مغرب کی سرمایہ داریت میں فلاحی ریاستوں کا تصور - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مغرب کی سرمایہ داریت میں فلاحی ریاستوں کا تصور

    اس کالم میں یورپی سرمایہ داریت میں فلاحی ریاستوں کی حقیقت پر نقطہ نظر بیان کیا گیا ہے

    By Saleem Iqbal Published on Jun 06, 2020 Views 3824

    مغرب کی سرمایہ داریت میں فلاحی ریاستوں کا تصور

    تحریر: سلیم اقبال-ناروے

    فلاحی ریاست سے مراد ایسی ریاست جو معاشرے میں بسنے والے  تمام افرادکی بلارنگ نسل  مذہب ، سیاسی ، معاشی اور سماجی حقوق کی ضامن ہو،اور ریاست تمام افراد کی کفالت کی ذمہ دار ہو۔تاریخ انسانی میں فلاحی ریاست کا سب سے پہلے تصور اسلام نے دیا اور اس تصور کی بنیاد پر خلافت راشدہ کے دور میں اس کی عملی شکل وجود میں آئی ۔ مشین کی ایجاد کے بعد سترہویں اور اٹھارہویں دنیا میں پے در پے تبدیلیوں کا عمل شروع ہوا۔ یہ تبدیلی چونکہ سرمایہ کے تابع تھی لہٰذا ایک طرف تو اس سے پیداواری عمل میں تیزی آئی لیکن دوسری طرف اس کے فوائد ایک خاص طبقے یعنی سرمایہ دار تک محدودہو گئے۔ اکثریتی عوام نئے استحصالی نظام جسے ہم سرمایہ داری کہتے ہیں کا شکار ہو گئے اور معاشرے کے اندر شدید کشمکش کا آغاز ہوا۔محنت کش عوامی طبقہ اپنے حقوق کے لیے سرمایہ داروں کے مد مقابل آکھڑا ہوا اور شدید مزاحمت کی، جس کے نتیجے میں چند معاشروں میں سرمایہ داریت کے مخالف انقلابی تحریکیں زور پکڑتی گئیں  اور  کچھ ممالک  میں ان تحریکوں کی کامیابی کے نتیجے میں انقلابات بھی برپا ہوئے۔سرمایہ داریت کو اپنا وجود خطرے میں نظرآنے لگا تو اس کے لیے اپنے نظام میں اصلاحات کرنا ناگزیر ہو گیا تاکہ محنت کش طبقےکو  مطمئن کیا جا سکے اور ان اصلاحات کو "ویلفیئر سٹیٹ" کا نام دیا گیا۔

    مغرب میں جدید ویلفیئر سٹیٹ کا تصور انیسویں صدی کے اواخر میں شروع ہوا لیکن اس کی عملی شکل ۱۹۳۰ کے کسادِ عظیم کے  بعد کچھ ممالک میں عملی طور پر قائم ہوئی۔یورپین مفکر  روبرٹ پاکسٹن کے مطابق اس کا مقصد محنت کش طبقے کو اپنے حقوق کے لیے  بنائی گئی تنظیموں سے دور رکھنا تھا  تاکہ *"معاشرے میں پیداواری عمل  ، اتحاد اور  سماجی امن قائم رہے"* ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے صحت،  پینشن،گھر اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات دی گئیں اور اس کے بعد اس میں مزید اصلاحات کی گئیں اس طرح یورپ کے کئی ملکوں پر معمولی معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اس جدید فلاحی ریاست کے ماڈل کا نفاذ ہو گیا، جس میں ریاست کو کفالت کا بنیادی ذمہ دار قرار دیا گیا ۔اس وقت سرمایہ دار ملکوں میں مختلف (مکمل یا نا مکمل) شکلوں میں یہ  ماڈل موجود ہے ۔

