کہ اس وقت یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارتی شاہراہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ نہر سویز کی قومی تحویل نہ صرف ایک معاشی بلکہ ایک سیاسی قدم بھی تھا، جس نے جمال عبدلناصر کو عرب دنیا میں ایک ہیرو کے طور پر ممتاز کیا۔ اس واقعے کے بعد برطانیہ، فرانس، اور اسرائیل نے مصر پر حملہ کیا، جسے "سویز بحران" کہا جاتا ہے۔ لیکن عالمی دباؤ اور خاص طور پر سوویت یونین اور امریکہ کی مخالفت کے باعث، یہ ممالک پسپا ہوئے اور نہر سویز کو مصر کے کنٹرول میں رہنے دیا گیا۔ یہ کامیابی جمال عبدالناصر کی سامراج مخالف حکمت عملی کا روشن ثبوت تھی۔

    اس کے علاوہ جمال عبدالناصر کے دور حکومت میں کئی اہم اصلاحات کی گئیں جو نہ صرف مصر بلکہ پوری عرب دنیا میں اثر انداز ہوئیں۔ ان کی قیادت میں متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے، جو عوام کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلیاں لائے۔

    •         زمین کی اصلاحات: ناصر نے بڑے زمینداروں کی زمینیں تقسیم کرکے غریب کسانوں میں تقسیم کیں۔ اس کے ذریعے انہوں نے معاشرتی انصاف کی بنیاد رکھی اور کسانوں کو اپنی محنت کا پھل دینے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کی زراعت میں اضافہ ہوا اور کسانوں کی زندگیوں میں بہتری آئی۔

    •         تعلیم کی بہتری: ناصر نے تعلیم کو عام کرنے کے لیے کئی منصوبے شروع کیے، جس کے تحت تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور تعلیم کی معیاری سطح بلند کی گئی۔ ان کے دور میں خواندگی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا۔ انہوں نے طلباء کے لیے اسکالرشپ اور مالی مدد فراہم کی تاکہ ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے۔

    •         صحت کے نظام میں بہتری: انہوں نے صحت کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے، جیسے ہسپتالوں کی تعمیر اور بنیادی صحت کی سہولیات کی فراہمی، جس نے عوام کی صحت کی حالت میں بہتری لائی۔ ناصر کے دور میں صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کو عام کرنے کی کوششیں کی گئیں، جس سے عوام کو بہتر طبی سہولیات میسر آئیں۔

    •         اسوان ڈیم کی تعمیر: اس منصوبے نے مصر کی زراعت اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ڈیم نے نہ صرف مصر کے پانی کے وسائل کو محفوظ کیا بلکہ توانائی کی پیداوار میں بھی اضافہ کیا۔ اس منصوبے نے مصر کی معیشت کو مضبوط کرنے میں مدد فراہم کی اور ملک کے کسانوں کے لیے پانی کی دستیابی کو یقینی بنایا۔

    جمال عبدالناصر کی حکمت عملی میں ایک نمایاں پہلو ان کی سامراج مخالف سوچ تھی۔ انہوں نے امریکہ اور مغربی طاقتوں کی مداخلت کے خلاف آواز اٹھائی۔ ناصر نے جو مزاحمتی سوچ اپنائی، وہ نہ صرف اپنے ملک کے مفادات کے تحفظ کے لیے تھی بلکہ پوری عرب قوم کی آزادی اور خود مختاری کی جدوجہد کے لیے بھی تھی۔ ان کا یہ قول مشہور ہے کہ:"اگر سمندر کی تہہ میں بھی دو مچھلیاں برسرپیکار ہیں تو اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہوگا۔" اس قول میں جمال عبدالناصر کی یہ واضح فکر ظاہر ہوتی ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر سامراجی طاقتوں کی مداخلت کو کس طرح سمجھتے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اکثر مسائل کی جڑیں بیرونی قوتوں کی مداخلت میں ہیں، اور انہوں نے عرب قوم کی خود مختاری کے لیے جدوجہد کرنے کا عزم کیا۔

    جمال عبدالناصر نے غیر وابستگی کی تحریک کو فروغ دیا، جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کو مغربی طاقتوں کی چالوں سے آزاد کرانا تھا۔ اس کی مثال 1955 میں باندوگ کانفرنس  (Bandung Conference (Asian-African Conference)میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں انہوں نے بھارت، یوگوسلاویہ، اور دیگر ممالک کے رہنماوں کے ساتھ مل کر ایک نئی عالمی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا۔ یہ کانفرنس ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کرنے کی کوشش تھی تاکہ وہ عالمی مسائل پر اپنی آواز اٹھا سکیں۔

    جمال عبدالناصر کے کئی اقوال ان کی سامراج مخالف سوچ کی عکاسی کرتے ہیں:

    •         "ہم کسی کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم اپنی آزادی کے لیے لڑیں گے!"

