سیرتِ رسول ﷺ کا سماجی پہلو اور تبدیلیِ نظام - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سیرتِ رسول ﷺ کا سماجی پہلو اور تبدیلیِ نظام

    آج کے پرفتن دور میں متلاشیِ حق پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ وہ حق اور باطل کی پہچان کرنے سے قاصر ہے۔

    By محمد عثمان Published on Oct 13, 2020 Views 3912
    سیرتِ رسول ﷺ کا سماجی پہلو اور تبدیلیِ نظام
    تحریر: محمد عثمان بلند۔ کہوٹہ راولپنڈی

    تمام انبیا علیھم السلام نے اپنے دور کے ظالم حکمران اور ان کے قائم کردہ ظالم نظام کے خلاف مزاحمتی شعور کی بنیاد پر صالح اجتماعیت قائم کی, اس اجتماعیت کی تربیت کی, اس کو منظم کیا۔ اس باشعور, منظم, تربیت یافتہ اجتماعیت کے ذریعے رائے عامہ ہموار کی, نظامِ ظلم کا خاتمہ کیا اور نظامِ عدل کا قیام کیا۔
    نبیِ آخر الزماں حضرتِ محمدﷺ نے بھی اپنے پیشرو انبیا علیھم السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے وقت کے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے لیے باشعور اجتماعیت قائم کی اور اسی تربیت یافتہ اور منظم جماعت کے ذریعے نظامِ ظلم کا خاتمہ  اور نظامِ عدل کا قیام کیا۔
    اس حوالے سے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں انبیا علیھم السلام اور بالخصوص حضرت نوح علیہ السلام, حضرت ابراہیم علیہ السلام, حضرت یوسف علیہ السلام, حضرت موسی علیہ السلام, حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرتِ محمدﷺ کی جدوجہد کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ ہے سیرتِ انبیا علیھم السلام کا وہ سماجی پہلو جو آج کے متلاشیِ حق کی نظروں سے اوجھل ہے یا اوجھل کر دیا گیا ہے۔
    اب انبیا علیھم السلام اور بالخصوص خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی اس شعوری جدوجہد کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن کی بنیاد پر ہم اپنے دور کے لیے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں
    آج کے پرفتن دور میں متلاشیِ حق پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ وہ حق اور باطل کی پہچان کرنے سے قاصر ہے۔ ملکِ پاکستان کے طول و عرض میں بے شمار جماعتیں ہیں جو مختلف عنوانات سے سر گرمِ عمل ہیں۔ لیکن اب کیسے معلوم کیا جائے کہ کون ٹھیک ہے اور کون غلط کیونکہ حق کے دعویدار تو سب ہیں اور بظاہر تمام کے تمام میدانِ عمل میں مصروف نظر آتے ہیں۔
    اس کے لیے پھر یقینا کسی مکمل اور جامع نمونہ کی موجودگی لازم ٹھہری ہے جس کی بنیاد پر ایسے اصول متعین کیے جاسکیں جو آج کے انتشار کے دور میں بھی ہماری رہنمائی کر سکیں۔ یہ سائنٹیفک طرزِ عمل بھی ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے پہلے آئیڈیل ماڈل تشکیل دیا جائے اور پھر اس ماڈل سے اخذ کیے گئے اصولوں کی روشنی میں موجودہ مسئلے کو حل کیا جائے۔
    سماجی مسائل کے حل کے لیے ایک پرفیکٹ اور آئیڈیل ماڈل کے طور پر حضرتِ محمدﷺ  کے اسوہِ حسنہ کے علاوہ ایک مسلم سوسائٹی میں, ایک مسلمان کے لیے اور کیا نمونہ ہو سکتا ہے جن کی مقدس ہستی کے بارے میں خود قرآنِ کریم کا اعلان ہے:
    لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ
    آئیے دیکھتے ہیں کہ اس مقدس اسوہِ حسنہ کے وہ کون سے سنہری اصول ہیں جن کی بدولت ہم آج کے سماج کے مسائل کو حقائق کی بنیاد پر سمجھ کر اس کے حل کے لیے درست سمت میں جدوجہدکر سکتے ہیں یا درست سمت میں سرگرمِ عمل اجتماعیت کو پہچان کر اس کے رفیقِ عمل بن سکتے ہیں
    سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ انسانی سماج کسی فکر و فلسفہ اور اس کے تحت بنائے گئے قوانین و ضوابط اور معاہدات کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اسی فکر و فلسفہ, اصول و ضوابط اور معاہدات کو نظام کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اس فکرو فلسفہ, قوانین و ضوابط اور معاہدات کی عملی تشکیل کے لیے اداروں کی موجودگی بھی ضروری ہے۔ کسی بھی نظام کی عمارت تین اداروں پر استوار ہوتی ہے 
    ١۔ مقننہ (پارلیمنٹ)
    ٢۔ انتظامیہ (بیوروکریسی)
    اور
    ٣۔ عدلیہ
    پھر یہ تعین بھی ضروری ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں کہ جن کی بنیاد پر کوئی بھی نظام ظالمانہ قرار پاتا ہے۔ 
    قرآنِ حکیم میں بارہا مقامات پر اس چیز کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جب معاشرے پر مجموعی طور پر بھوک اور خوف مسلط ہو تو سماج میں طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں انارکی اور انتشار پیدا ہوتا ہے جو لامحالہ فساد فی الارض کا باعث بنتا ہے۔ اس صورتحال میں مجموعی انسانی ترقیات کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے اور انسانیت زوال کی طرف گامزن ہو جاتی ہے۔ انسانیت کا تعلق اپنے رب سے کٹ جاتا ہے اور مجموعی طور پر سوسائٹی شرک میں ملوث ہو جاتی ہے۔
