تعلیمی نظام کی ضرورت و اہمیت
تعلیمی نظام کا تجزیہ اور اس کے اثرات
تعلیمی نظام کی ضرورت و اہمیت
تحریر: محمد منور اقبال، بہاول پور
کسی معاشرے کی حقیقی ترقی عادلانہ اجتماعی نظام کے قیام کی بدولت ہوتی ہے۔اجتماعی نظام کے قیام کےلیے تعلیمی نظام کا اہم کردار ہوتا ہے۔ معاشروں میں ایک صالح نظام تعلیم، بہترنظم و نسق کی بنیاد بنتا ہے۔ سماج میں نئے زاویوں سے سوچنے اور نئے پہلوؤں پر غور و فکر کا عمل تیز تر ہوتا ہے اور نت نئی ایجادات سے ترقی و خوشحالی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ ایک تعلیم یافتہ نسل اپنے سماجی مسائل کو بہترین انداز میں حل کرنے پر قادر ہو تی ہے۔ گویا سماجی تشکیل کے ہر مرحلے میں تعلیمی نظام کی ضرورت و اہمیت مسلمہ رہتی ہے جسے کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک کامیاب ریاست اور ترقی یافتہ سماج کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ اس کے ہر ادارے میں ذمہ داری سر انجام دینے والے فضلاء، ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ، وکلاء، اور علماء دین یکساں تعلیمی نظام سے ہی فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور ایک مربوط سماجی ڈھانچے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
ایک قومی نظام تعلیم دو مقاصد کے تحت کام کرتا ہے ۔افراد میں شعبہ جاتی مہارت (Skills) پیدا کرنا تاکہ وہ ایک مخصوص شعبہ زندگی میں مہارت پیدا کرسکیں
دوسرا قومی و اجتماعی شعور منتقل کرنا تاکہ شعبہ جاتی مہارتیں انفرادی دائرہ زندگی سے آگے بڑھ کر قومی و اجتماعی دائرے میں نتائج پیدا کرنے کے قابل ہو سکیں۔جبکہ ایک طبقاتی نظام تعلیم، مذکورہ دونوں پہلوؤں سے مطلوبہ نتائج دینے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے.
چنانچہ کسی قومی سوچ سے عاری ہونے کی بنا پر ایک فرد کی تمام تر استعداد اور لیاقت و مہارت محض انفرادی سوچ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اورایک ماہر فرد قوم و ملک کی بجائے محض اپنے مفاد کا اسیر ہوجاتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک نہایت ماہر ڈاکٹر جو طریقہ علاج پر تو مکمل عبور حاصل کرلیتا ہے مگر جذبہ خدمت اور اجتماعی سوچ سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ بعض اوقات ایک لٹیرےکاروپ دھار لیتا ہے ۔
اسی طرح بعض اوقات ایک شخص اپنے تئیں کسی درجہ قومی جذبہ سے تو پیدا کرلیتا ہے مگر اپنے کام میں مہارت نہیں رکھتا تو وہ کسی قابل ذکر سماجی خدمت سے محروم رہ جاتا ہے۔
لہذا کسی بھی تعلیمی نظام کی کارکردگی جانچنے کےلیے مذکورہ بالا دونوں پہلؤوں سے جائزہ لینا ضروری ہے.
حقیقت تو یہ ہے کہ ایک صالح قومی تعلیمی نظام کسی خطے میں بسنے والے افراد کو ایک حقیقی قوم کی شکل میں ڈھالنے کا باعث بنتا ہے اور اسی کے نتیجے میں قوم ایک سیسہ پلائی دیوار کی صورت سامنے آتی ہے۔ اس کے افراد خود غرضی اور مفاد پرستی سے بالاتر ہو کر قومی اور اجتماعی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہو کر اقوامِ عالم میں اپنی اخلاقیات اور ترقی کا لوہا منواتے ہیں۔
تعلیمی نظام کے زریعے افراد میں مہارت اور قومی سوچ پیدا کرنے کے اس عمل کا جائزہ لینے کے لیے دو پہلو پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔
نصاب تعلیم
اور
طریقہ تعلیم
یعنی تعلیم کا معیار کیاہے اور اسے منتقل کیسے کیا جارہا ہے؟
ان امور کو پیش نظر رکھ کر ہم اپنے تعلیمی نظام کا بغور جائزہ لے سکتے ہیں اور بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ہر دو پہلؤوں سے ہمارا تعلیمی نظام اپنے حقیقی مقاصد کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
اس نظام تعلیم کے نتیجے میں اگر کسی درجے مہارت منتقل ہو بھی جائے مگر قومی سوچ اور اجتماعی رویے سرے سے ناپید دکھائی دیتے ہیں ۔ چناچہ جیسے جیسے لوگوں میں شرح خواندگی بڑھ رہی ہے ویسے ہی خود غرضی اور انفرادی سوچ بڑھتی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے آج ہم اپنے سماجی مسائل حل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
دنیا کے بیشتر ممالک اپنے بہتر تعلیمی نظام کی بنیاد پر سائنس و ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے ہیں۔اس دور کے بہت سے ممالک معاشی برتری حاصل کرنے،سائنس و ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے اور خود کو ایک طاقت کے طور پر منوانے کے لیے اپنے تعلیمی نظام کو نہایت جدید خطوط پر آراستہ کر نے میں مصروف عمل ہیں ۔ بنگلہ دیش اس کی بہترین مثال ہے۔ جس نے تعلیمی نظام کو درست بنیادوں پر قائم کر کے اقوامِ عالم میں اپنی حیثیت منوائی ہے۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ ہم ابھی تک ایسا تعلیمی نظام قائم کرنے سے قاصر ہیں اور قوموں کا مقابلہ کرنا تو دور کی بات ابھی تک اپنے بنیادی سماجی مسائل کا ادراک کرنے میں ہی ناکام رہے ہیں.
اگر ہمیں دنیا کی قوموں میں ایک باوقار حیثیت میں اپنا وجود برقرار رکھنا ہے تو ہمارے حکمرانوں کو اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔
آج ہمیں ایک ایسےغیر طبقاتی اوریکساں تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو ہمیں قوموں کی صف میں ممتاز حیثیت دلوا سکے.