حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ (حالات و تعلیمات)
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ
(حالات و تعلیمات)
تحریر: وسیم اعجاز، کراچی
برعظیم پاک و ہند میں ولی اللّٰہی اَفکار کے فروغ میں جن اکابرین نے نمایاں کردار ادا کیا، ان میں ایک اہم نام حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا ہے، جنھوں نے نہ صرف یہ کہ دین اسلام کی تعلیمات کو علمی و عقلی بنیادوں پر واضح فرمایا، بلکہ عملی میدان میں بھی برعظیم کی آزادی کے لیے کردار ادا کیا۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ اسی عظیم ہستی کے پوتے ہیں۔ وہ محرم الحرام ۱۳۱۵ھ/ 1897ء میں دیوبند میں مولانا محمداحمد قاسمیؒ کے ہاں پیدا ہوئے۔ تعلیم کے حصول کی غرض سے دارالعلوم دیوبند میں داخل کروائے گئے، جہاں سے 1918ء میں سند ِفراغت حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ، مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانیؒ، مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ، مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ، مولانا سیّد اصغر حسینؒ، مولانا انور شاہ کاشمیریؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ اور ان کے والد ِگرامی مولانا محمداحمدؒ شامل ہیں۔
دارالعلوم دیوبند میں قیام کے دوران ہی مولاناؒ کو حضرت شیخ الہندؒ کے ساتھ مناسبت پیدا ہوگئی تھی۔ حضرت شیخ الہندؒ کی توجہ سے ولی اللّٰہی علوم و افکار آپؒ پر واضح ہوئے اور ان میں سوچ و بچار کا آغاز ہوا۔ حضرت شیخ الہندؒ کے مالٹا تشریف لے جانے کے بعد آپؒ کا دلی تعلق حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ سے محبت کا ہوگیا تھا، جس کا اظہار اُن کے انتقال پر قاری صاحبؒ کے مرثیے کے ان اشعار سے ہوتا ہے ؎
وہ دل جس میں تمنائے لِقا تھی ، ہائے! اب گھر ہے
اَلم کا ، رَنج کا ، اَندوہ کا ، حِرمان کا ، غم کا
فراقِ یار میں مضمر ہے وَصلِ یار کی دولت
مِری آنکھوں میں ہے ہر وقت نقشہ قطبِ عالم کا
حضرت عالی رائے پوریؒ کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے ساتھ بھی آپؒ کا عقیدت کا تعلق تھا۔حضرت شیخ الہندؒ کے وصال کے بعد ارادت کا تعلق مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ساتھ قائم فرمایا۔
1922ء میں حضرت قاری صاحبؒ کی علمی و انتظامی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے دارالعلوم کی مجلس شورٰی نے انھیں ادارے کے نائب مہتمم کی ذمہ داری تفویض کی۔ مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ کی قیادت میں قاری صاحبؒ نے اس ذمہ داری کو بہ خوبی نبھایا۔ 1929ء میں مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ کے وصال کے بعد ادارے کے مہتمم کی ذمہ داریاں بھی ان ہی کے حصے میں آئیں، جنھیں انھوں نے بہ حسن و خوبی سرانجام دیا۔ قاری طیب صاحبؒ کے دورِ انتظام میں ادارے میں انقلابی تبدیلیاں لائی گئیں، جو ان کی انتظامی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جن میں نمایاں کام اساتذہ کی پنشن کا اجرا، ٹیم ورک کے اصولوں پر شعبہ تنظیم وترقی کا آغاز، ماہنامہ رسالہ ’’دارالعلوم‘‘ کا آغاز، طلبا کے لیے فزیکل ایجوکیشن اور کیلی گرافی کے شعبے کی بنیاد وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ قاری طیب قاسمی صاحبؒ کے دورِ اہتمام میں دارالعلوم دیوبند کے مرکز نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی۔ اس مادرِ علمی کی شہرت کے باعث دور دراز سے لوگ حصولِ تعلیم کے لیے یہاں آتے تھے۔ اس کثیر تعداد کی تعلیم و تربیت اور انتظامات کے لیے انھوں نے ان تھک محنت کی۔ اساتذہ کی تدریسی صلاحیت کو نکھارنے کے لیے ان کی تربیت پر خاص توجہ دی۔
امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ 1939ء میں جب ہندوستان واپس تشریف لائے تو حضرت قاری طیب قاسمیؒ نے اِصرار کے ساتھ دارالعلوم دیوبند میں اُن سے حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی معرکۃ الآرا کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ پڑھانے کی درخواست کی۔ چناںچہ دارالتفسیر دارالعلوم دیوبند میں حضرت سندھیؒ نے یہ کتاب پڑھانا شروع کی، جس میں حضرت قاری صاحبؒ نے بھی امام انقلاب حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ سے سبقاً سبقاً یہ کتاب پڑھی اور ولی اللّٰہی علوم و معارف میں کمال حاصل کیا۔
