حقیقی تبدیلی کےتقاضے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • حقیقی تبدیلی کےتقاضے

    ہمارے ہاں شخصی تبدیلی کو کلی تبدیلی تصور کیا جاتا ہے اور ہمارا نوجوان سماجی تبدیلی کے حقیقی شعور سے ناآشنا ہے۔

    By Faisal iqbal Published on Jul 25, 2024 Views 643
    حقیقی تبدیلی کےتقاضے
    تحریر ؛ فیصل اقبال ۔ چکوال

    ہمارے معاشرے میں عموما عقیدت کو حقیقت پر فوقیت دی جاتی ہے، اس اندھی عقیدت سے شخصیت پرستی جنم لیتی ہے اور پھر یہ ایک  بت بن جاتا ہے۔ اور اس بت کی ہر بات کو ہم جائز و ناجائز، صحیح وغلط کی تمیز اور عقل و شعور کی کسوٹی میں تولے بغیر من و عن قبول کرلیتے ہیں۔ آج کے نوجوان میں سیاسی و معاشی شعور کا فقدان ہے۔ اسے اس بات کا بھی ادراک نہیں کہ قوموں کے عروج و زوال کا فلسفہ کیا ہے؟ اسی طرح بین الاقوامی سیاست کیا ہے؟ سامراج کس طرح بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو کنٹرول کرتا ہے؟
    ان تمام امور سے آج کا نوجوان بے شعور ہے۔اس کی سب سے بڑی وَجہ سیاسی جہالت ہے جو درحقیقت سب سے بڑی جہالت ہوتی ہے۔
    ہمارے ہاں تبدیلی کی بات کی جاتی ہے اور اس پر زور و شور سے نعرہ بازی بھی کی جاتی ہے،مگر یہ نہیں بتایا جاتا ہے کہ حقیقی تبدیلی کیا ہوتی ہے اور کیسے وقوع پذیر ہوتی ہے۔
    شخصی تبدیلی اور کلی (مکمل)تبدیلی میں فرق
    سماجی تبدیلی اچانک سے رونما ہونے والی چیز نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل سائنس ہے،جس کو اس سائنس کا شعور ہو، وہی سماجی تبدیلی کے لیے کام کرسکتا ہے۔بہ حیثیت مسلم؛ سیاست، معیشت اور معاشرت میں ہمارے لیے راہ نما حضرت محمدﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ مکہ میں ابوجہل کا ایک ظالمانہ نظام موجود تھا اور دارالندوہ اس کا پارلیمنٹ تھی۔ مکہ کی اس سوسائٹی میں آپ ﷺ نے توحید کی دعوت دے کر سماجی تبدیلی کی جدوجہد شروع کی تو کچھ عرصے بعد مکہ کے اس ظالمانہ نظام کے نمائندے (سردار) آپﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ کو پیش کش کی کہ اگر آپ کو حکومت چاہیے تو ہم آپﷺ کو اپنی پارلیمنٹ (دارالندوہ) میں اہم مقام دے دیتے ہیں، صرف ایک شرط ہے کہ آپ اپنےپروگرام کی دعوت دیناچھوڑدیں،مگر آپ ﷺ نے یہ پیش کش یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ اگر تم میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پہ چاند رکھ دو، تب بھی میں اپنی جدوجہد کو ترک نہیں کروں گا۔ یہاں سے ایک اہم بات واضح ہوتی ہے کہ ایک غلط نظام میں صحیح اور درست حکمران کا ہونا، بے معنی سی بات ہے۔ یعنی نظام میں شخصی تبدیلی کا جو ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ کوئی مسیحا شخصیت آئے اور اس بوسیدہ ظالمانہ ملکی نظام میں آکر حکومت کرے تو سب ٹھیک ہوجائے گا، یہ ایک سراب ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔
    سماجی خرابیوں کا اجتماعی شعور
    سماجی تبدیلی کے لیے کام کرنے سے پہلے جس نظام میں تبدیلی مقصود ہے، اس کا شعور حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم جس عالمی استحصالی نظام کا حصہ ہیں اس کی بنیاد سرمایہ داریت ہے۔ اس نظام کا فلسفہ ظلم، استحصال اور طبقاتیت پر مبنی ہے۔ اس ظالمانہ نظام کے مطابق جب سرمائے اور فرد میں ٹکراؤ ہوگا تو سرمائے کو فوقیت حاصل ہوگی۔ جب ہم حقیقی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد اس عالمی استحصالی نظام کو 'فک کل نظام' سے کلی طور پر ایک انسان دوست متبادل نظام سے تبدیل کرنا ہوتا ہے۔
    استحصالی نظام میں تبدیلی کا طریقہ کار
    سماجی تبدیلی ایک سائنس ہے، جیسے سائنس سے قوانینِ فطرت کو معلوم کر کے انسان دوست مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اسی طرح سماجی سائنس سے سماج کو بدلنے کے قوانین معلوم کیے جاسکتے ہیں۔ سماجی تبدیلی کے تین اہم اجزا ہیں: 
    فکر و فلسفہ: یعنی ایسی مربوط سوچ کی ضرورت ہے، جس پر سوسائٹی کا معاشی، سیاسی اور تعلیمی نظام کی بنیاد رکھ سکیں۔
    جماعت: دوسری اہم چیز تربیت یافتہ جماعت ہے،اس لیے کہ فکروفلسفہ  اس وقت تک عمل میں نہیں اتا جب تک اس فکر کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کرکوئی ٹیم وجود میں نہیں اتی،اس لیے اس فکر پر سماج میں عملی نظام قائم کرنے کے لیے ایک ٹیم کی ضرورت پڑے گی جو ریاستی نظم و نسق نہ صرف چلائے گی، بلکہ اس کو ترتیب نو بھی دے گی اور قوانین بھی بنانے کی اہل ہو۔
    حکمتِ عملی: موجود نظام کی مسلط ٹیم کو شکست کیسے دینی ہے؟ اس کا پورا لائحہ عمل اور پروگرام کا ہونا ضروری ہے۔ 
    نظام کو نہ کوئی ایک شخص چلا رہا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ایک شخص تبدیل کرسکتا ہےبلکہ ایک ٹیم ورک ہوتاہے۔ نظام کو ایک تربیت یافتہ جماعت جس کو سیاسی اصطلاح میں bureaucracy کہتے ہیں وہ چلا رہی ہوتی ہے۔ شخصیت تو اس bureaucracy کا نمائندہ  ہوتی ہے۔ نظام کی تفصیلات سےناواقفیت کی بناپر بے شعور عوام  شخصیت کے نام پر دھوکہ کھا جاتی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی سماجی تبدیلی کا عمل وقوع پذیر ہوا ہے وہاں ایک  متبادل فکر و فلسفہ پر ایک متبادل تربیت یافتہ جماعت bureaucracy تیار ہوئی، جس نے فرسودہ بیوروکریسی کی جگہ لی۔ چین، روس، کیوبا وغیرہ جدید دور کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اور اگر حضرت محمد ﷺ کی مثال لیں تو وہاں بھی آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت تیار کی، جس نے ابوجہل کے نظام اور bureaucracy کو شکست دی اور حجاز کا نظام بدلا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان سماجی تبدیلی کا حقیقی شعور حاصل کریں اور اس کے مطابق مطلوبہ کردار ادا کریں۔
    Share via Whatsapp