عورت مارچ اور سامراجی ہتھکنڈے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • عورت مارچ اور سامراجی ہتھکنڈے

    سامراج عورت مارچ کے ذریعہ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر کو تقسیم کرنا چاہتا ہے تاکہ آنے والی نسل کو تباہ وبرباد کر کے اپنا تسلط قائم رکھ سکے۔

    By Umer Iltaf Published on Mar 07, 2020 Views 2975
    عورت مارچ اور سامراجی ہتھکنڈے
    تحریر : راجہ عمر الطاف ایڈووکیٹ

    انسانی زندگی کی اساس وحدت پر ہے۔ یہی وحدت اس کی ترقی کی ضامن ہے۔ انسانی اجتماع کو جب بھی کبھی سماجی زندگی کا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوا تو اسی وحدت نے ہی اسے اس مسئلے کا حل سمجھایا۔ وہ قومیں کبھی ارتقائی مراحل طے نہیں کر سکتیں جو انسانیت میں کسی بھی قسم کی تقسیم کا باعث ہوں۔ انسانیت بھی ایک وحدانی چیز ہے۔ جس میں کسی بھی قسم کی تقسیم زہر قاتل ہے۔
    انسانی نظریات کی  وجہ سےسامراج کو جب جب اپنے وجود کا خطرہ لاحق ہوتا ہے تو وہ انسانیت کو تقسیم کرتا ہے۔ یہ تقسیم اس کے خلاف پیدا ہونے والی طاقت کو کمزور کرتی ہے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ  یہ تقسیم پہلے مذہبی بنیادوں پر کی گئی پھر لسانی، اور اب اس کا رخ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر (میاں بیوی) یا خاندانی زندگی پر ہے۔ 
    بنیادی اکائی کے مضبوط ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اچھی نسل کی نشوونما کی جائے، جس نے کل ملک وقوم کی ترقی کے لیے کردار ادا کرنا ہے۔ موجودہ دور کا چیلنج یہ ہے کہ سامراج کی نظر اب یہاں کے مضبوط خاندانی زندگی پر ہے۔ وہ اسے تباہ و برباد کر کے آنے والی نسل کو ذہنی مریض بنانا چاہتا ہے۔تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ جو بچے ماں باپ دونوں کے زیر سایہ نہیں پلتے وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 
    لمحہ فکریہ یہ ہے کہ سماج کی اسی اساس کو نقصان پہنچانے اور سامراجی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے عورت مارچ کا انعقاد کروایا جانے لگا ہے۔ عورت کو مرد اور مرد کو عورت کے مد مقابل لا کر کھڑا کر دیاگیا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مرد اور عورت میں ظاہری فرق نسل انسانیت کی بقا کے لیے رکھا گیا ہے اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ کسی کو دوسرے میں برتری ہے۔ سماجی حوالے سے دونوں برابر درجے کے انسان ہیں اور دونوں اشرف المخلوقات ہیں۔ کس کو دوسرے پر کوئی برتری نہیں ہے۔ میاں بیوی کے آپس کے معمولات باہمی رضامندی سے طے ہونے چاہییں اور دین اسلام بھی یہی درس دیتا ہے۔
     آج جو مرد اور عورت دونوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہاں کا سامراجی نظام ہے۔ اگر اسلامی نظام ہوتا تو صورت حال اس کے برعکس ہوتی۔ اسلامی نظام کی تشکیل کے لیے ایک اچھی تربیت یافتہ باشعور نسل کی ضرورت ہے۔ سامراج نہیں چاہتا کہ یہ اچھی نسل تیار ہو سکے اور اس کی سامراجیت ختم ہو۔ اسی لیے یہ سارے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ان ہتھکنڈوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کی کھودی ہوئی نہر میں بہنے کے بجائے کھلے ذہن سے تجزیہ کریں اور اپنی آنے والی نسل کو بچائیں۔
    ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر اس سامراجی چال کو سمھجیں جو ہمارے سماج، ہماری اقدار اور ہماری روایات سے ہٹ کر ہے۔ اور ہمیں تنزل کی جانب لے کر جانے والی ہے۔ ایسے باشعور اجتماع کے قیام کی اشد ضرورت ہے جو سماجی زندگی کی ان دونوں اکائیوں کو ساتھ لے کر چلے۔ ایسی اجتماعیت پیدا کریں جو اس تقسیم انسانیت کے پروگرام کے لیے مزاحمتی شعور بیدار کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وحدت انسانیت کے پروگرام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
    Share via Whatsapp