حضرت سندھیؒ اور محمد امین کھوسو ، میرے ذاتی تاثرات
حضرت سندھیؒ اور محمد امین کھوسو ، میرے ذاتی تاثرات
حضرت سندھیؒ اور محمد امین کھوسو ، میرے ذاتی تاثرات
تحریر؛ سعد اللہ مری بلوچ، سبی بلوچستان
بلوچستان کی سرزمین کی اگر چھان پھٹک کی جائے تو بلوچ کے ہر قبیلے میں بے شمار ایسے افراد ملیں گے، جنھوں نے انگریز سامراج کے خلاف اپنے تن من دھن کی بازی لڑی۔ انگریز کے ناروا سلوک اور اس پر فتوی دارالحرب اور حریت پسند علما کی تاریخی جدوجہد نے لوگوں کے دلوں پراس قدر گہرے نقوش چھوڑے کہ اس کے خلاف چلنے والی تحریک کا حصہ بننے کو ہرشخص باعث سعادت سمجھتا تھا۔
بلوچوں کے ان حریت پسند رہنماؤں میں سے ایک منفرد ہستی محمد امین کھوسو صاحب ہیں۔
اگر چہ وہ صوبہ سندھ ضلع جیکب آباد کے رہائشی تھے، تاہم ہر باشعور بلوچ اس کی عظیم خدمات کی بنا پر آج بھی ان سے والہانہ محبت رکھتا ہے۔
اپنے قوم قبیلے سے محبت ایک فطری امر بھی ہے۔ اس لیے بندہ ناچیز کی بھی امین کھوسہ صاحب سے بلوچ ہونے کے ناطے محبت تو ہے ہی،لیکن چند اور وجوہات کی بنا پر ان سے عشق دوچند ہوگیا۔اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو حسب نسب کی اشتراک سے محبت اتنی گہری نہیں ہوتی، جتنا نظریے کی محبت میں انسان کو فنا ہوتے دیکھاگیا۔ اس لیےحضرت بلال رضی اللہ عنہ نےنظریے کے لیے ہر تکلیف کو صبر و استقامت سے برداشت کیا اور عالم اسلام کےمحبوب قرار پائے۔
میں موصوف سے اس لیے بھی محبت رکھتا ہوں کہ ولی اللہی فکر کے مایہ ناز مجاہد شارح نظریات امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ، امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے جگری اور نظریاتی دوست تھے۔ ہردو بزگان دین اس لیے بھی میری پسندیدہ شخصیات میں سے ہیں کہ میرے اس دشمن کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے ہیں، جن کےخلاف میرے آباؤ اجداد اور قوم قبیلہ نے بھی تاریخ رقم کی ہے، جس سے میری مراد انگریز سامراج ہے۔ مولانا سندھیؒ ان سے پیار کی بنا پر انہیں خان کے لقب سے نواز تے تھے۔یقیناً اتنے بڑے اللہ والے کی کھوسہ صاحب سے دوستی اور خان کا لقب دینا صرف کھوسہ صاحب نہیں، بلکہ پورے بلوچ قوم کے لیے باعث اعزاز ہے۔
مولانا موصوف اور وہ بلوچ قبائل جو اس جماعتِ حقہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئےاور خاص کر ان کے وہ سردار اور رہنما جو اس حوالے سے اپنی قوم کو لیڈ کرتے رہے، نا قابلِ فراموش شخصیات ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم خود اور اپنی نسل نو کو ان مجاہدین اور شہدا کی تاریخ اور ان کے ناموں سے آگاہ کریں اور ان کی جائے معرکہ و شہادت میں جائیں اور ان کے چیذغ (جائے شہادت پر رکھے گئے پتھر تاکہ وہ جگہ یاد رہے) کو اتنا بلند کیا جائے کہ وہ دور سے مینار نظر آئیں۔ دراصل یہ پتھر کے نہیں، ہماری عظمت کے مینار ہیں۔
اس حوالے سے گزشتہ برس 2022ءکو بلوچستان کے ضلع کوہلو کے معتبرین اور وہاں کی انتظامیہ نےپہلی مرتبہ ہڑب کے مقام پر ان شہدا کی یاد میں تقریب منعقد کی اور ایک یادگار بورڈ بھی نصب کیا۔ جو قابل تعریف ہے۔جہاں گھوڑے پر سوار ایک مجاہد تلوار سونتے ہوے، ایک خوب صورت منظر پیش کررہا ہے۔ جب کہ چند اَور مقامات بھی اس طرح کی یاد کے منتظر ہیں خاص کر نفسک اور گمبد کے مقات سرفہرست ہیں۔
اسی طرح کئی بلوچ مصنفین نے بلوچ قوم میں بیداری اور سیاسی و سماجی پس ماندگی دور کرنے لیے قلم اُٹھایا تو انھیں سردار محمد امین کھوسو کا منفرد و مثالی کردار نظر آیا ۔ میرے دوست ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب بھی ان قلم کاروں میں شامل ہیں۔
جب وہ بیسویں صدی کے نمائندہ بلوچ افراد کا جائزہ لیتے ہیں تو میرے ممدوح جناب امین خان کھوسو سرفہرست ٹھہرتے ہیں ۔انھوں نے محمد امین کھوسہ اور امام انقلاب مولانا سندھیؒ کے کارناموں کا تذکرہ اپنی کتاب ’’محمد امین کھوسہ‘‘ میں بھی کیا ہے، جسے پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔
سردار محمد امین خان کھوسو مولانا عبیداللہ سندھیؒ سے والہانہ محبت رکھتے تھے ۔علی گڑھ سے واپسی پر جیکب آباد میں تشریف لائے۔1937ء میں کاشت کاروں اور محنت کشوں کی فلاح و بہبود اور اُن کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے بنائی گئی ’ہاری کمیٹی‘ کے صدر منتخب ہوئے۔1938ء میں سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔شہیداللہ بخش سومرو کی وزارتِ اعلیٰ کے زمانے میں حضرت سندھیؒ کو وطن واپس لانے کی کوششوں میں آپ کا بنیادی کردار تھا۔ حضرت سندھیؒ نے آپ کی کوششوں کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا۔
’’جب مجھے معلوم ہوا کہ حکومتِ سندھ میری جلاوطنی کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہی ہے تو میں سوچتا تھا کہ اس معاملے میں حکومت کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ اس نظام اور مشینری کے پیچھے کوئی شخص ہے جو اسے حرکت دے رہا ہے۔ حجاز میں اس بات کا پتا لگانا میرے لیے ممکن نہیں تھا، لیکن وطن واپس آکر پتا چلا کہ وہ ’میرا خان ہے‘۔‘‘
ادارہ رحیمیہ کے ترجمان ماہنامہ رحیمیہ میں مسلسل قومی کارکنان اور تحریکِ آزادی کے مجاہدین کا مختصر تعارف شائع ہورہے رہیں۔ اسی سلسلے میں جناب انجینئر وسیم اعجاز صاحب نے نومبر 2022ءرحیمیہ میگزین میں کھوسہ صاحب کا حضرت سندھیؒ سے دوستی کے متعلق جو مضمون لکھا، وہ بھی ہمارے لیے باعثِ فخر ہے اور میں بہ حیثیت بلوچ ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