نبوة محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مقاصد و اہداف
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا ہدف و نصب العین اوراس پرحکمت عملی پہلے دن سے واضح اور دو ٹوک تھی۔ جس کا ذکر اللہ تعالی نے یوں فرمایا
نبوة محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مقاصد و اہداف
تحریر: محمد ثاقب محفوظ، پشاور
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا ہدف و نصب العین اوراس پرحکمت عملی پہلے دن سے واضح اور دو ٹوک تھی۔ جس کا ذکر اللہ تعالی نے یوں فرمایا کہ ہم نے آپ کو شرح صدر عطاء کیا۔یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا نصب العین اور اس کے حصول کا طریقہ کار مکمل طور پر واضح تھا جس کا اظہار آپ کی دعوتی زندگی کے اقدامات سے واضح ہے۔
آپ معاشرہ کے اجتماعی ذہن کو بیدار کرنے کےلیے کیا پیغام دیتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کےان الفاظ سے عیاں ہے۔
(يا ايها الناس قولوا لا إله الا الله تفلحوا تملكو بها العرب وتدين لكم بها العجم فا ذا آمنتم كنتم ملوكا في الجنة
(ترجمہ: اےلوگو لاالہ الااللہ کہو تو تم کامیاب ہو جاؤ گے عرب کے مالک بن جاؤ گے اور عجم تمہارے باج گزار ہو جائیں گے اور جب تم پورے دین کو مان لو گےتو جنت کے بھی بادشاہ قرار پاؤ گے )
(زاد المعاد۔از علامہ ابن قیم،305:1 طبع قدیم)
یعنی عقیدہ توحید دینی فکر قبول کرنے کا عملی نتیجہ دین حق کا سیاسی غلبہ ہے اس فکر کی حامل مسلمان جماعت کا عرب و عجم کی حکومتوں کا سردار بن جانا تھا ۔ اورچونکہ یہ عمل ایک اجتماعی جدوجہد کا متقاضی تھا لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس ہدف کے حصول کے لیے مکی دور میں عدم تشدد کے اصول پر تربیتی نظام قائم کیا اور نماز قائم کرنے کی دعوت بھی بہت صاف اور واضح طور پر دی گئی تھی کیونکہ اس سے تعلق مع اللہ کے حصول کے ساتھ ساتھ سماجی برائیوں (فحشاء و منکرات) کے خاتمےاور نظم وضبط وقیام اجتماعیت کا درس بھی ملتا ہے۔
دین اسلام کا بنیادی ہدف انسانیت کو دنیا وآخرت کی کامیابی سے ہم کنار کرنا ہے جوکہ اس قرآنی دعا سے واضح ہے (ربنا اتنا فی الدنیا حسنة وفی الآخرۃ حسنة) لہذا اس ہدف کے حصول کے لیے جماعت سازی اور تربیتی انفراسٹرکچر ترتیب دیا جانا بہت ضروری ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ (حسنہ فی الدنیا) سے مراد دنیا کے سیاسی سماجی نظام کا حاکم بن جانا ہےاور کل انسانیت کے لیےنظام عدل قائم کرکے اعلی اخلاق سے متصف ہوکر آخرت کی فلاح یعنی (حسنہ فی الآخرۃ) کی کامیابی حاصل کرنا ہے.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےدور میں حجاز یعنی مکہ، مدینہ، طائف، خیبر میں قبائلی طرز پر حکمرانی کا نظام قائم تھا۔ لیکن اس نظام حکومت میں سرمایہ پرستی اور اجارہ داری کا مرض غالب ہونےکی وجہ سے ہر شعبہ زندگی، سیاست، سماج اور معیشت میں استحصال کا عنصر عروج پر تھا اور انسانیت اپنے بنیادی حقوق سے محروم تھی۔ اسی وجہ سے معاشرہ مجموعی طور پرانتشار کا شکار تھا اور حجاز ی معاشرہ زوال پذیر تھا۔
