اجتماعی بربادی اور اس کا حل
موجودہ ملکی صورت حال محتلف مسائل سے دو چار ہے ان مسائل کو حال کرنے کی بجائے قوم کو مسائل کے حال کے نام پر ٹرک کے سرخ بتی کے پیچے لگایا جاتاہے
اجتماعی بربادی اور اس کا حل
تحریر: نثار خان۔ بنوں
ملک عزیز پاکستان شروع سے مختلف مسائل اور بحرانوں کا شکار چلا آرہا ہے، جیسے بے انصافی،مہنگائی،بے روزگاری،معاشی مسائل، بدامنی، سرمایہ داری کی نحوست اور سامراجی غلامی وغیرہ۔ آج کل ہمارا ملک سیکیورٹی فورسز اور عوام کے درمیان ایک کشیدگی یا نفرت کی صورتِ حال سے دوچار ہے۔آج سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہے اور اس کے کیا اسباب ہیں؟ نیز ایسے واقعات کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ ان واقعات کے پیچھے نظام یا سسٹم کا کیا کردار ہوتا ہے؟ کیا سسٹم کا ایک ادارہ ہی سب کاموں کا ذمہ دار ہوتا ہے؟ یا ان سب میں نظام کے دوسرے اداروں کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے؟ کیا ہمارا ملک سیاسی معاشی طور پر آزاد ہے؟
ظالمانہ نظام وہ ہوتا ہے، جہاں پر سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ قوانین رائج اور اس طبقے کی سیاسی و معاشی بالادستی ہو۔ چاہے وہ سیاسی لوگ ہوں، اسٹیبلشمنٹ ہو، کارخانہ دار ہوں یا مذہبی لبادے میں ہوں اور نتیجے کے طور پر سماج میں معاشی بھوک و افلاس، طبقہ واریت، غلامی، جہالت اور بداخلاقی رائج ہوجائے۔ یہ سرمایہ دار طبقہ سیاسی بالادستی کی وَجہ سے ایسے قوانین بناتے ہیں، جس میں عوام پھنس کر سالوں سال کاغذی کارروائی، عدالت، دفتر، ڈاکٹر، پولیس کچہری یا روزگار وغیرہ کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ جہاں روزگار کے حصول کو اتنا مہنگا اور مشکل بنایا جاتا ہے، تاکہ عوام کی سوچ روٹی کپڑا مکان سے آگے نہ جائے۔ یہ نظام طفیلی نظام ہوتا ہے جہاں ایک طرف مقامی سرمایہ دار طبقہ اور دوسری طرف بیرونی سرمایہ دار سامراج کی شکل میں اس قوم کا خون چوسنے کے ساتھ ساتھ اپنے ایجنڈے اور پروپیگنڈوں کے لیے بھی لوگوں کو استعمال کرتے ہیں۔ پاکستانی نظام کی مثال هیڈرا Lernaean Hydra جانور کی طرح ہے جو ایک یونانی (Methodological) جانور ہے، جس کے کئی سر ہوتے ہیں۔ ایک سر کو کاٹنے پر اس کی جگہ اَور سر نکل آتے ہیں۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ یہ قوم پر ہزاروں مسائل کے انبار لگا دیتے ہیں، قوم اگر ایک مصیبت کے خلاف اٹھتی ہے تو بعد میں اَور کئی قسم کی خرابیاں اور مسائل نکل آتے ہیں۔ اس لوٹ کھسوٹ میں ایک ادارے کے بجائے پورا نظام ملوث ہوتا ہے، مگر نظام عوام کے ذہنوں کو اُلجھانے کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے پروپیگنڈوں کے ذریعے قوم کی توجہ بجائے نظام کی طرف کرنے کے، صرف ایک ادارے یا ایک جانب منتقل کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ نااہل لیڈرشب اپنی بے شعوری و نا اہلی کے سبب سے اپنے مسائل کو حل کرنے کی بجائے ہروقت حکومت اور حزب اختلاف کی اٹکل پچوؤں میں پھنسی رہتی ہے اور مسائل حل کرنا چاہے بھی، تو بھی نہیں کرسکتی۔
آج اگر ہم پاکستان کے نظام میں موجود اداروں پر نظر ڈالیں تو الف سے لے کر ی تک سارے ادارے نااہلوں کے ساتھ ساتھ کرپشن اور قوم کے مسائل میں اور اضافہ کر دیتے ہیں۔ اور قوم کے خودساختہ دانش ور بھی بجائے نظام یا سسٹم کو قصوروار قرار دینے کے اس ادارے کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور اس طرح عوام کو بہلاتے رہتے ہیں، مثلاً واپڈا، بجلی کے پورے نظام کو سیاسی لوگوں نے IPP’s کے ساتھ مہنگے معاہدوں کے ذریعے برباد کیا اور قوم کو ایک واپڈا کے پیچھے لگا دیتے ہیں کہ یہ ادارہ خراب ہے۔ یہی صورتِ حال عدالت، پولیس، سول بیورکریسی اور ملٹری بیوروکریسی کی بھی ہے۔
اس وقت ملک میں ایک ادارے کے خلاف لوگوں کے جذبات اُبھر رہے ہیں، ایسے جذبات جیسا کہ اگر یہ ایک ادارہ ایک الگ سائیڈ پر ہو جائے تو سارے مسائل حل ہوں گے، یعنی مہنگائی، عدالت، سیاسی نظام، تعلیمی نظام، بجلی، پولیس اور آمن و امان وغیرہ، سارے ٹھیک ہو جائیں گے، کیوں کہ ان کی مداخلت کی وَجہ سے یہ سب خراب ہے۔