    ان تمام ماڈلز میں ریاست معاشرے کے افراد کی معاشی اور سماجی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ دار ہے، جس میں  صحت ، تعلیم، روزگار ، انشورنس، سکیورٹی وغیرہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ تمام سہولیات دینے کا مقصد تمام افراد کو معاشرے میں *ایک مفید اور کارآمد' ورکر '* بنانا ہے ۔ سکینڈی نیوین ممالک (ناروے، ڈنمارک، سویڈن، فن لینڈ)  کو یورپ کی بہترین ویلفئیر اسٹیٹس کہا جاتا ہے، جہاں ریاست بنیادی ضروریات پورا کرنے کی ذمہ دار ہے۔ان ممالک میں تنخواہوں پر بھاری ٹیکس نافذ ہے اور جس کی شرح تقریبا ساٹھ فیصد کے لگ بھگ بنتی ہے اور اوسط تنخواہ پر چالیس فیصد کے قریب ٹیکس ہے۔ جس کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں سے ایک بھاری حصہ ویلفئیر سٹیٹ  کے نام پر لیا جاتا ہے۔اور اس ٹیکس کے عوض تعلیم بالکل مفت ہےاور صحت کی سہولیات سبسڈائزڈ ہیں ، حکومت ایک حصہ اداکرتی ہے اور مریض کو خود بھی اس میں کچھ حصہ ادا کرنا ہوتا ہے، یعنی کہ صحت کی سہولیات بالکل مفت نہیں ہیں۔ ریاست روزگار کے لیے مدد فراہم کرتی ہے لیکن روزگار دینے کی مکمل ضامن نہیں ہے۔  گھر (مکان) کے حوالے سے حکومت کا کوئی ذمہ نہیں ، اور اس کے لیے بینکوں سے قرض لےکر  بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ رہائش کے لیے تمام سہولیات  (بجلی، پانی، انٹرنیٹ وغیرہ) کا خرچہ ذاتی طور پر ادا کرنا ہوتا ہے حتٰی کہ علاقے کی صفائی اور کوڑا کرکٹ اٹھانے کے بِل بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ سیلز ٹیکس اس انکم ٹیکس کے علاوہ ہے جس کی شرح عموماً پچیس فیصد ہے، یہ سیلز  ٹیکس روز مرہ کے کھانے اور استعمال کی اشیاء پر بھی لاگو ہے۔اگران ریاستوں کا بغور تجزیہ کیا جائے تو اس میں بسنے والے اپنی آمدن کا ایک بہت بڑا حصہ ٹیکس  کی مد میں ادا کرتے ہیں  اور اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گھر کے تمام افراد کے لیے کمانا ناگزیر ہے۔ یوں تو تعلیم مفت ہے لیکن اس کے ساتھ رہائش اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے طالبعلموں کو تعلیم کے ساتھ کوئی ملازمت کرناپڑتی ہے۔ان ممالک میں 'صنفی مساوات 'کے نعرے کو پروان چڑھایا جاتا ہے ، مرد و عورت برابری کی سطح پر کام کر کے دُگنی 'ورک فورس 'کے طور پرکام کر رہے ہیں۔ بچوں کی پرورش اور  تربیت کا ذمہ والدین  کے بجائے اسٹیٹ کے پاس ہے، تاکہ انسان یکسوئی کے ساتھ ایک مشینی پُرزے کی طرح کام کرتے رہیں۔عمومی طور پر ایک سال کی عمر  کے بچے کو   'ڈے کیئر ' میں داخل کرا   دیا جاتا ہے۔ یہ معاشرے انفرادیت پر قائم ہیں ، اور اجتماعی رویوں کا رحجان نہیں ہے۔ خاندانی نظام کی بنیاد بھی غیر فطری تعلق اور رشتے کی وجہ سے کمزور ہے ۔ چُونکہ انسان فطرتاً  اجتماعیت پسند ہے ،   اس لیے پورا ہفتہ کام کرنے کے بعد ہفتہ اور اتوار کی شب اجتماعیت کی تسکین کے لیے نائٹ کلب  اور پارٹیز کا رُخ کرتے ہیں اور آمدن کا ایک بڑا حصہ ان دو دنوں میں ضائع کر دیتے ہیں۔ 