اس دور میں باقی دنیا دو ظالم اور سرمایہ پرست حکومتوں کسری ایران اور قیصر روم کے زیر تسلط تھی۔ جنہوں نے ایشیاء، یورپ، افریقہ پر قبضہ جمایا ہوا تھا اور سرمایہ پرستی پر مبنی استحصالی ظالمانہ نظام قائم کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کی رعایا اور ان کے زیر اثر باج گزار ریاستوں میں بھی عوام عمدہ انسانی اخلاق اور مقاصد سے ہٹ کرمحض انفرادی اور شعور سے عاری حیوانوں کی سی زندگی بسرکر نے پر مجبور تھے جب کہ حکمران طبقات ہر قسم کے عیش و آرام سے بھرپور پرتعیش زندگی گزار رہے تھے اور اس معاشرے کے عوام متوازن طرز زندگی سے ہزاروں میل دور انتہائی کرب ناک صورتحال سے دوچار تھے۔
تاریخ میں ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت دو غیر معمولی واقعات کا تذکرہ ملتا ہے۔ ایک تو کسریٰ ایران کے آتش کدوں میں برسوں سے متواتر جلتی آگ کا بجھ جانا اور اس کے محل میں زلزلے سے دراڑیں پڑ جانا اوردوسرا قیصر روم کے علاقے میں پانی کے سمندر کا خشک ہوجانا۔یہ دو واقعات اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے نتیجے میں قیصروکسری' کے نظاموں نے آگے چل کر لامحالہ زمیں بوس ہونا ہے۔
امام شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد قیصر و کسری' کے نظاموں کا خاتمہ تھا۔
اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مکہ کے ابتدائی 13 سالہ دور میں عدم تشدد کے اصول پر جماعت سازی کی گئی۔
اور ایک ایسی پارٹی” جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین “ تیار کی گئی جس میں (حسنہ فی الدنیا) کو حاصل کرنے کے لیے پارٹی سسٹم اور حکومتی سسٹم چلانے کے لیے شعور اور صلاحیت پیدا کی گئی جس کے نتیجے میں اس جماعت نے آگے چل کر مدینہ منورہ میں باقاعدہ ایک آئین ”میثاق مدینہ“ کی صورت میں مرتب کیا جس میں مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مل کر نیشنل گورنمنٹ یعنی قومی حکومت کی بنیاد ڈالی گئی اور اس تربیت یافتہ جماعت نے ایک ایسا پولیٹیکل سسٹم قائم کیا جس میں ہر شعبہ زندگی میں عدل و انصاف کو غالب کر کے بلا تفریق رنگ ونسل اور مذہب تمام افراد معاشرہ کو امن واستحکام اور معاشی خوش حالی اور ذہنی آسودگی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا تاکہ وہ عقل و شعور کی بنیاد پر اپنی زندگی کے معاملات کے حوالے سے آزادانہ رائے اختیار کر سکیں۔اسی مدینہ کی حکومت نے آگے چل کر مکہ فتح کیا اور پھر قلیل مدت میں پورے حجاز میں نظام عدل کو غالب کر دیا۔یوں (حسنہ فی الدنیا) کا جو قومی مرحلہ تھا وہ طے ہوا۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس نظام کو مزید ترقی دی اور قیصر و کسریٰ کے نظاموں کو شکست دے کر دنیا سے سرمایہ پرستی پر مبنی نظام ہاۓ ظلم کو ٹھکانےلگایا اور دین اسلام کے اعلی ترین نظام عدل کو کل انسانیت کے لیے قائم کر دیاگیا۔
آج ہمیں بحیثیت مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی حکمت عملی اور اہداف کو سمجھتے ہوئے عدم تشدد کی بنیاد پرجماعت سازی پر خوب توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم نظام عدل کی تشکیل اور ایک اعلی' ترقی یافتہ سوسائٹی کے قیام کے لیےاسوہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مشعل راہ بنا کراجتماعی جدوجہد وکوشش کرکے دنیا و آخرت میں بھلائی کے حصول کے لیے بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
اور اس جماعت رسول کی تابع داری میں آج کرہ ارض پر بسنے والے لوگوں کو زندگی کے موجودہ کرب ناک دور سے نجات دلاکر اس دنیا کوجنت جیسا نمونہ بنادیں۔ آمین۔