جب کہ اگر بہ غور دیکھا جائے تو اس ادارے کا کردار صرف چوکیدار کی حد تک ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ آج پاکستان میں تمام ادارے خراب ہیں۔ یہ ادارہ بھی ان خراب اداروں میں سے ایک ہے۔اداروں کی خرابی نظام کی خرابی کی وجہ سےہے- اس لیے ایک ادارے کے بجائے سارے نظام کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے۔
ہم اگر افریقا کا مطالعہ کریں تو وہاں پر بھی اس ادارے کی مثال ایک چوکیدار کی طرح اَور اس سے ملتی جلتی ہے، جہاں پر سرمایہ دار طبقہ ان کے ساتھ مل کر بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے پیسے لیتے ہیں اور ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرکے ایک تو لوگوں کی توجہ دوسری جانب مبذول کراتے ہیں اور دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیاں معدنیات کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ یہی حال وطن عزیز پاکستان میں kpk اور بلوچستان وغیرہ میں ملتی ہے، جہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے معدنیات کی لوٹ کھسوٹ میں مقامی خانہ جنگی کو ہوا دے کر، "تقسیم کرو اور حکومت کرو"، کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔ اس سارے کام میں نظام ان کا ساتھ دیتا ہے اور شریک ہے، چاہے سیاسی لوگ ہوں یا سول و ملٹری بیوروکریسی ہو، سب اس حمام میں ننگے ہیں۔
ایک اور مثال PIA اور سٹیل ملز کی ہے۔ یہ دونوں ادارے ایک وقت میں ملکی اداروں میں ٹاپ پر تھے۔ چوں کہ یہ گورنمنٹ کے ادارے تھے تو سرمایہ داروں نے اپنی سٹیل ملز اور جہازوں کو کامیاب کرانے اور منافع خوری کے لیے ان اداروں کو برباد کرنے اور سارے منافع کا رخ اپنے پرائیویٹ ملز، کارخانوں اور جہازوں کی طرف کردیا۔ یہی حال سب اداروں کا ہے۔
امریکا میں 1930ء کی دہائی میں معیشت پوری کی پوری نیچے آئی تھی، سرمایہ دار جان بوجھ کر معیشت کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ اس وقت مختلف کارخانوں نے خود کو دیوالیہ قرار دے کر مزدوروں کو نوکریوں سے نکال دیا۔ مزدور سوشلسٹ انقلابیوں کے ساتھ مل کر تحریک چلانے لگے جو بہت کامیاب اور خطرناک حد تک سرمایہ داروں کے خلاف پھیلنی لگی۔ اس وقت امریکا کے صدر نے ان تحریکوں میں تقسیم پیدا کی۔ ان مزدوروں یا سوشلسٹ انقلابیوں کے ساتھ تمام شرائط، جیسے بنیادی تنخواہیں، روزگاراور صحت وغیرہ کی تمام سہولیات کے معاہدوں کے ساتھ ساتھ ان کی تمام شرائط مان لیں۔ یہاں تک کہ کارخانوں اور سرمایہ داروں پر 90 فی صد تک کا ٹیکس بھی لگایا گیا۔ ان میں سے کچھ سوشلسٹ انقلابیوں نے کہا کہ تمام سہولیات صرف چند دنوں کے مزے ہیں، ہم کو ان سہولیات کی بجائے نظام کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے، جب کہ دوسری طرف دوسرے دھڑے کے سوشلسٹ انقلابیوں نے کہا کہ جو سہولیات وغیرہ ہمیں ابھی مل رہی ہیں یہ ہماری جیت ہے اور ان سہولیات کو لینا چاہیے۔ بعد میں نظام کے خلاف جدوجہد کی کوشش کریں گے۔ اس دوسرے دھڑے کے سوشلسٹوں نے امریکا کے صدر کے ساتھ معاہدے قبول کیے اور جشن منانے لگے۔ مگر اس کے ٹھیک 15 سال بعد ان تمام بڑے بڑے اور متحرک سوشلسٹ راہ نماؤں کو چن چن کر روس کے ساتھ غداری کے الزامات پر قتل کیاگیا اور ایسے قوانین بنائے گئے، جہاں پر مزدروں کے یونینوں کو کمزور بنایا گیا تاکہ آنے والے وقتوں میں پھر سے ایسی تحریکیں سر نہ اٹھائیںاور وقت نے وہی درست ثابت کیا کہ 1980 ،1990 اور 2008ء وغیرہ میں معاشی بحرانوں کے باوجود بھی اس طرح کے تحریکوں نے پھر کبھی سر نہیں اٹھایا۔
اس تناظر میں اس قوم دشمن نظام کےخلاف شعوری بنیادوں پر عدم تشدد کی حکمت عملی کےتحت منظم جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔جس کاھدف کوئی ایک ادارہ نہیں بلکہ باطل نظام کے خلاف جدوجھدہو، کیوں کہ ان پیدا شدہ تمام مسائل کا تعلق سسٹم سے جڑا ہوتا ہے اور محض ان مسائل پر چیخ و پکار کرنے سے قوم معاشی اور سیاسی طور پر غلامی سے آزاد نہیں ہوسکتی بلکہ اس نظام کامتبادل دیناضروری ہے۔ اس لئے مسائل پر تبرابازی کرنے کے بجائے پورا سسٹم، جو تمام مسائل کی جڑ ہوتا ہے، کے ختم کرنےاور اس کامتبادل دینے کی جدوجہد کرنےکی ضرورت ہے۔