سرمایہ دارانہ نظام میں عوامی ادارے اور نجکاری
سرمایہ دارانہ نظام میں اداروں کی نجکاری محض سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ اور عام عوام کا استحصال ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں عوامی ادارے اور نجکاری
حسنین خان۔ راولپنڈی
گزشتہ دِنوں سے بہت سے کالم نگار اور سرمایہ داروں کے کارندے حالیہ معیشت کا حل صرف عوامی اداروں کی نجکاری کا دیتے ہیں۔چند ماہ قبل میاں منشاء جہاں بینکوں کی نجکاری کی بات کرتے ہوئے نظر آئے تو چند دن قبل سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی اپنے کالم میں اسی طرح کا ایک حل پیداواری عوامی یونٹس کی نجکاری کا بتایا۔ وہ لکھتے ہیں کہ"حکومت تھانوں،عدالت اور ایئر ٹریفک کو کنٹرول کرے۔ ہم نہیں چاہتے کہ حکومت پٹرول پمپس،تیل کے کنویں،پورٹ،ہوائی اڈے یا ریلوے وغیرہ کے انتظامات سنبھالے، کیوں کہ عوامی ادارے نااہل اور بے نتیجہ ہیں" ۔ یعنی وہ تمام ادارے جو براہِ راست عوام کی بنیادی ضروریات کے ساتھ منسلک ہیں، جہاں منافع کا مارجن زیادہ ہے اور محنت کم ہے وہ تمام سرمایہ داروں کے ہاتھوں سستے داموں بیچ دیے جائیں۔ تاکہ سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ یقینی ہوسکے اور وہ اپنی اجارہ داری قائم کرسکیں۔ اسی طرح سابقہ حکومت پی ٹی آئی نے بھی آئی ایم ایف کے کہنے پر عوامی اداروں کی نجکاری کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اگر ہم ماضی میں مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کا معاملہ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ 57 ارب روپے مالیت کے بینک کو اس وقت کی حکومت نے 87 کروڑ روپے میں ایک من پسند شخصیت کے ہاتھوں بیچ دیا تھا اور پھر اسی بینک کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔اس طرح کی بےضابطگیاں اور بدعنوانیاں ہمارے ہاں معمول ہے۔ 1998 ءکی ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق 38 مینوفیکچرنگ یونٹس میں سے 9 میں بہتری آئی، جب کہ 16 یونٹس مزید بگڑے، اسی طرح 19 گھی ملز میں سے 2 میں بہتری دیکھنے کو ملی، جب کہ 5 ملز کی حالت مزید بدتر ہوئی۔مزید برآں 8 رائس ملز میں سے 2 میں بہتری دیکھنے کو ملی،جب کہ 6 کی پرفارمینس اور زیادہ خراب رہی۔ اگر آج پاکستان کے عوامی اداروں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان اداروں کی نااہلی اور اربوں کی لوٹ مار کرنے میں ملازم شامل نہیں، بلکہ حکمران اشرافیہ اور بیوروکریسی شامل ہے۔ لیکن اگر ہم پڑوسی ملک چائنا کی بات کریں، جہاں تمام ادارے ریاست کے کنٹرول میں ہیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں عوامی ادارے دنیا میں سب سے زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن پھر ہمارا ملک کیوں ہر پانچ دس سال بعد اس نہج تک پہنچ جاتا ہے؟ اس کی وَجہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر کاروباری چکر ہے، جس میں حکومت کو صرف انتظامی امور تک محدود کر دیا جاتا ہے۔اور اسی کاروباری چکر کی وَجہ سے ہر دہائی بعد کسادبازاری کا انھیں سامنا کرنا پڑتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔ امام شاہ ولی الله دہلویؒ کے نزدیک صنعت زراعت اور کاروبار معیشت کے اہم پیداواری ذرائع ہیں۔معیشت کے ان بنیادی ذرائع کی ترقی ریاستی تعاون سے ہوتی ہے۔ان کے نزدیک ان شعبوں کی ترقی معاشرے کے صرف چند لوگوں کی فلاح تک محدود نہیں ہونی چاہیے، جہاں اجتماعی فائدے کے جذبے کو نظرانداز کر دیا جائے جو بالآخر ایک پرامن تہذیب کی بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑ دے۔ امام شاہ ولی اللهؒ نے تجویز کیا ہے کہ جہاں دولت کی پیداوار متوازن نہیں ہے، وہاں ریاست کو مداخلت کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی کی ضمانت دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آپ کے نزدیک زمین کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ اور ظاہری نظام کے لحاظ سے ریاست ہے۔ ملک میں رہنے والی عوام کی حیثیت کسی مسافر خانے میں ٹھہرنے والوں کی سی ہے ملکیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے حق انتفاع یعنی فائدے میں دوسرے کی دخل ا ندازی قانوناً ممنوع ہے۔آج میڈیا پر ہر طرف ملک ڈیفالٹ کرنے کی خبریں پھلائی جارہی ہیں، جیسے ملک پہلے کبھی اس نہج پر پہنچا ہی نہ ہو۔ سرمایہ دار ایسا ماحول اس لیے بناتے ہیں، تاکہ بعد میں (بہ قول حکمرانوں کے) مشکل فیصلے آسانی سے لیے جاسکیں اور بھاری ٹیکس عوام پر لادے جا سکیں۔