احساس مند دیواروں کا بے رحم نظام - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • احساس مند دیواروں کا بے رحم نظام

    ظلم کے نظام میں ہر طرح کے نیک کام انسانی فلاح کے مکمل پہلوؤں کا احاطہ نہیں کر سکتے

    By ڈاکٹر محمد عارف بہاولپور Published on Apr 16, 2022 Views 1056
    احساس مند دیواروں کا بے رحم نظام
    ڈاکٹر محمد عارف۔ بہاولپور

    سرمایہ دارانہ نظام میں انسانی حقوق کی پامالی بھی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ جدید دور میں جہاں جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں نے جنم لیا، وہیں انسانی حقوق کی ادائیگی میں انسانیت کی عزت نفس مجروح کرنے کی باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ حال ہی میں سستے روشن خیالی کے خبط میں مبتلا سماجی کارکنوں نے مہربانی اور احساس کے نام پر دیواروں کا باقاعدہ حکومتی سرپرستی میں افتتاح کیا ہے۔ ان دیواروں کو رنگ و روغن سے سجا کر اپنے جھوٹے برتن ،بے کار اشیا بڑے سلیقے سے آویزاں کی گئیں، جن اشیا کو کوڑے دانوں میں پھینکا جانا تھا، اب وہ احساس اور مہربانی کے نام پر انسانوں کو پیش کی گئی ہیں۔ 
    سوال یہ ہے کہ کیا علاقے کا ڈپٹی کمشنر یا حکومت کا نمائندہ ان اشیا کو اپنے بچوں کو یا خود کے لیے استعمال کروا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ایک محنت کرنے والے کو لوگوں کا میل کچیل کیوں کر مہربانی اور احساس کے نام پر دیا جاسکتا ہے؟
    سرمایہ داریت کے محافظوں کی غیرت انسانی ختم ہوگئی اور یہ بے حس حرام کھانے میں شریک ہیں اور انسانوں کے حقوق کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ کیا انسان کی ضرورت چند برتن اورکپڑے ہیں؟ 
    اس کی پیدائش،رہائش، خوراک ،صحت، تعلیم، سیاسی،معاشی اورسماجی حقوق کہاں گئے ؟ چلو مذہب کے بتائے ہوئے نہ سہی، جو عالمی اداروں نے انسانی حقوق طے کیے ہیں انھی کی ادائیگی کا نظام پیدا کردیں۔ 
    20جون 2021ء دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں 2021ءمیں غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس تخمینہ میں 3اعشاریہ 20 ڈالر یومیہ کمانے والے کو شامل کیاگیا۔ پاکستان میں غربت 39فی صد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ حقیقی اعدادوشمار ناجانے کیا ہوں گے۔ حقیقت میں پاکستان میں مزدوروں اور تنخواہوں میں بہت زیادہ فرق موجود ہے. تنخواہ یا مزدوری صرف دو وقت کی روٹی تک ہی محدود ہے ۔ 
    عوامی نمائندوں نے جذباتی تقاریر سے قوم کےذھنوں کومفلوج کردیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جذباتی ویڈیوز نشر کی جاتی ہیں، جن میں ہمدردی ،ایمان داری،جیسے پاکیزہ اوصاف کو انتہائی جذباتی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ معاشرے میں عمدہ اوصاف کو اپنانے کے لیے غیرفطری طریقہ اپنایا جا رہا ہے، کچھ بھانڈوں نے تو انسانی اوصاف کو پرکھنے کے لیے سوشل ایکسپریمنٹ کے نام پر انسانی جذبات کو مجروح کرنے کا باقاعدہ منظم ڈاکومنٹری طریقہ اپنایا ہوا ہے۔ کیا نیکیاں کہنے سے سر انجام پاتی یا تربیت کے زیرِ اثر ہوتی ہیں؟ یوں تو ہر انسان فطرتی نیک ہوتا ہے ۔ 
    ان سماجی کارکنوں کے ہاں انسانی عزت و وقار کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بس لائک،سبسکرپشن اور ویوز میں اضافہ ہو اور روزی روٹی کا ذریعہ بنے۔ 
    ان شتر بے مہار سوشل ایکٹیوسٹ کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں کہ جو طریقہ اپنایا گیا ہے وہ معتبر بھی ہے؟ یہ کبھی کسی کی ایمان داری کی پیمائش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی مفلسی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ جو حکمران طبقے کے اخلاق ہیں وہی عوام میں رچ بس گئے ہیں۔ اب عوام کو تو نصیحتیں کرتے ہیں، لیکن جو بدخلقی حکمرانوں میں موجود ہے اس کو کوئی بے نقاب نہیں کرتا۔احساس انسانیت صرف کیا کھانا کھلانا اور کوئی چھوٹی سی ضرورت پوری کردینے کا نام ہے؟ 
          انفرادی طور پر تو ٹھیک ہے، لیکن یہاں تو اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ انسان کی اصل قدر و قیمت خالق کائنات نے تو اشرف المخلوقات بنائی ہے، پھر انسان کو انسان کے سامنے لاچار بنانا شیطان کا کام ہے۔ انتہائی فرق کے ساتھ یہاں عیاشی کی سطحیں موجود ہیں، غریب آدمی سستی عیاشی کرتا ہے اور امیر اپنی دولت کے مطابق عیاشیوں میں مبتلا ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں فلاحی کاموں میں دنیا کے بہت سے ممالک سے زیادہ بڑے پیمانے پر صدقہ (چیریٹی )کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ تک تنظیموں نے فلاحی کاموں کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے اور انفرادی حیثیت میں فلاحی کام کرنے والوں کی تو گنتی ہی نہیں، لیکن نتائج غربت میں اضافہ ہو رہاہے، بدامنی اورغیریقینی کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ان فلاحی کاموں کے انجام دینے میں سوسائٹی کے وہ بدقماش سب سے آگے ہیں جو معاشرے کی زبوں حالی کے ذمہ دار نہیں، تو آلہ کار ضرور ہیں ۔ ان سارے نیک اعمال کے نتائج نہ نکلنے کا ایک ہی سبب ہے'اور وہ یہاں کا نظام ہے جو لوگوں کو بھیک مانگنے پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ مجبور کرتا ہے اور انسانی حقوق کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کرتاہے وہ اجتماعی کوششوں کے بجائے انفرادی حیثیت میں چیرٹی کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ 
    آج ضرورت ہے کہ اس دجل وفریب کے نظام کو پوری استطاعت سے ختم کرنے کی جدو جہد کی جائے ورنہ انسانی اقدار یوں ہی مجروح ہوتی رہیں گی۔
    Share via Whatsapp