کرونا وائرس, عذاب الٰہی یا انسانی آفت
خدا کسی بھی قوم پر عذاب تب تک نازل نہیں کرتا جب تک وہ قوم خود عذاب کو دعوت نہ دے۔
کرونا وائرس, عذاب الٰہی یا انسانی آفت
تحریر: محمد عقیل وٹو، راولپنڈی
دنیا اس وقت کرونا وائرس سے نمٹنے میں مصروف ہے جسے وبائی مرض کا نام دیا گیا ہے۔ یہ حرام جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی وائرل بیماری ہے۔
مبینہ طور پہ چین سے پھیلی خوف و ہراس کا باعث بننے والی یہ بیماری انسان کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے ۔ یہ وبا کیسے پھوٹی، اس کا دائرہ کار کیا ہے، احتیاطی تدابیر کیسے اختیار کریں؟ یہ زیرِ بحث لانا اس وقت میرا مقصد نہیں۔
میری بات بحیثیت مسلمان ذمےداری سے متعلق ہے.
سب سے پہلے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم مسلمانوں اور خدا کے مابین تعلق میں یہ وائرس کس قدراثرانداز ہے. اور اس وقت ہم کس نہج پر ہیں ؟
جب تک یہ وبا چین تک محدود تھی تب تک مسلم اقوام ایک منکر خدا ملک پر اسے اللہ کا عذاب گردانتے رہے لیکن اب یہ وبا نا صرف پاکستان بلکہ دیگر مسلم ممالک میں بھی پھیل رہی ہے جس کے خوف سے طواف کعبہ بھی روک دیا گیا ہے. جبکہ مسلمان اللہ کو ماننے والے ہیں پھر مسلمانوں پر یہ اللہ کا عذاب کیسے ؟ ہماری مسجدیں نمازیوں سی بھری ہوتی ہیں، ہم روزے بھی رکھتے ہیں، حسبِ استطاعت عمرہ اور حج بھی ادا کرتے ہیں پھر آخر یہ سب کیا ہے؟
یہ اس لیے ہے کہ ہم نے اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈال کر چند مذھبی رسومات تک اپنے آپ کو محدود کر دیا اور اللّٰہ کے عادلانہ نظام پر سرمایہ دارانہ نظام کو ترجیح دی ہے.
سرمایہ دارانہ نظام انسانی محنت پر سرمائے کو فوقیت دیتا ہے۔ جس سے محنت اور محنت کرنے والے کی اہمیت کم ہوجاتی ہے. اس نظام میں محنت کش طبقے کی بنیادی ضروریات کی بھی کوئی ضمانت نہیں, جس کی وجہ سے ہم آج صحت اور تعلیم کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ تعلیم کا مقصد چند رسمی ڈگریوں کا حصول رہ گیا ہے شعور نام کی کوئی چیز نہیں۔ بے شعوری کا یہ عالم ہے کہ سامراجی پروپگنڈے سے کرونا وائرس کو بھوت سمجھ کر اسے وظائف سے مار رہے ہیں۔ ہمارے ہاں صحت سے متعلق معمولی اشیا کا فقدان ہے کرونا سے کیا نمٹیں گے؟مصیبت آنے سے پہلے سد باب کرنا بہتر ہوتا ہے یا مصیبت آنے کے بعد واویلا مچانا ؟ صرف پاکستان ہی نہیں ایشیا اور یورپ اس وبا کے آگے بے بس نظر آرہےہیں ۔
ہماری حالت یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد کماتا ہے لیکن پھر بھی پوری نہیں ہوتی۔کیوں کہ حقیقت میں اس نظام میں انسان اپنے لیے نہیں، سرمایہ پرست طبقے کے لیے کماتا ہے اور وہ سمجھتا ہے اس کی محنت کا صلہ اس کو مل رہا ہے۔ جب دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہو تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔
اس کے برعکس سوشلزم (چائنا نظام) نے انسان کو سرمائے پر اہمیت دی جس کا نتیجہ سامنے ہے کہ جسے ہم منکر خدا کہتے ہوئے نہیں تھکتے وہ اس وبا سے نمٹنے کے بعد اب ہم مسلمانوں کی مدد کے لیے آ چکے ہیں۔
کیپٹلزم سے تنگ آکر ان ممالک نے اینٹی کیپٹلزم نظام بنایا لیکن وہ نظام بھی مکمل ضابطہ حیات نہیں، مُلکی سطح پر وسائل کو کنٹرول کرنے اور اجتماعی ترقی کے استعمال کرنے میں ایک حد تک تو وہ کامیاب ہوئے لیکن بہت سے عوامل اب بھی حل طلب ہیں۔
کرونا وائرس کو عذاب الھی کہا جارہا ہے جبکہ عذاب الٰہی کی بہت سی صورتیں ہیں جن میں سے کچھ کو ہم عذاب سمجھتے ہی نہیں ۔ حشر میں کسی شخص کے گلے میں آگ کا طوق ڈال کر جہنم کی طرف دھکیلے جانے کے عذاب پہ تو ایمان رکھتے ہیں لیکن دُنیا میں بحیثیت قوم گلے میں غلامی کے طوق کو عذاب الھی کیوں نہیں سمجھتے.؟
جب کوئی قوم اللہ کی نیابت (خداپرستی اور انسان دوستی کے پروگرام) سے غفلت اور نافرمانی میں حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو اللہ ایسی قوم پر عذاب کی صورت میں دوسری قومیں مسلّط کر دیتا ہے۔
