اجتماعی مسائل کے حل کا نبوی طریقہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اجتماعی مسائل کے حل کا نبوی طریقہ

    جب معاشرے اور قومیں اجتماعی زوال کا شکار ہو جائیں ، ملکی نظام نا اہل اور نالائق لوگوں کے ہاتھ میں چلا جائے تو انفرادی اصلاح و تبلیغ کا نظریہ ناکام

    By محمد نواز خاں Published on May 09, 2020 Views 2821

    اجتماعی مسائل کے حل کا نبوی طریقہ     

    تحریر: انجینئر محمد نواز خان-لاہور


     آٹھ ہزار سالہ انسانی تاریخ،قوموں کے عروج و زوال، ترقی و تنزل، خوشحالی و بد حالی کے سفر کی ایک مکمل داستان ہے۔ قرآن حکیم بھی انسانیت کی راہنمائی کے لیے  کامیاب امتوں اور قوموں کا ذکر کرتا ہے اور عبرت کے لیے بھی ذلت و گمراہی میں گھری قوموں کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔عرب کا معاشرہ جاہلیت کا معاشرہ کہلاتا تھا، بات بات پر قتل و غارت گری اس معاشرہ کی پہچان تھی۔دوسروں کے حقوق کو غصب کرنا، ڈکیتی و راہزنی ان کے لیے فخر و بہادری سمجھی جاتی تھی۔معاشی عدم توازن نے اکثریتی طبقے کو انسانیت سے گرا کر حیوان بنا دیا تھا۔ اور کم وبیش یہی صورتحال باقی دنیا کی تھی۔ قیصر و  کسری ٰ کے ظالمانہ عالمی نظاموں نے استحصالی ہتھکنڈوں  سے تمام وسائل کو اپنے قبضہ میں لے رکھا تھا اور انسانیت ٹھٹھر کر رہ گئی تھی- گویا اجتماعی حوالے سے انسانیت زوال کا شکار ہو چکی تھی۔

     جب معاشرے اور قومیں اجتماعی زوال کا شکار ہو جائیں ، ملکی نظام نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں چلا جائے تو انفرادی اصلاح  کا نظریہ ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ انفرادی اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب نظام درست ہو اور چند افراد خراب ہوں لیکن جب برائی ، بداخلاقی ،ظلم و زیادتی اورحقوق سلبی  کا ذمہ دار نظام ہو تب نظام کو درست کرنے سے ہی اجتماعی اخلاق وجود میں آتے ھیں ، حقوق کی ادائیگی ،عدل و انصاف کا قیام اور نیکی کا فروغ ہوتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ عرب کے اس معاشرے کی گراوٹ کا ذمہ دار ابو جہل، ابو لہب اور عتبہ شیبہ کے غلط نطام کو قرار دیتے ہیں، غار حرا کی خلوت نشینی میں اس پر غور و خوض فرماتے ہیں، اس غلط نظام کے معاشرے پر اثرات کا جائزہ لیتے ہیں اور اس غلط نطام کو توڑ کر عادلانہ نظام قائم کرنے کے لیے ایک جماعت  تیار کرتے ہیں۔جس کے اندر فکری و عملی ہم آہنگی کمال درجے کی ہے۔ اس چھوٹی سی جماعت کے فکر، ہمت و جرأ ت ، نظم و ضبط اور نظریہ کی پختگی سے قیصر و کسریٰ کے نظام لرزتے ہیں۔مدینہ کے اندر ریاستی نظام تشکیل پاتا ہے۔ ابوجہل کا فاسد نظام اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ عرب کےبدو دنیا کے مہذب ترین شہری بن جاتے ہیں۔ لڑنے جھگڑنے والے عرب امن کی علامت بنتے ہیں۔ ڈاکو و راہزن انسانی حقوق کے رکھوالے بنتے ہیں۔عرب کے جاہل دنیا کے امام بن جاتے ہیں۔ سماجی تقسیم کا نظام ٹوٹ کر وحدت کا نظام ،سسٹم کی تشکیل کا بنیادی ستون قرار پاتا ہے۔ غربت و افلاس ، بد امنی  و خوف کی جگہ پر خوشحالی و امن و استحکام  اس معاشرے کی اقدار طے پاتی ہیں۔ بہت بڑے بڑے حکمران،فلاسفرز،قاضی القضاة، صوفیاء و اولیا کرام پیدا ہوتے ہیں -سائنس و ٹیکنالوجی ترقی کرتی ہیں۔  ابو الہیثم، یعقوب الکندی،البیرونی ، جابر بن حیان اور الفارابی جیسے سائنسدان پیدا ہوتے ہیں۔ایک ہزار سال تک دنیا امن و عدل اور خوشحالی کا گہوارہ بنتی ہے۔

