سماجی تبدیلی کا نبوی طریقہ کار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سماجی تبدیلی کا نبوی طریقہ کار

    انسانی معاشروں نے سماجی انقلاب اور نظامِ حیات کی تبدیلی کے لیے مختلف نظریات، تحریکیں اور ماڈلز کو جنم دیا ہے۔ کہیں طاقت کے زور پر۔۔۔۔

    By Asghar Surani Published on May 06, 2025 Views 320
    سماجی تبدیلی کا نبوی طریقہ کار
    تحریر: محمداصغرخان سورانی۔ بنوں

    انسانی معاشروں نے سماجی انقلاب اور نظامِ حیات کی تبدیلی کے لیے مختلف نظریات، تحریکیں اور ماڈلز کو جنم دیا ہے۔ کہیں طاقت کے زور پر حکومتیں الٹی گئیں، کہیں عوامی بغاوتوں نے پرانی رسومات کو مٹایا اور کہیں فلسفیانہ نظریات نے معاشرتی ڈھانچے کو نئے سرے سے تشکیل دیا۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو تمام تاریخی تحریکات میں ایک چیز قدرمشترک ہے: تبدیلی کے بیش تر ماڈلز وقتی کامیابی کے بعد اپنی روح کھو بیٹھتے ہیں یا پھر نئے مسائل کو جنم دے دیتے ہیں ۔ ایسے میں نبی اکرمﷺ کا طریقہ کار ایک ایسے "سائنٹیفک ایکسپیریمنٹ" کی طرح ہے جو نہ صرف اپنے دور میں کامیاب ہوا، بلکہ آج تک اس کی افادیت اور جامعیت پر سوالیہ نشان تک نہیں لگایا جا سکتا۔ 
     یہ ماڈل کیوں منفرد ہے ؟ 
    نبی اکرم ﷺکی سماجی تبدیلی کا طریقہ کار تین بنیادی اصولوں پر استوار تھا: 
    1۔ انسانی نفسیات اور سماجی ضروریات کی گہری سمجھ بوجھ: آپؐ نے مکہ کے معاشرے کے ہر طبقے، اُن کے مفادات اور جذبات کو سمجھا۔ یہی وَجہ ہے کہ آپؐ نے کبھی بھی جلدبازی میں ردِعمل نہیں دیا، بلکہ ہر قدم کو "سماجی زندگی" کے اصولوں کے تحت اُٹھایا۔ 
    2۔ تبدیلی کا مرحلہ وار پروسیس:آپؐ نے یکدم نظام کو گرانے کے بجائے پہلے افراد کے دلوں اور ذہنوں کو تبدیل کیا، پھر ایک اعلیٰ نظریہ پر منظم جماعت تیار کی، جماعت نے مختلف تکالیف برداشت کیں اور آخر میں ریاستی نظام قائم کیا۔ یہ ترتیب آج کے "چینج مینجمنٹ" کے جدید نظریات سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔ 
    3۔ پائیدار نتائج کے لیے تعلیم و تربیت:آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو محض جنگجو نہیں، بلکہ مفکر، معلم اور منتظم بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستِ مدینہ محض ایک مذھبی علاقہ نہیں تھا بلکہ ایک "سوشل لیبارٹری" تھی جہاں انصاف، تعلیم اور اخلاقیات کے تجربات کیے گئے۔ 
    سائنسی بنیادوں پر استواری کا راز 
    جدید سماجی علوم میں جب ہم "سوشل چینج" کے ماڈلز کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے لیے تین شرائط بیان کی جاتی ہیں: 
    مقصد کاواضح ہونا ( clarity of purpus
    عمل کی منصوبہ بندی (Strategic Planning) 
    طویل المدتی وژن (Long-term Vision) 
    نبی اکرم ﷺ کے طریقہ کار میں یہ تینوں شرائط اپنی کمال شکل میں موجود تھیں۔ مثال کے طور پر جب آپؐ نے مکہ میں دعوتِ اسلام کا آغاز کیا تو پہلے مرحلے میں آپؐ نے اپنے ہی خاندان والوں اور قریبی ساتھیوں کے ذریعے ایک کور ٹیم تشکیل دی۔ اس ٹیم کو نہ صرف اسلامی تعلیمات سے آراستہ کیا گیا بلکہ اُن کی شخصیتوں کو اس طرح پروان چڑھایا گیا کہ وہ مستقبل میں معاشرے کے "صالح قائدین" بن سکیں۔ یہ عمل آج کی اصطلاح میں لیڈرشپ ڈویلپمنٹ اور کاپیسٹی بلڈنگ کی بہترین مثال ہے۔ 
    دورَ جدیدمیں سوشل سائنسز کے ماہرین کا تصور 
