سرمایہ داری نظام میں سرٹیفیکیشن (مقاصد و نتائج کا جائزہ)
سند کا حصول باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ اختیار کر گیا اور اس کے حصول کے لئے بہت سا سرمایہ بنیاد بن گیا
سرمایہ داری نظام میں سرٹیفیکیشن (مقاصد و نتائج کا جائزہ)
ڈاکٹر محمد عارف۔ بہاولپور
دنیا میں جب سے صنعتی نظام وجود میں آیا ہے،اس نےافراد کی صلاحیتوں کو ترقی دینے اور انسانی ضروریات پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔صنعت انسانی وحیوانی ضروریات پورا کرنے کا ایک مفید ذریعہ ہے۔بعدازاں صنعتی ترقی نے باقاعدہ ایک نظام کی شکل اختیار کی اور پھر یہ صنعتی ترقی سرمایہ داروں کے کنٹرول میں آتی چلی گئی۔
صنعتی ترقی نے انسانیت کے لیے آسانیاں پیدا کیں، لیکن صنعت کے مالکان نے سرمایہ کی ہوس میں ان فوائد پر قابو پانا شروع کر دیا۔آغاز میں صنعت سے حاصل ہونے والے سرمایہ کو قبضہ میں لیا گیا۔بعدازاں اس صنعت کے استعمال اور اس کی ایجادات پر قبضہ کرلیا گیا اور اجتماعی مفادات سے بالاتر ہوکر اس کی ایجاد اور استعمال پر اسناد کا پہرا بٹھا دیا جوکہ کاپی رائٹ (copy rights) کے عنوان سے لے کر اس کی سرٹیفیکیشن (certification) تک جاپہنچا۔
سرمایہ دارانہ نظام نے صنعتی ایجادات کے ساتھ ساتھ اسناد کی (سرٹیفیکیشن) کو بھی اپنے کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔دنیا میں ایجادات انسانوں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور یہ انسانیت کی مشترکہ میراث ہوا کرتی ہیں۔لیکن اس پر ایک گروہ کی اجارہ داری قائم ہونا ناقابل قبول ہے۔ایجادات انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہوتی ہے، لیکن ان ایجادات پر ایک مخصوص طبقہ کی اجارہ داری اجتماعی انسانی ضروریات پورا کرنے کے بجائے معاشرے میں محرومیوں کا باعث بن جا تی ہے۔
ایجادات کے ساتھ ساتھ کاپی رائٹ اور سرٹیفیکیشن کی اصطلاحات بھی ایجاد ہونا شروع ہوئیں اور آج یہ ایک توانا صنعت کی شکل اختیار کرچکی ہے اور اس پر ایک مخصوص طبقہ کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے۔ سند حاصل کرنا یقیناً ایک قابلِ عزت ہے اور سند حاصل کرنے کا مقصد صلاحیت بڑھانا ہونا چاہیے نہ کہ سند برائے عوامی استحصال ہو۔ہمارے ہاں امریکا اور یورپ کے اچھے اچھے اداروں سے سند یافتہ افراد موجود ہیں۔لیکن جیسے ہی وہ حکومتی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تو ان کی ساری صلاحیتیں ملکی کاروبار کے لیے صفر اور اپنے ذاتی کاروبار کے لیے منافع بخش ہوجاتی ہیں۔
آپ کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں یا تحقیقی و تخلیقی سرگرمیاں اختیار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ہوگا۔یعنی آپ کو اس کا اجازت نامہ حاصل کرنا پڑے گا۔بہ صورت دیگر آپ قانون کی نظر میں مجرم قرار دے کر پابند سلاسل کر دیےجائیں گے۔اسناد حاصل کرنے کا یہ طریقہ ہر پیشے کے لیے مختلف ہے۔آپ کو طب میں دلچسپی ہے تو اس کا طریقہ کار اور ہے آپ انجینئر بننا چا ہتے ہیں تو اس کا طریقہ کار اور ہے۔ بات صرف سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے تک محدود نہیں، آپ کو ایک مجاز ادارے سے باقاعدہ کام کرنے کے لیے رجسٹریشن کرانا ہوگی۔