    پچھلے دو ڈھائی سو سالوں سے مسلمانوں کا اجتماعی نظام ختم ہو چکا ہے-بحیثیت  ملت اور بحیثیت قوم، مسلمان ذلت اور پستی کا شکار ہیں۔ سامراجی قوتوں کے غلام اور آلہٰ کار ہیں ۔قومی اور بین الاقوامی فیصلوں میں ان کی کوئی رائے نہیں۔ سائنسی ترقی اور ریسرچ میں ان کا حصہ 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ہم بحیثیت پاکستانی قوم بھی زوال  اور غلامی کا شکار ہیں۔  نا اہل حکمران و اشرافیہ ہم پہ مسلط ہیں - قومی ادارے بانجھ پن کا شکار ہیں اور کوئی تعمیری کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود  ملک قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہو ا ہے۔سیاست کے  ایوان چند خاندانوں کی آماجگاہ  ھیں ۔ ملکی وسائل  انہیں چند خاندانوں کی ذاتی جاگیر ہیں۔ سیاسی بد امنی و خوف کے ہر طرف سائے ہیں۔فرقہ واریت و عصبیت ، گروہیتوں کو نظام کی چھتری میں پروان چڑھایا جاتا ہے۔نوجوان نسل کو آئے روز بے راہروی کے نئے سے نئے سامان مہیا کیے جاتے ہیں۔جب کہ دوسری طرف  دور کے تقاضوں سے بے خبر اور حقیقی مذہبی تعلیمات کی سمجھ سے عاری  مذہبی طبقہ  انفرادی اصلاح اور ذیادہ سے ذیادہ ثواب کمانے کے درس دیتا نظر آتا ہے۔ جدید تعلیمات کو دنیاداری اور مذہب بیزاری کا نام دے کرتنگ نظری  کی فضا ء بنانے کی کوشش کرتا ہے- این جی اوز   قومی مسائل کو  انفرادی سطح پر زیر بحث لاتے ھیں  - پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے قوم کو کنفیوژن کا شکار کر دیا ہے حالات سدھرنے کے بجائے بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔

    افرادکے اخلاق اور رویے ماحول اور نظام کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ ماحول اور نظام درست ہونے سے اخلاق و رویے درست ہو جاتے ہیں۔  انبیاء  اکرام کی جدوجہد و سیرت اس کا ثبوت ہے۔ ضرورت ہے کہ نوجوان نسل اپنے حالات کو درست کرنے اور ترقی کرنےکے لیے قومی زوال کے دور میں انفرادیت سے نکل کر منظم انداز سے اجتماعی نظام کو درست کرنےاور تبدیلی برپا کرنے کے لیے قوموں کے عروج و زوال کے اصول و اسباب کا  مطالعہ کریں۔ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کی سیرت  کا مطالعہ سماجی تشکیل اور انقلابی  نقطہ نظر سے کریں۔اورنظام کو درست کرکےقومی وبین الاقوامی حوالے سے اپنے کردار کا تعین کریں۔

    Share via Whatsapp