پنچاب کے کامرس کالجز میں اساتذہ کی تعیناتی ایک دیرینہ مسئلہ
(19 سال کے وقفے کے بعد پنجاب میں 691 کامرس اساتذہ کی بھرتی)
پنچاب کے کامرس کالجز میں اساتذہ کی تعیناتی ایک دیرینہ مسئلہ
تحریر محمد ثاقب۔ ساہیوال
کچھ خبریں بولتی نہیں، بلکہ چیختی ہیں کہ معاشرے میں موجود افراد خوابِ غفلت سے جاگ جائیں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز کریں۔ آئیے ایک ایسی ہی خبر کا جائزہ لیتے ہیں۔
دی نیوزانٹرنیشنل اکتوبر 2023ء کے مطابق 19 سال کے بعد پنجاب گورنمنٹ کو خیال آیا کہ کامرس کالجز میں اساتذہ (انسٹرکٹرز)بھرتی کیے جائیں۔ابھی اشتہار (ایڈورٹائزمنٹ) کب آئے اور بھرتی کا عمل (ریکروٹمنٹ پراسیس) کب شروع ہو؟معلوم نہیں ۔ابھی تو صرف سوچ وبچار کا آغاز ہوا ہے۔
سوچنے والی بات یہ کہ آج سے 19 سال پہلے جس امیدوار نے 16 سولہ (بی ایس/ایم اے) یا 18 سالہ (ایم فل) تعلیم مکمل کی ہو۔ آج اس کی عمر کیا ہوگی ؟کیا وہ اس ملازمت کے لیے اپلائی کرسکے گا ؟تقریباً آج اس نوجوان کی عمر تقریباً 40 سال ہوگی۔ یہ ایک عام اندازہ ہے۔ کچھ بے روز گار شاید اس امید سے پی ایچ ڈی بھی کر چکے ہوں اور کچھ مایوس اور دل برداشتہ ہوکر ملک چھوڑچکے ہوں۔
ایک اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ جو تدریسی عملہ موجود ہے، اس کی تعداد 750 ہے اور جو آئندہ بھرتی کیا جائے گا، اس کی تعداد 691 ہے، یعنی سابقہ کم افرادی قوت کے ساتھ جو تعلیم دی گئی ہے۔اس کے معیار کی نوعیت کیا ہوگی۔ ایک طرف غریب بچوں کے لیے ملازمت کے دروازے بند ہیں اور دوسری طرف ان کے لیے اساتذہ بھی میسر نہیں۔علاوہ ازیں نئی بھرتیوں کا عمل مکمل ہونے تک موجود افراد میں سے کتنے ریٹائرمنٹ لے لیں گے یا کسی اور وَجہ سے چھوڑ جائیں گے۔نیز کیا نئی بھرتیوں کا عمل شفافیت پر مبنی ہوگا۔ غریب بے روزگار نوجوان رشوت اور سفارش کہاں سے لے کر آئے گا۔
کامرس کا علم معاشیات کی ایک عملی (اپلائیڈ) شکل ہے جو کہ انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ اور اس وقت المیہ یہ ہے کہ ملک کے معاشی نظام کو چلانے کے لیے اہل افراد کی شدید قلت ہے اور اس قلت کو پوراکرنے کے لیے بیرونی ممالک سے افراد کو رینٹ پر لایا جارہا ہے۔ یعنی ایک حکمت عملی کے تحت مقامی افراد کو کمزور اور لاچار بنایا جارہا ہے۔
یہ صرف ملک کے ایک صوبے کے اعلیٰ تعلیم کے محکمہ( کامرس کالجز) کی بات زیر غور ہے۔ باقی تعلیمی نظام کی کیا صورتِ حال ہوگی، یہ سوچ کر ہی پریشانی ہوتی ہے۔ حقیقت کتنی تلخ ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس کے برعکس اشرافیہ کے بچوں کے لیے الگ سے ادارے موجود ہیں۔ جب کہ اس زوال پذیرصورتِ حال کی ذمہ داری سوسائٹی کا کوئی اداراہ یا پارٹی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان درپیش سماجی مسائل کے حقیقی اسباب کو جاننے اور مروجہ نظام کی تاریخ کا بہ غور جائزہ لیں،کیوں کہ جذباتی اور سطحی ردعمل کے بجائےاس نظام کا شعوری تجزیہ ہی مثبت اورحقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