ماہ ربیع الاول اور سیرتِ النبی کے اجتماعی مطالعہ کی اہمیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ماہ ربیع الاول اور سیرتِ النبی کے اجتماعی مطالعہ کی اہمیت

    اس تحریر میں سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتماعی کردار کے تناظر میں بنیادی نکات پر بات کی گئی ہے

    By جنید احمد شاہ Published on Oct 11, 2022 Views 1098
    ماہ ربیع الاول اور سیرتِ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتماعی مطالعہ کی اہمیت 
    جنید احمد شاہ ایڈووکیٹ (راولپنڈی) 

    تاریخ اسلام کا ایک ادنیٰ سا طالب علم بھی اس بات سے واقف ہے کہ آپﷺکو چالیس سال کی عمر میں جب منصب نبوت پر فائز کیا گیا تو آپﷺ نے اس کے بعد 13 سالہ مکی زندگی گزاری، یعنی آپﷺاپنی عمر مبارک کے 53 سال تک مکہ مکرمہ میں رہے اور ان 13 سالوں میں تفصیلی عبادت فرض نہیں ہوئیں، صرف پانچ نمازیں مکی زندگی کے آخری سالوں میں معراج پر فرض ہوئیں۔  اور نہ ہی فریضۂ جہاد کا عملی حکم آیا۔ اور نہ ہی حرمت شراب کے بارے میں رہنمائی دی گئی اور نہ ہی دیگر سماجی ، معاشی تفصیلی احکامات نازل ہوئے۔
     اس پورے عرصے میں آپﷺنے اپنے بنیادی اصحاب کو یہ بات سمجھائی کہ جزیرة العرب کا سیاسی و معاشی ،قانونی و سماجی نظام ظلم پر قائم ہے اور طبقاتی تقسیم کا حامل ہے، جس کی وَجہ سے عوام کی کثیرتعداد غربت ،مہنگائی ،بیروزگاری اور جہالت کا شکار ہے۔ابوجہل ، ابولہب، عتبہ اور شیبہ جیسے ظالم سردارانِ مکہ نے اس نظام کو استحصال کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور جب تک یہ نظام ختم نہیں کیا جائے گا اور اس کے مقابلے میں عادلانہ اصولوں پر اداروں کی صحیح تشکیل و تعمیر نہیں کی جائے گی، اس وقت تک نہ تو افراد کی اِنفرادی اِصلاح ہوسکتی ہے اور نہ ہی ان کو خدا کی بندگی کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ جب تک کسی انسان کے مادی و جسمانی تقاضوں کی تکمیل اور ان کا بندوبست نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ان کی روحانیت بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ 
    اس منزل کے حصول کے لیے نوجوانوں کی ایک باشعور،منظم اور تربیت یافتہ جماعت ضروری ہے۔

    آپﷺ نے اس بنیادی اصول پر مکی زندگی میں سرزمین حرم مکہ کے باصلاحیت نوجوانوں پر مشتمل ایک جماعت قائم فرمائی، جس میں چاروں خلفائے راشدین اور عشرہ مبشرہ اصحابِ رسولﷺ کے علاوہ ایک قلیل جماعت 13 سال میں تیار ہوئی، جن کی تعداد سو کے قریب تھی ، جو جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شکل میں سامنے آتی ہے اور وہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نوجوان تھے اور نبی اکرم ﷺکی تربیت اور رہنمائی کے نتیجے میں مکہ کے ظالمانہ نظام کو سمجھ چکے تھے اور اس کے مقابلے پر ایک منظم اور صحیح نظام قائم کرنے کی تفصیلات سے بھی آگاہ ہوچکے تھے۔آپﷺ کی مکی زندگی کا ایک اوراہم اور بنیادی اصول"عدم تشدد" پر پابند رہ کر اپنے نظریہ کی دعوت کو آگے بڑھانا تھا اور مشرکینِ مکہ کے ہر طرح کے ظلم و بربریت ، سازشوں اور پابندیوں کو برداشت کرتے ہوئے اپنی اجتماعی تحریک کو آگے بڑھانا تھا۔یہی وَجہ ہے کہ مکی زندگی میں جماعت رسول کی طرف سے کوئی جنگ و جدل اور غزوہ نظر نہیں آتا، بلکہ کفار مکہ کی سختیوں کی ایک طویل داستان تاریخی کتب کا حصہ ہے۔ 
    یہ تھا غلبہ دینِ حق کا وہ بنیادی طریقہ کار جو آپﷺ نے اختیار فرمایا۔

    اس ضمن میں ایک اور پہلو کی تفصیل بھی بڑی بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور وہ یہ ہے کہ مکی دور میں آپ ﷺکبھی بھی ابوجہل کے نظام کا باقاعدہ حصہ دار نہیں بنے۔
    آپ ﷺکو نظام ابوجہل نے باقاعدہ طور پر تین چیزوں کی آفر دی تھی جو کہ مندرجہ ذیل ہے۔ 
    1۔ اگر آپ ﷺسردار ( صدر، وزیراعظم) بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو یہ منصب دینے کے لیے تیار ہیں۔
    2۔ اگر آپﷺ کو مال دولت ( وزارتِ خزانہ) چاہیے تو اس پر بھی ہم رضامند ہیں۔
    3۔ اگر آپ کسی خوب صورت ترین خاتون سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو اس خواہش کی تکمیل کا پورا بندوبست بھی ہم کر دیتے ہیں۔
    آپﷺ نے ان تینوں شرائط کو مسترد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ " اگر تم میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند  بھی رکھ دو تب بھی میں تمھارے نظام کا حصہ بن کر اپنے مشن کو آگے نہیں بڑھا سکتا " ۔یعنی ظالمانہ نظام کا شعوری طور پر حصہ بننا ایک طرح کا تعاون ہے۔  

    اس کی بنیادی وَجہ یہ تھی کہ اگر آپ ﷺبغیر اپنی تیار کردہ جماعت کے کوئی عہدہ قبول بھی فرما لیتے تو پرانے نظام کی بیوروکریسی جو ابوجہل کی تربیت یافتہ تھی ، کبھی بھی آپﷺ کو اپنا پروگرام نافذ کرنے کا موقع نہ دیتی اور راستے میں روڑے اٹکاتی اور فیل کرنے کی کوشش کرتے۔چوں کہ آپ نے قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے اُسوہ حسنہ قائم کرنا تھا۔ اس لیے آپﷺ نے انفرادی حیثیت میں ابوجہل کے نظام کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور مکمل توجہ جماعت سازی پر دی اور اسی جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آگے چل کر ریاست مدینہ کی بنیاد صحیح اصولوں پر قائم کی۔ 

    سیرت النبی ﷺکے "اجتماعی مطالعہ" کے دوران ایک اَور پہلو پر بھی ہماری ہمیشہ توجہ رہنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ آپﷺ کی آمد کا اصل مقصد تو بین الاقوامی نظام حکومت کا قیام تھا، جس کی تکمیل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اس وقت ہوئی، جب قیصر و کسریٰ کی بین الاقوامی حکومتوں کا خاتمہ ہوگیا۔ لیکن آپﷺنے اس منزل کے حصول کے لیے "تصور قومیت" کو عرب میں اصولی شکل دے کر سب سے پہلے عرب میں جماعت قائم فرمائی اور جزیرة العرب کو ان ظالمانہ اجارہ دار قوتوں سے آزادی دلائی۔حال آں کہ اس وقت پوری دنیا ظلم و انتشار کا شکار تھی لیکن آپﷺ نے اپنی مکی زندگی میں کوئی تبلیغی گروپ دنیا کے کسی اور خطے میں روانہ نہیں فرمایا۔جب تک ریاست مدینہ کی تشکیل نہیں ہوئی اور فتح مکہ کی منزل کی تکمیل نہیں ہوئی ، اس وقت تک آپﷺ نے ان قوموں میں انفرادی دعوت کا کوئی طریقہ کار اختیار نہیں فرمایا، بلکہ آپ کی تیار کردہ جماعت کے پوری دنیا میں یا تو ریاستی سفیر گئے ہیں یا پھر فوجی لشکر گئے ہیں، جنھوں نے غلبہ دین کی منزل کا حصول ممکن بنایا ۔
    اس لیے آپ ﷺکی سیرت کو سسٹم کے تناظر میں آج کے دور میں سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

    اسی وَجہ سے قرآن حکیم میں بعثت نبوی ﷺکے اصل مقصد کو اللہ تعالیٰ نے تین مختلف سورتوں میں بار بار دہرایا اور آپﷺ کی اس دنیا میں آمد کا اصل مقصد" غلبہ دین حق" سے تعبیر فرمایا۔

    ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
    هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ(سورہ فتح،۲۸) 
    "وہی (اللہ ) ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کردے اور اللہ گواہ کافی ہے"۔

    اس تربیت یافتہ جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو وہاں " ریاست مدینہ" کی بنیاد چار اصولوں پر قائم فرمائی ۔ 

    1۔  آزادی 2۔  عدل 3۔ امن و امان ( سیاسی نظام ) 4۔ معاشی مساوات ( معاشی نظام) 

    ان اصولوں کی تفصیلات" میثاق مدینہ" میں موجود ہیں اور پھر 10 سالہ مدنی زندگی میں آپﷺنے بہ طور حکمران اداروں کی تشکیل فرمائی ،سلسلہ غزوات شروع ہوا، نظام عبادات قائم فرمایا ۔نظام زراعت اور نظام تجارت کو مضبوط بنایا۔مساوات پر مشتمل عدالتی نظام جو ہر ایک فرد بشر کو بلاتفریق مذہب و نسل حقوق کا تحفظ فراہم کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہے،مختلف قبائل کے ساتھ برابری کی سطح پر بہ طور حکمران معاہدات کیے اور باہمی نفرتوں اور دشمنیوں کو ختم فرما کر امن و امان کو یقینی بنایا۔ 

     فتح مکہ کے ساتھ ہی قومی سطح پر جزیرة العرب پر دین اسلام کا عادلانہ نظام حکومت قائم ہوا۔ اور جب خطبۂ حجة الوداع دیا تو اصحاب رسول اللہ ﷺکی تعداد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار تک پہنچ چکی تھی جو مکی زندگی کے 13 سالوں میں صرف سو افراد کے قریب پہنچ پائی تھی ۔

    اس بات سے اندازہ لگائیے کہ نظام ظلم کا جبر کتنا خطرناک ہوتا ہے جو افراد کو دعوتِ حق کی قبولیت سے روکنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے اور جیسے ہی نظام باطل کی قائم کردہ وہ تمام رکاوٹیں ہٹتی ہیں۔ تو لوگ جوق در جوق دین فطرت یعنی اسلام کو قبول کرتے ہیں۔ جب کسی انسان کی مادی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے تو اس کے بعد وہ اپنی روحانی ترقی کی طرف متوجہ ہوتا ہے، وگرنہ ایک غلط نظام میں افراد اور معاشرے کبھی بھی زوال کی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکتے ، بلکہ اپنی طبعی و فطری صلاحیتوں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ 

    اللہ تعالیٰ ہمیں اتباع سنت نبویﷺ میں دور جدید کے پیدا کردہ قومی اور بین الاقوامی مسائل حل کرنے کی عقل و حکمت نصیب فرمائے۔ آمین!
    Share via Whatsapp