اور ایک لائسنس حاصل کرنا ہوگا۔مزید برآں آپ کو ہر ایک مخصوص عرصے کے بعد اس کی تجدید کروانا ہوگی۔یقیناً ان سب پابندیوں سے اصل اور نقل میں تمیز ہوسکتی ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب پابندیوں کے باوجود کیا جعل سازی ختم ہوگئی ہے؟ آج دنیا کے طاقت ور ترین ملکوں میں بھی جعل سازی موجود ہے۔ اس کا اظہار بہت ساری سرکاری اورغیر سرکاری تنظیمیں اپنے سروے کے ذریعے کرتی رہتی ہیں۔
ماضی قریب میں پاکستان میں بھاری معاوضوں کے عوض اسناد کے ایک بہت بڑا سکینڈل سامنے آیا۔اور پھر ختم ہو گیا۔کیوں کہ کے اس سے مستفید ہونے والے بڑے بڑے سرمایہ دار تھے اور جن لوگوں کو اسناد فراہم کی گئیں وہ ایک ورکر کے طور پر مستفید ہونے والے افراد تھے۔اسناد کے اس عمل کو اعلیٰ معیار کے مطابق ہونا چاہیے نہ کہ بڑی بڑی رقم کے عوض اسناد دی جائیں۔
آج تعلیم حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔حال آں کہ جدید دور کی بدولت اس کی رسائی عام کی جاتی۔ لیکن اس پر سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت نے اس کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کر دیا ہے۔اسناد کا حصول تعلیم کے حوالے سے کمرشل ازم کا شکار ہوا ۔آج اسناد کی سرٹیفیکیشن کا عمل باقاعدہ ایک منافع بخش کاروبار کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔تعلیم اور ہنر کی سند تو سمجھ آتی ہے، لیکن جانوروں کے ویکسین کی سرٹیفیکیشن کے ساتھ ساتھ اب انسانوں کی ویکسین کی سرٹیفیکیشن بھی لازمی قرار دے دی گئی ہیں۔ سرٹیفیکیشن کا یہ سلسلہ اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ اب اداروں کی سرٹیفیکیشن بھی لازمی ہوگئی ہے۔مثلاً ISO کی طرح بہت سارے سرٹیفیکیٹ دینے والے ادارے بھی وجود میں آگئے ہیں، مثال کے طور پر ایک ٹیکسٹائل ملز کو کئی طرح کے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے پڑتے ہیں، تب جا کر اس کی بنائی ہوئی اشیا کو فروخت کیا جاسکتا جاتا ہے۔
سرٹیفیکیشن کا جو نظام آج معرض وجود میں آیا ہے یہ بہت احسن ہے۔لیکن اس سرٹیفیکیشن کو باقاعدہ منافع بخش صنعت کا درجہ حاصل ہونے سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔آپ کوئی ہنر سیکھ کر اس وقت تک بے کار ہیں، جب تک اس کی سرٹیفیکیشن نہ ہو۔ماضی میں ہنر کی سند استاد کی تربیت اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ قابلیت ہوتی تھی۔ لوگ استاد کا نام اپنے ساتھ منسلک کرتے تھے اور اسی بنیاد پر اس کے ہنر سے باقی لوگ مستفید ہوتے تھے۔
سرٹیفیکیشن کا عمل اسناد کو قانونی حیثیت دینے اور معیار قائم کرنے کی حد تک تو بہترین ہے۔لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں سرٹیفیکیشن کے اس عمل کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کردیا ہے،جس نے اس کے معیار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔اس پر سرمایہ دار طبقہ کی اجارہ داری کے مقاصد لوٹ کھسوٹ ہے اور یہ عمومی مفاد کے خلاف ہے۔یقیناً یہ عمل اسی وقت مفید ہو سکتا ہے۔جب یہ مفادعامہ سے ہم آہنگ ہو اور قومی اداروں کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچے۔