    •         "یہ صرف ہماری سرزمین ہے جس کا ہم دفاع کریں گے، اور ہمیں کسی سے اجازت کی ضرورت نہیں۔"

    •         "آزادی کی راہ میں قدم اٹھانے والوں کو کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔"

    جمال عبدالناصر کی جدوجہد صرف سیاسی نہیں تھی، بلکہ انہوں نے اپنے لوگوں کی معاشی و ثقافتی بہتری کے لیے بھی کام کیا۔ انہوں نےتعلیم کو عام کیا۔ نوجوانوں کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی تحریک دی۔ ان کے دور میں ادب، اور فنون لطیفہ کو بھی فروغ ملا، جس نے مصری ثقافت کو ایک نئی شناخت دی۔ جمال عبدالناصر نے ثقافتی پروگرامز کا آغاز کیا اور فنکاروں کو سپورٹ کیا، جس سے ایک بھرپور ثقافتی ماحول قائم ہوا۔انہوں نے طبقاتی فرق کو کم کرنے کے لیے مختلف منصوبے شروع کیے، تاکہ ہر فرد کو ایک بہتر زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔ ان کی حکومت نے مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے قوانین بنائے، جس سے عام آدمی کے حالات زندگی میں بہتری آئی۔

    جمال عبدالناصر کی قیادت میں 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے عوام کو حوصلہ دیا اور یقین دلایا کہ وہ اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ان کی وفات 1970 میں ہوئی، مگر ان کا نظریہ اور کارنامے آج بھی عرب نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔

    جمال عبدالناصر جیسے لیڈرز سے سیکھنے کے اسباق

    1.       عزم اور ہمت: جمال عبدالناصر نے ثابت کیا کہ عزم و ہمت کے ساتھ ہر چیلنج کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں بھی اپنی منزل کے حصول کے لیے ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔

    2.       قومی مفادات: جمال عبدالناصر نے ہمیشہ قومی مفادات کو اولین ترجیح دی۔ ہمیں بھی اپنے ملک اور قوم کے مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔

    3.       تعلیم کی اہمیت: جمال عبدالناصر نے تعلیم پر خاص زور دیا، جو کہ ہر قوم کی ترقی کے لیے لازمی ہے۔ ہمیں بھی تعلیم کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور اسے فروغ دینا چاہیے۔

    4.       اجتماعی اتحاد: جمال عبدالناصر نے عرب ممالک کو ایک مضبوط اتحاد میں باندھنے کی کوشش کی۔ ہمیں بھی اپنے معاشرتی مسائل کے حل کے لیے اتحاد کی ضرورت ہے۔

    5.       سماجی انصاف: انہوں نے سماجی انصاف کو فروغ دیا۔ ہمیں بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہر فرد کو برابری کے حقوق ملیں اور طبقاتی فرق کو ختم کیا جائے۔

    جمال عبدالناصر کی شخصیت اور ان کی سیاسی جدوجہد سے نہ صرف مصر بلکہ پورے عرب خطے میں ایک نئی روشنی پھوٹی۔ ان کی سامراج مخالف حکمت عملی اور عوامی خدمات کی سوچ نے انہیں ایک عظیم رہنما کی حیثیت دی۔ نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ جمال عبدالناصر کی جدوجہد اور ان کے کارناموں سے سبق حاصل کریں، تاکہ وہ بھی اپنے ملک اور قوم کی بہتری کے لیے عزم و ہمت کے ساتھ کام کر سکیں۔ ان کی زندگی سے ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اپنی قوم کے لیے دل سے کام کریں تو ہم ہر مشکل کو شکست دے سکتے ہیں۔

    جمال عبدالناصر کی سیاسی سوچ اور کارنامے نہ صرف اپنے وقت میں متاثر کن تھے بلکہ آج بھی عرب دنیا کے سیاسی منظر نامے پر ان کا اثر محسوس ہوتا ہے۔ ان کی قیادت نے نہ صرف عرب قومیت کو بیدار کیا بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک نیا رخ متعارف کرایا۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں کئی عرب ممالک نے اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی، اور انہوں نے ایک نئی نسل کو تحریک دی جو کہ اپنی آزادی اور خود مختاری کے لیے لڑ رہی تھی۔

    جمال عبدالناصر کی شخصیت کو سمجھنے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی قوم کے مسائل کو سمجھیں اور ان کے حل کے لیے آگے آئیں۔ ان کی زندگی اور جدوجہد ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو کوئی بھی چیلنج ناقابل برداشت نہیں ہوتا۔ ان کی میراث آج بھی زندہ ہے، اور ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی کہانی کو نہ صرف یاد رکھیں بلکہ اس سے سیکھیں اور آگے بڑھیں۔

    Share via Whatsapp