الحاد کا پھیلاؤ اور اس کاتدارک
الحاد کا پھیلاؤ اور اس کاتدارک
الحاد کا پھیلاؤ اور اس کاتدارک
محمد حارث شبیر کیانی۔ راولپنڈی
انسان فطرتاً مدنی الطبع ہے۔ سماج تشکیل دے کر اجتماعی زندگی بسر کرنا، انسانی سرشت کا بنیادی تقاضا ہے اور سماجی تشکیل کے لیے سیاست اور معیشت کے ساتھ فطرت سے ہم آہنگ فکر بھی اہم عنصر ہے۔ آج صنعتی ترقی اور ٹیکنالوجی کی جدت کی وَجہ سے انسانی ذہن کائناتی گتھیوں کو سمجھنے،کائنات کی تخلیق،آغاز،اس کے چلن،سفر اور اختتام کے حوالے سے علم اور اس کا ادراک چاہتا ہے۔دین ِاسلام اس حوالے سے انسانیت کی جامع رہنمائی کرتا ہے۔ انسان اور انسانی معاشرے کی حقیقت اور اس جستجو میں ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں، اگر جدید تعلیم کے حامل نوجوانوں کو ان سوالوں کے جوابات دینی فکر کی روشنی میں نہیں ملیں گے تو لامحالہ وہ کسی اَور طرف دیکھیں گے اور وہاں سے لازمی طور پر غیردینی طریقے سے ان سوالات کے جوابات آئیں گے، دینی طریقے سے رہنمائی نہ ہونے کے نتیجے میں ذہنِ انسانی گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتا رہے گا، یہیں سے نوجوانوں میں دین بیزار رویے پنپتے ہیں اور نتیجتاً الحاد یعنی لادینیت اور دہریت کے جوہڑ میں غوطہ زن ہوتا رہتا ہے۔
عصری ضرورتوں کو دینی افکار کی روشنی میں نہ سمجھنےکی وجہ سےآج کا مسلمان جب کسی کو دہریہ سمجھتاہے تو کہتا ہےکہ دین سے دوری کی وَجہ سے یہ دہریہ بن گیا ہے۔یہ ایک غیرمنطقی بات ہے۔ اسی طرح آج کے نام نہاد محققین گریجویٹ نوجوانوں کے سوالوں کے جوابات عقلی بنیادوں پر نہیں دے پاتے۔ دور کے تناظر اور سائنسی حقائق سے ناواقفیت کی بنا پر عصری مسائل کی درست توجیہ نہیں کر پاتے۔ پہلے تو یہ سمجھنا ہوتا ہے کہ کیا سائل اللہ کی ذات ، کسی الہامی کتاب یا نبی کو مانتا ہے یانہیں؟ مذہب کو سرے سے نہ ماننے اور محض سائنس پر ایمان کی وَجہ سے ذہن کا رجحان ایک طرف ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں عقلی حوالے سے مذہب کی تعبیر اور انسانی سماج میں مذہب کی حقیقت، حیثیت و کردار کو سمجھانا اہم ہوجاتا ہے۔آج کا نوجوان مسجد سے مایوس ہوچکا ہے، کیوں کہ مساجد میں عصری تقاضوں کا ادراک، مسائل کی نوعیت اور ان کا حل نہیں بتایا جاتا،اس لیے آج کے نوجوان کو دین میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ دوسری طرف محض سائنس مادی طور پر اپنے طریقے سے ذہن کو ادھوری معلومات کے ذریعے مسحور کرلیتی ہے اور شاطر دماغ معصوم نوجوانوں کو مذہب سے بیزار کردیتے ہیں۔