    اس مجموعی فساد سے بچاؤ کے لیے وسائل کی منصفانہ تقسیم کسی بھی نظام کا فرضِ اولین ہوتا ہے چونکہ درج بالا صورتحال وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہوتی ہے اور نظام اپنے بنیادی فرض کی ادائیگی میں غفلت کا مرتکب ہوتا ہے اس لیے فرسودہ اور ظالمانہ قرار پاتا ہے۔
    وسائل کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے چند نصوصِ قرآنیہ پیشِ خدمت ہیں
    ١۔ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا 
    ترجمہ:- وہ ذاتِ پاک ہے جس نے تمہارے لیے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے۔
    ٢۔ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَن لَّسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ
    ترجمہ:- اور ہم نے تمہارے لیے زمین میں معیشت کے سامان بنا دیے اور ان کے لیے جن کو تم روزی نہیں دیتے۔
    ٣۔ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ
    ترجمہ:- تاکہ ایسا نہ ہو کہ مال و دولت صرف دولتمندوں ہی میں محدود ہو کر رہ جائے۔
    نظام کی مکمل فرسودگی کا مطلب ہےکہ درج بالا ادارے اپنی متعین ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کی صلاحیت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے قانون سازی اور حکمتِ عملی بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور اب ان میں اصلاح کی گنجائش باقی نہیں۔ 
    اب اس ظالمانہ نظام کا خاتمہ اور اس کی جگہ نظامِ عدل کا قیام ہی انبیا علیھم السلام کا مقصد و منشاء رہا ہے۔
    آپﷺ نے تو عالمگیر سطح پر نظامِ ظلم کے خاتمے اور عدل کے قیام کی جدوجہد کی۔
    اس مقصد کے حصول کے لیے آپﷺ کی سیرت مطہرہ کے درج ذیل پہلو سمجھنا بہت ضروری ہیں۔
    ١۔ آپﷺ کا مقصد واضح تھا یعنی نظامِ ظلم کا خاتمہ اور نظامِ عدل کا قیام۔
    ٢۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آپﷺ نے نظامِ ظلم سے ممکنہ عدمِ تعاون کے اصول اور عدمِ تشدد کی حکمتِ عملی کے تحت سوسائٹی کے باشعور اور باصلاحیت افراد کی دعوت کے ذریعے آپ نےتنظیم سازی کی۔
    ٣۔ تنظیم سازی کے نتیجے میں قائم ہونے والی اجتماعیت کی شریعت, طریقت اور سیاست کی جامعیت کی بنیاد پر تربیت کی۔
    ٤۔ اس تربیت یافتہ جماعت کے ذریعے رائے عامہ کی ہمواری کی جس کے نتیجہ میں مدینہ میں سازگار ماحول پیدا ہوا اور ریاستِ مدینہ کا قیام عمل میں آیا۔
    ٥۔اس طرح آپﷺ نے اپنے پیشرو انبیا علیھم السلام کے تاریخی تسلسل کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس کو نکتہِ کمال تک پہنچا دیا۔
    ان تمام کو مختصر انداز میں بیان کیا جائے تو آپﷺ کی جدوجہد سے درج ذیل آفاقی اصول سامنے آتے ہیں
    ١۔ تاریخی تسلسل
    ٢۔ نصب العین
    ٣۔ عدمِ تشددکی حکمتِ عملی اور تنظیم سازی (جماعت) 
    لائحہِ عمل
    ٤۔ تنظیم سازی کی بنیاد پر قائم اجتماعیت کی جامع تربیت
    ٥۔ تربیت یافتہ اجتماعیت کے ذریعے رائے عامہ کی ہمواری
    ٦۔ نظامِ عدل کی بنیاد پر ریاست کا قیام
    اسی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں مجموعی طور پر دو طرح کی جماعتیں کام کر رہی ہیں
    ١۔ سیاسی 
    ٢۔ غیر سیاسی
    مندرجہ بالا اصولوں کی روشنی میں اگر ان جماعتوں کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ بعض جماعتوں کا نصب العین ہی واضح نہیں کہ وہ کرنا کیا چاہتی ہیں۔ کچھ جماعتیں ہیں کہ جو اپنا مقصد نظام کی تبدیلی بیان کرتی ہیں مگر ان کا لائحہِ عمل اس کے برعکس ہے اور موجودہ نظام سے تعاون کی راہ پر گامزن ہیں۔  ایسی جماعتیں بھی ہیں جو تبدیلیِ نظام بذریعہ تشدد چاہتی ہیں۔ کچھ تو اصلاحی طریقہِ کار کے ذریعے کسی ایک شعبہ میں اصلاح کی خواہشمند ہیں۔ ان تمام جماعتوں میں تربیتی نظام کا فقدان ہے اور اگر تربیتی نظام ہے بھی تو جامع نہیں۔ ان جماعتوں میں تاریخی تسلسل کا موجود نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے مسائل کے حل کی تاریخی  حکمتِ عملی اور شعور کا فقدان ہے۔
    اب باشعور لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے حالات کا درست حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کریں اور سوسائٹی کی اصلاح کے نام پر بہروپیوں کو پہچانیں اور ان کا رد کریں۔
    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز کو ترقی کے سفر پر گامزن کرنے کے لیے صالح اجتماعیت کی پہچان اور اس کا ساتھ بہت ضروری ہے جس میں نوجوانوں کا یقینا اہم کردار ہے۔
    Share via Whatsapp