ضروری نہیں کہ کوئی قوم کسی دوسرے مُلک کی سرحد میں اپنی فوجیں داخل کرکے اس پر قابض ہو بلکہ اپنی سرحدوں میں بیٹھ کر یہ کام بہت آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ اور اس صدی میں کسی بھی مُلک کو اپنے زیرِ اثر لانے کا مؤثر ذریعہ اس کی معیشت کو کنٹرول میں لانا ہے۔ اب طاقتور مُلک کمزور ممالک کی معیشت کو کنٹرول کر رہے ہیں اور طاقتور ملکوں کی معیشت کو ملٹی نیشنل کمپنیاں کنٹرول کر رہی ہیں۔ یعنی دُنیا کا نظام یہ چند کمپنیاں ہی چلا رہی ہیں۔
پاکستان کا پہلا بجٹ آئی ایم ایف کے قرضے سے بنایا گیا اور تب سے لےکر اب تک قرضے لے لے کر مُلک چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیا اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا مقروض ہو تو قرض خواہ مقروض پر دھونس نہیں جمائے گا اور کیا قرض ادا نہ کر سکنے کی صورت میں کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرےگا؟۔ بلکل ایسے ہی 72 سالوں سے پاکستان امریکہ اور آئی ایم ایف سے قرضے لےکر بدلے میں اپنے وسائل پر تسلط کی اجازت دیتا آ رہا ہے۔
ہمارے حکمران عوام کی فلاح کے نام پر قرضہ لے کر اپنی عیاشیوں پر خرچ کر کے ہر سال کشکول اٹھائے آئی ایم ایف اور امریکہ کے دربار میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ اب کرونا سے نمٹنے کے لیے امریکہ کی 25 ممالک کے لیے ۳۷ ملین ڈالر کی امداد آرہی ہے. تو کیا امریکہ صدقہ جاریہ سمجھ کر دنیا کی مدد کر رہا ہے ؟
کرونا کے نام پر آئی ایم ایف اور امریکہ سے قرض یا امداد لیں گے تو یقینا ان کی کچھ اپنی شرائط ہوں گی۔ وبا سے تو ہم نمٹ لیں لیکن اس دیمک کا کیا کریں جو ہماری بنیادوں کو کھوکھلا کرتی جارہی ہے۔
کرونا عذاب الہٰی ہے یا نہیں !! لیکن سودی معیشت اور مقروض زندگی ضرور بالضرور عذابِ الٰہی ہے۔ حدیث میں ہے کہ مقروض کی نماز جنازہ قرض کی ادائیگی کے بغیر نہیں . جبکہ سودی لین دین کرنے والے سے اللہ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلی جنگ ہے . یعنے ہم بحیثیت قوم اللّٰہ سے جنگ کر رہے ہیں اور اس جنگ پر ہمیں سرمایہ دارانہ نظام نے مجبور کیا ہے۔ پوری دنیا کے وسائل لوٹ کر دولت چند ہاتھوں میں اکٹھی کرنا اور پوری دنیا کو اپنا باندی بنائے رکھنا، پہلے اپنی لیبارٹریز میں وائرس ٹیسٹ کرنے کے بعد دنیا میں پھیلا دینا اور ضرورت کے وقت مہنگے داموں اس کی ویکسین بیچنا اسی طرح ملکوں پر جنگیں مسلط کر کے اپنا اسلحہ بیچنا وغیرہ ، یہ سامراج کا انسانوں پر مسلط کردہ عذاب نہیں، تو کیا عذاب الھی ہے؟
اصل میں امریکا کی ظالمانہ حکومت کا وجود اور ہماری بے شعوری عذاب الھی کی صورت ہے. ہماری ذہنی سطح اتنی گر چکی ہے کہ ہم عذاب کی صورت اور اصل وجوہات کا شعور کھو چکے ہیں۔ اس آزمائش میں کیا ہمارے پاس ثابت قدم رہنے کی اہلیت ہے؟ چین نے جو کچھ کیا وہ اپنے بل بوتے پر کیا ، ہم تو فوراً قرض مانگنے پہنچ گئے۔
یاد رکھیے! خدا منصف کافر کا ساتھ تو دے سکتا ہے ظالم مسلمان کا نہیں۔ اور کرونا ہمیں یہی بتارہا ہے۔ یہ بغیر امتیاز کے ہر اس قوم پر حاوی ہو رہا ہے جو غفلت برت رہی ہے اور جس نے اپنے صحت کے انفراسٹرکچر کو مضبوط نہیں بنایا، ایسی قوم جو اپنے فرائض سےغافل ہو اس پر دوسری قوم حاوی ہو جاتی ہے۔
معاشرے سے ظلم ختم کرنے کے لیے آسمان سے کوئی مقدّس ہستی نازل نہیں ہوا کرتی بلکہ انسانوں کی ایک جماعت ہی اپنی ذمےداری سے یہ کام سرانجام دیتی ہے۔ آج ہر طرف کرونا سے بچاؤ کی مہم زور و شور سے جاری ہے ایک طرف اس کا خوف پھیلایا جارہا ہے, لوگوں کو گھروں میں بند رکھا جا رہا ہے، پورا ملک لاک ڈاؤن ہوچکا ہے اور غریب بیروزگار فاقہ کشی پر مجبور ہیں اس انسانی آفت سے نکلنے کا ہمارے پاس کوئی سامان نہیں. ایک آدھ رفاہی ادارے سے صدقات کے اہتمام کی صدائیں سننے میں آرہی ہیں اور بس!!
ہمیں چین سے ہی کچھ سیکھنا چاہیے تھا. اُس نے جو کچھ کیا مکمل پلاننگ سے حکومتی سطح پر کیا جہاں نا کوئی بھوکا مرا اور نا ہی کرونا بے قابو ہوا۔ یہی زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے.