یونیورسٹی اور استحصالی نظام کا باہمی ”معاہدہ“
حکمتِ عملی و حِکمتِ نظری کے تناظر میں یونیورسٹیوں کے کردار پر چند سوالات
یونیورسٹی اور استحصالی نظام کا باہمی
”معاہدہ“
ڈاکٹر شاہ زیب خان۔ لاہور
یونیورسٹی کے ڈسپلنز اتنے بے
جان اور کاسمیٹک کام کرتے ہیں کہ اکثراوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں
نظاموں کو انسان دوست یا اجتماع دوست بنانے کے راستے میں یونیورسٹی کا ادارہ ایک
بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ ایک لگے بندھے اور طے شدہ طریقہ کار کے مطابق یونیورسٹیوں
کے دانشور تحقیق کرتے ہیں اوربے شمار کتابیں شائع کرتے ہیں۔ اکثراوقات ان
علمی سرگرمیوں کا اثر مروجہ نظام معیشت و سیاست پر نہیں پڑتا لیکن ”انقلاب“اور
”مزاحمت“کے کئی دبستان اور فیشن ایبل اصطلاحات وجود میں آ جاتی ہیں۔ سی آئی اے کی
ایک ڈی کلاسیفائیڈ رپورٹ کے مطابق فرانس میں سی آئی اے کے ایجنٹوں نے جب مشل فوکو
کو پڑھا اور نوجوانوں پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا تو خوشی سے اس بات کا اظہار کیا
کہ جونوجوان فوکو کو پڑھتے ہیں، وہ عملی مزاحمتی سیاست سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
علمی
میدان میں تھیوری کی ایسی پرکشش موشگافیاں ہوتی ہیں کہ یہ لامحالہ حکمتِ نظری سے
حکمتِ عملی کی طرف جانے والی راہیں مسدود کر دیتی ہیں۔ عموما ًیہی چلن دیکھا گیاہے
کہ حکمتِ نظری والے علمی پیچیدگیوں کے نام پر عملیت کی تضحیک اور اس کے انکار میں
ہی عافیت تلاش کرتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کی مجبوری بھی ہوتا ہے کہ خود ان کے اجتماعی
کردار کو اگر عملی افادیت کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو وہ خود ناکامی کی شاندار
مثال ہوتے ہیں۔ یعنی اپنی ذات کے حوالے سے تو خوب جستجو نظر آتی ہے لیکن اجتماعی
سیاسی و معاشی نتائج پر چونکہ توجہ نہیں ہوتی، اس وجہ سے اس میدان کو رجعت
پسند سامراجی سرمایہ دار کمپنیوں کو سونپ دیتے ہیں۔
اگر بین الاقوامی سطح پر جائزہ لیں تو ایسی
سرمایہ دارانہ کمپنیاں ہمیشہ اس قسم کے حکمتِ نظری کے دعویداروں(theoretical
protagonists) کو
سپورٹ کرتی نظر آتی ہیں اور ایسی ادبی و دانشورانہ محافل کو گرمانے کا فريضہ اعلیٰ
طریق سےسرانجام دیتی ہیں۔ 2018ء کے دوران، امریکہ میں ایک کانفرنس کے ایک سیشن میں
خوب دھواں دار قسم کے امریکی حکومت مخالف مقالہ جات سننے کے بعد راقم نے پینل میں
موجود شرکاء سے سوال کیا کہ ایک طرف تو ہمیں امریکہ کے شہرہ آفاق مزاحمتی دانشوروں
کی تفصیل ملتی ہے اور ہم عالمی جنوب کی یونیورسٹیوں کے دانشور اور اہلِ علم
ان کی خوب پذیرائی بھی کرتے ہیں، ان کی کتابیں خریدتے ہیں ان کو سراہتے ہیں اور یہ
کہ ایسے دانشوروں کی تعداد اور شہرت میں 1945ءکے بعد سے امریکہ میں اضافہ ہی ہوا
ہے۔
دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ
امریکی ریاست کی ظالمانہ انسان دشمن کاروائیوں میں ہیروشیما ناگاساکی سے لے
کر آج ڈرون وارفیئر اور زمین پر ہیل فائر مسلط کرنے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
تو ان دو حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے، یعنی ایک طرف امریکی مزاحمتی اور انقلابی
مفکرین (ناؤم چومسکی وغیرہ) کے شُہرہ میں اضافہ اور ان کے کام کی دنیا بھر میں
پہچان جبکہ دوسری جانب امریکی ریاستی ظلم و استبداد کے گراف کے اوپر جانےپر، آپ کا
کیا خیال ہے کہ اس طرح کے دانشور کامیاب ہیں یا ناکام؟
تو میرے اس سوال پر پینل میں
موجود شرکاء کا جواب تھا:”ہممم ۔۔بہت دلچسپ سوال ہے ۔اس پر غور کیا جانا چاہئے!“
میرے
نزدیک اس سوال کا جواب یہی ہے کہ سامراجی یونیورسٹی کا ماڈل انفرادی دانش کو جان
بوجھ کر پروموٹ کرتا ہے اور ایک ذہین نوجوان دانشور کو یہ ہدف دیتا ہے کہ وہ صرف
حکمتِ نظری کے میدان میں جھنڈے گاڑے، محض لفظی و فلسفیانہ موشگافیوں میں
الجھے، کتابیں چھاپے، ان کو بیچے، بک فئیرز اور لٹریچر فیسٹیولز کی زینت بنے
اور عملی نوعیت کے مسائل، نظام کے ظلم و جبراوراستبداد، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے
والے انسانی استحصال و دکھ درد سے پہلو تہی کرے، حکمتِ عملی او رکسی بھی
طریقے کی عملی جدوجہدپر ناک بھوں چڑھائے اور اپنی انجمن ستائشِ باہمی و ہتکِ
دیگراں کی محافل سجاتا پھرے ۔
آپ دیکھیے کہ پچھلے چند
سالوں میں ماحولیات پر مغربی یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام کا آغاز ہوا۔اگلے مرحلے
میں لٹریری ہیومینیٹیز (Literary Humanities) کے
شعبہ جات میں بھی اس موضوع پر بے شمار کام ہوا۔ اینوائرنمینٹل تھیوری باقاعدہ طور
پر ادبی تھیوری کا حصہ بن گئی۔ ایکو کریٹیسزم (eco-criticism)ادبی تنقید کا لازمی جز بن
گئی۔ ہمارے یہاں بھی اردو کے نقادوں نے اس پر کتب لکھیں۔ امیتاو گھوش، راب نکسن
اور نجانے کتنے شاندار لکھاریوں نے اس پر بے حد عمدہ تحاریر لکھیں۔ یونیورسٹیوں
میں انوائرنمنٹل سائنسز کے شعبہ جات قائم ہو گئے، بے شمار پی ایچ ڈیز اس شعبہ میں
ہونا شروع ہو گئیں۔ لیکن صورتحال کا جائزہ لیجیے کہ حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں
صرف 57 کمپنیز ایسی ہیں جو کہ 80فیصد ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہیں ہیں
اور 2016ء سے، یعنی جب سے یونیورسٹیوں میں اینوائرنمنٹ کے پروگراموں کا
غلغلہ ہواہے اور علمی تعمق کی انتہاء ہوئی ہے، اس وقت سےلے کر اب تک
ان 57 کمپنیوں کی امیشنز (emissions)کم ہونے کے بجائے بڑھی ہیں۔
حاصلِ
کلام یہ کہ دنیا کا نظام چلانے والوں نے باضابطہ طور پر دنیا بھر میں عقل و دانش
کے حامل افراد کو ایسے دھوکے اوردجل سے روشناس کروایا ہے کہ سب حکمتِ نظری کے
پیچھے لگےہوئے ہیں اور صدیوں پرمحیط انسان کی اجتماعی دانش کے سبق: ”علم عمل کے
بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوتا “کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ بادی النظر میں یہ بھی سامراجی و
سرمایہ دارانہ کمپنیوں اور دانشوروں/ یونیورسٹیوں کے درمیان ایک طرح کا دانشورانہ
کانٹریکٹ محسوس ہوتا ہےجس کے تحت سرمایہ اِن دانشوروں کے گلیمر و شہرہ میں اضافہ
کرے گااور ان کے اقبال کو بلند کرتا جائے گا جبکہ یہ (یونیورسٹیاں اور دانش
ور)عوام میں سوچنے سمجھنے والے طبقے کی توجہ کبھی بھی حقیقی استحصالی ساخت(exploitative
structures) تک
نہیں جانے دیں گے بلکہ ان کو لفظوں اور تخیل کی ساحری اور ان کی پوجا میں لگائے
رکھیں گے۔ جیسے ہومر کے ہاں سائرنز اپنی نغمگیں صداؤں سے ملاحوں کو ان کے وطن
پہنچنے کی جستجو بھلا دیتے تھے، ایسے ہی یہ لفظوں اور خیالات کے جادوگر،
انسانوں کوحکمتِ عملی و عملیت پسندی سے دور کھینچتے ہوئے عدل، امن و معاشی خوشحالی
و مساوات کے نظام قائم کرنے کی جستجو کو بھلانے اور بعض اوقات ایسی جدوجہد کو
بدنام (malign) کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔
اس
تحریر کا مقصد حکمتِ نظری کا انکار نہیں ہے بلکہ یہ یاد دہانی ہے کہ حقیقی حکمتِ
نظری وہی کہلائے گی جس میں حکمتِ عملی بھی شامل ہو۔ لہٰذا آج دنیا بھر کے انسانی
مسائل پر علمی طور پر غور و فکر کی تان اس بات پر ٹوٹنی چاہیے کہ ہاں یہ درست علم
ہے تو اس کے بعد عمل کا تقاضہ کیا بنتا ہے؟ اس علم کے حاصل کرنے کے بعد اب میری
زندگی میں کون سے نئے عمل کا اضافہ ہونا چاہیے ، کس پہلو سے میرے عمل میں نکھار
آنا چاہیے ؟ اگر ایک تھیوری کے بارے میں آگاہی حاصل کی ہے تو اس کو عمل میں لانے
کا طریقہ کار (process) کیا ہوگا؟ اس کا عملی تقاضہ کیا ہوگا؟ مثلا یہی
مثال لے لیجیے کہ دنیا کی 80 فیصد ماحولیاتی آلودگی ، 57 ملٹی نیشنل
کمپنیوں کی پیدا کردہ ہے اور یہ کہ ان کمپنیوں پر دنیا بھر کے علمی کام کا
کوئی اثر نہیں ہوا۔ تو اب اس کا عملی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ سرمایہ پرستی کی ہوس
جس کے تحت یہ کمپنیاں کام کرتی ہیں اس کے حوالے سے نہ صرف شعور حاصل کیا جائے بلکہ
سرمایہ پرستی کے اس عفریت کے آگے بند باندھنے کے لیے منظم ہوا جائے، لانگ ٹرم
پلاننگ کی جائے، عوامی شعوری قوت کو منظم کیا جائے، اس کی مختلف جہات کو سمجھا
جائے اور ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھا جائے کہ ایک منظم عوامی سیاسی قوت کی
بنیاد پر ایسی کمپنیوں کو انسانیت دشمنی کے کاموں سے اپنے قومی نظام کی طاقت سے
روکا جائے۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے شعوری عملی اقدامات کے دور رَس نتائج
پر تیقن و ایقان کے ساتھ استقامت سے عمل پیرا رہیں۔ عدل، امن اور معاشی مساوات کے
قیام کی علمی و عملی جستجو ہی وہ عظیم مقصد ہے جو ہماری انسانی نوعی ضروریات
کی تکمیل اور ہماری تشنگی کو دور کر سکتی ہے۔