مذکورہ دور برعظیم کی سیاسی تاریخ کا ہنگامہ خیز دور تھا۔ اس دور میں تحریکِ آزادی اپنے عروج پر تھی۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کی سربراہی میںدیگر علمائے کرام جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے اس تحریکِ آزادی میں سرگرم تھے۔ 1942ء میں مولانا مدنیؒ کی گرفتاری کی خبر کے بعد ان کی رہائی کے لیے مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ کی سربراہی میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو اساتذہ سمیت طلبا نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حضرت قاری صاحبؒ نے جمعیت علمائے ہند میں بھی بڑا سرفروشانہ کردار ادا کیا۔ اسی سلسلے میں اپریل 1944ء میں جمعیت علما صوبہ سندھ کے اجلاس منعقدہ حیدرآباد سندھ میں انھوں نے بڑا جامع خطبہ صدارت ارشاد فرمایا۔ اس موقع پر حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ بھی تشریف فرما تھے۔ انھوں نے حضرت قاری صاحبؒ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کھڑے ہوئے کر اعلان فرمایا کہ: ’’میں خطبہ صدارت سننے ہی کے لیے شریکِ اجلاس ہوا تھا۔ اب میرا دل ٹھنڈا ہے۔ آپ نے اپنا خاندانی پیغام پہنچا دیا‘‘۔ (خطباتِ حکیم الاسلام، ج:4، ص: 268)
1947ء میں تقسیم ہندوستان کے دوران جب فسادات کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلمانوں کی اعانت کا بندوبست کیا جائے۔ اس صورتِ حال میں انھوں نے صوبہ بہار کے متاثرین کے لیے مالی اعانت کا بندوبست کروایا۔ اسی دوران پاکستان تشریف لائے، لیکن کچھ عرصے بعد بہ وجوہ دیوبند واپس جانے کو ترجیح دی۔ 1949ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کی مجلس میں رکن کے طور پر قاری طیب صاحبؒ کو منتخب کیا گیا۔ اس طرح انھیں یہ موقع ملا کہ علی گڑھ اور دیوبند کے درمیان تعاون کا آغاز ہو۔ یہ شیخ الہندؒ کے مشن کا ایک خاص حصہ تھا، جس کے لیے انھیں کام کرنے کا موقع ملا۔ 1972ء میں ہندوستان میں مسلم عائلی قوانین کے تحفظ اور ان کے نفاذ کے لیے ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ کا قیام بھی انھیں کی کوششوں ہی کی بدولت ممکن ہوا، جس میں ملک بھر کے تمام طبقہ فکر کے نمائندے موجود تھے۔ قاری صاحبؒ اس بورڈ کے پہلے متفقہ صدر بھی نامزد کیے گئے۔یہ نامزدگی ان کی علمی قابلیت کا حکومتی سطح پر اعتراف بھی تھا۔
مولانا موصوفؒ کا پہلاسب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کے دورِ اہتمام میں دارالعلوم دیوبند نے بہت ترقیات حاصل کیں۔ دارالعلوم اساتذہ اور طلبا کے لیے ہر دل عزیز ادارے کے طور پر متعارف ہوا۔ قاری صاحبؒ نے دنیا بھر کے متعدد ممالک کے دورے کیے اور تقسیم ہند کے بعد کئی دفعہ پاکستان بھی آئے۔ ان کی دوسری بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ افکار و نظریات، جن کا تعارف ہمیں حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی متعدد کتابوں میں ملتا ہے، ان کو عام فہم انداز میں عوام و خاص کے سامنے پیش فرمایا۔ اپنے عہد میں وہ بلاشبہ ’’حکمتِ قاسمیہ‘‘ کے ترجمان اور شارح تھے۔ مولانا طیب قاسمیؒ کے خطبات میں عوام کی اصلاح اور اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے اور اسلام کی تعلیمات کو عقلی بنیادوں پر انتہائی سہل انداز میں پیش کرنے کے موضوعات شامل ہیں۔ مولاناؒ نے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار کو آسان انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ ان کی تحریر، تقریر، تصانیف اور مجالس وغیرہ میں ولی اللّٰہی رنگ کچھ اس انداز سے غالب تھا کہ انھیں سننے اور پڑھنے والا ان سیاسی، معاشی اور سماجی تصورات کو بہت اچھے انداز سے سمجھ لیتا ہے۔
1980ء میں صحت کی کمزوری کے باعث دارالعلوم دیوبند کے اہتمام کی ذمہ داری نبھانے سے معذرت کرلی تھی، البتہ درس و تدریس میں تادمِ آخر پیش پیش رہے۔ علم و معرفت کے گلشن کے اس مالی نے ۶؍ شوال ۱۴۰۳ھ / 17؍ جولائی 1983ء کو داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ ان کی تدفین قبرستانِ قاسمی دیوبند میں ان کے دادا کے پہلو میں کی گئی۔
(بحوالہ : ماہ نامہ رحیمیہ لاہور، ستمبر 2020ء)