     رہائش اور دیگر روز مرہ کی اشیاء کو انتہائی مہنگا کر کے عوام کو معاشی طور پر جکڑ دیا جاتا ہے۔ گھروں کی قیمتوں کا تعین بینک کرتے ہیں اور اسے خریدنے کے لیے قرضہ بھی بینک سے ہی لیا جاتا ہے اور گھر بنیادی طور پر بینک کی ہی ملکیت ہوتا ہے ۔  مارکیٹنگ کے ذریعے سے اپنے برانڈز کی ایسی تشہیر کی جاتی ہے کہ عوام اس کے سحر میں مبتلا ہو جاتی ہے اور   نتیجتاً یہ اشیاء قسطوں پرخرید لی جاتی ہیں اور ماہانہ آمدنی تقریباً انہی قسطوں کو پوری کرنے میں نکل جاتی ہے۔ ان ملکوں میں بینکوں سے قرض لینا مجبوری ہے  جس کی وجہ سے ٹیکس میں کچھ چھوٹ مل سکتی ہے۔ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ بھاری ٹیکس دراصل مہنگی  ویلفئیر سکیموں  کی وجہ سے ہیں  لیکن دوسری طرف یہی سکیمیں سرمایہ داروں کی  پرائیویٹ کمپنیوں  کے ذریعے سے حاصل کی جاتی ہیں اور اس طرح  تمام سرمایہ دراصل ان سرمایہ داروں کی طرف ہی لوٹ جاتا ہے۔

    بظاہرتو ان ممالک میں  آمدن میں برابری کا تصور ہے اور زیادہ تر پیشوں  کی تنخواہوں میں زیادہ فرق نہیں ہے،زیادہ تنخواہ والے افراد کو ٹیکس بھی زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے اس طرح اکثریتی ملازمت پیشہ تقریباً یکساں آمدن کماتا ہے۔ لیکن دوسری طرف بہت ہی زیادہ امیر سرمایہ دار طبقے جو ملک کے پورے معاشی نظام کو کنٹرول کرتے ہیں، کا نہ ہی آمدن کا کوئی حساب ہے اور نہ ہی اس سے ٹیکس اس شرح سے لیا جاتا ہے جس طرح متوسط طبقے سے نچوڑا جاتا ہے۔ ٹیکس کے نظام میں ایسے سقم موجود ہیں جو اس طبقے کو نوازنے کے لیے ہیں اور سرمایہ دار بہ آسانی اس نظام میں مستفید ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس طبقے کا انتہائی ضروری اشیاء  کی مارکیٹس پر قبضہ ہے جس میں متوسط طبقے  کی پہنچ نہ ہونے کے برابر ہے، مثلاً بینکس، گھر، اشیائے خوردونوش، بجلی، گاڑیاں ، ٹرانسپورٹ وغیرہ کے مالک یہی سرمایہ دار ہیں ۔

    سرمایہ داریت کی سب سے بڑی خامی اس میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، جس کی وجہ سے چند افراد اکثریتی وسائل پر قابض ہیں اور اکثریتی طبقہ صرف ایک کارآمد پُرزےکی طرح ان کے وسائل اور منافع میں اضافے کے لیے کام کرنے پر مجبور ہے۔ یہ جدید ویلفیئر اسٹیٹ ماڈل اس تقسیم میں کسی قسم کی دخل اندازی نہیں کرتا۔حقیقتاً سرمایہ دار ملکوں میں اس طرح کی اصلاحات کا مقصد معاشرے کی اصل خرابی پر پردہ ڈالنا ہےاور عوام کو وقتی طور پر مطمئن کرناہے،تاکہ سرمایہ داریت کی مخالفت کو کم کیا جائے اور یہ بطورِ نظام قائم رہے۔ اور افراد کو اس حد تک سہولیات دی جائیں تاکہ "ورک فورس" کے طور پر ان کی کارکردگی پر اثر نہ پڑے۔

    Share via Whatsapp