الحاد و دہریت اختیار کرنے والے لوگ کسی مادی نظام اور مادی فلسفے سے بھی متاثر ہوجاتے ہیں اور ان مادی نظاموں اور فلسفوں کے غلبے کا اَثر بھی ذہنوں پر اَثرانداز ہوتا ہے۔ آج سوشل اِزم اور کیپیٹل اِزم مادی نظامِ معیشت کے طور پر دنیا میں رائج اور غالب ہیں۔ سوشل اِزم کارل مارکس، اورکیپیٹل اِزم ایڈم سمتھ کےافکار پرمبنی دو نظام ہیں۔ یہ نظام سائنسی ترقی کی منازل توطے کر رہے ہیں، لیکن ان دونوں کی بنیاد لادین فلسفہ ہے۔ چوں کہ یہ دونوں نظام کسی نہ کسی صورت دنیوی مسائل کاحال اپنے تئیں پیش کرتے ہیں اس لیےنوجوان ان نظاموں سے متاثر و مرعوب ہو رہے ہیں،جب کہ نوجوانوں کومحض آج کے مسلمان کےحالات سےآگہی ہے، اور ماضی کی 12 سو سال کی تاریخ جس میں مسلمانوں کا عقلی، سیاسی، سماجی و سائنسی غلبہ تھا وہ ان کےسامنے پیش نہیں کیاجاتا تودین کےبارے میں ان کی معلومات ادھوری ہیں۔اور یہ حقیقت ہے کہ جو نظام غالب ہوتا ہے نوجوان اسی کی طرف متوجہ اور اسی سے متاثر ہوتے ہیں۔
لارڈ میکالے کا بنایا ہوا نظامِ تعلیم اور اس کی روح آج بھی ہمارے نظام تعلیم میںکارفرما ہے، سیاست میکاولی کی ہے، معیشت میں کیپیٹل اِزم پڑھایا جا رہا ہے،اور سرمایہ پرستی کا نظام غالب ہے، نظام کا محور و مرکز سرمایہ ہے، سرمایہ ایک بت ہے، سرمایہ ہی مذہب اور خدا بن چکا ہے تو حقیقی دین سے دوری اور الحاد و دہریت کیسے پیدا نہ ہو، کیوں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے غلبے کی صورت میں سماج میں بھوک و افلاس اور اجتماعی بداخلاقی لازمی نتیجہ ہے اور ایسی اجتماعی مفلسی بذاتِ خود ایک الحاد اور بے دینی ہے جو کہ آکاس بیل کی طرح معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیےہوے ہے۔
دہریت اور الحاد کے پھیلاؤ کی ایک اہم وَجہ یہ بھی ہے کہ جو علما درس نظامی پڑھتے ہیں، لیکن نظام کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتے، قرآنی سیاست و معیشت کے بارے میں سوچ اور تعلیم نہیں رکھتے، سیاسی اور معاشی مسائل کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں، مزید برآں مذہبی علما کے سیاسی و سماجی کردار کو دیکھ کر بھی نوجوان مایوس ہوکر دین سے بیزار ہوتے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کو ایک عملی نظام کے نظریے سے سمجھاسمجھایا جائے۔ اسلام کا اپنا ایک مکمل اور پائیدار معاشی، سیاسی اور سماجی نظام ہے، جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مدرسہ والے یونیورسٹی والوں کو دنیادار اور یونیورسٹی والے مدرسہ والوں کو صرف مذہبی سمجھ کر دور ہیں، اس خلیج کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹی والوں کو دین اور مدرسہ والوں کو دنیا کے نظاموں کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے قرآن کے فکر کو اسی انقلابی طرز پر سمجھنے کی ضرورت ہے، جس طرز پر اس خطے کے حریت پسند علما حضرت شیخ الہندؒ اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے آج سے ایک سو سال پہلے نظارۃ المعارف القرآنیہ کے ادارے میں شریعت، سیاست اور طریقت کی جامعیت پر مبنی پیش فرمایا، اور اُس وقت الحاد و دہریت پر مبنی نظام فرنگی کے خلاف مزاحمت کی سوچ دی اور یہ مزاحمت درحقیقت ہر قسم کے ظلم یعنی سیاسی، معاشی، سماجی اور انسانی غلامی جیسی بے دینی کے خلاف عملی جدوجہد پر مبنی مزاحمت تھی، جس کے نتیجے میں برطانوی فرنگی سامراجیت کا خاتمہ ہوا۔