    آج کے سماجی سائنس دان جب تکثیری (Pluralism)، تنازعات کا حل (Conflict Resolution) اور معاشرتی ہم آہنگی (Social Cohesion) جیسے موضوعات پر تحقیق کرتے ہیں تو ریاستِ مدینہ کا دستورِ مدینہ اُن کے لیے ایک کلاسیکل کیس اسٹڈی بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، مدینہ میں یہودیوں، عیسائیوں،مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ پہلا بین المذاہب سماجی کنٹریکٹ ہے، جس میں ہر گروہ کو اُس کے سیاسی،مذہبی اور سماجی حقوق دیے گئے۔ یہی نہیں، آپؐ نے معاشی نظام میں زکوٰۃ کے مصارف متعارف کروائے جو آج کے "سوشل ویلفیئر سسٹم" کا ابتدائی نمونہ ہیں۔ اس کے ساتھ ارتکاز اور اکتناز جیسی سرمایہ پرستانہ رویوں سے منع کیا، تاکہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں برقرار رہے۔ضرورت مندوں کو بھکاری بنانے کے بجائے انھیں سکلز، ہنر سکھانے پر زور دیا گیا۔
    نتیجہ: زمانہ قدیم سے عصرِ حاضر تک ایک ہی پیغام
    نبی اکرمﷺ کا طریقہ کار محض مذہبی تعلیمات کا مجموعہ نہیں، بلکہ سماجی تبدیلی کا ایک "لیبارٹری ٹیسٹڈ ماڈل" ہے جو اپنی سائنسی نوعیت کی وَجہ سے ہر دور میں قابلِ عمل ہے۔ آج بھی اگر کوئی معاشرہ ظلم، استحصال، یا بے راہ روی کا شکار ہے تو اِس ماڈل میں اُس کا حل موجود ہے، شرط صرف یہ ہے کہ اِسے اس کے صحیح وارث سے سمجھا جائے، اُس پر یقین کیا جائے اور اُس کے مطابق عمل کیا جائے۔ قرآن کریم نے سورۃ العصر میں زمانہ قدیم سے عصرحاضر تک انقلابات کا جائزہ لے کر فرمایا ہے کہ اکثر انقلابات کامیاب نہیں ہوئے، جب تک اس کو درج ذیل پیٹرن کے مطابق نہ کیا جائے۔یعنی اعلیٰ نظریہ و نصب العین پر ایمان، اسی نظریہ کے مطابق صالح جدوجہد، اسی نظریہ پر جماعت کا قیام یعنی تواصی بالحق اور اگر جماعت سازی کے دوران جماعت کو کسی قسم کی مشکلات اور تکالیف سے دوچار ہونا پڑ جائے تو صبر و تحمل سے کام لے کر اسی نظریہ پر استقامت اختیار کی جائے۔ 
    مکہ کے ظالمانہ نظام کو سمجھنے کی بصیرت 
    نبی اکرمﷺ کو اپنے مشن کے آغاز ہی سے مکہ کے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کی گہری سمجھ بوجھ حاصل تھی۔ آپؐ جانتے تھے کہ مکہ کی ریاست پر کن طاقتوں کا غلبہ ہے، ابو جہل، عتبہ، شیبہ، اور اُن کی کور ٹیم۔ یہ وہ ماسٹر مائنڈز تھے جو معاشرے میں ناانصافی، استحصال اور کرپشن کی جڑیں مضبوط کیے ہوئے تھے۔ مزید یہ کہ اِن طاقتوں کو اُس دور کی بین الاقوامی مافیاز—روم اور ایران کی سلطنتوں—کی حمایت بھی حاصل تھی، لیکن کیا آپؐ نے بغیر تیاری کے اِن طاقتوں کا مقابلہ کیا؟ ہرگز نہیں۔ 
    عدم تشدد اور جماعت سازی: تبدیلی کا پہلا مرحلہ 
    نبی اکرم ﷺنے جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ مکہ کا نظام آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو نشانہ بنا رہا ہے،کبھی بھی جذباتی ردِعمل نہیں دکھایا۔ مکہ کی اسٹیبلشمنٹ کا مقصد یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ کو غصہ دِلا کرقبل از تیاری میدان میں لایا جائے اور اُن کا صفایا کر دیا جائے۔ لیکن آپؐ نے عدم تشددکی حکمت عملی اپناتے ہوئے اپنی جماعت کو منظم کرنے، اُن کی تعلیم و تربیت کرنے اور اُن کے اندر شعور و صلاحیت پیدا کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ یہاں تک کہ جب خطرہ بڑھا تو آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو دو بار حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا  اور جب مدینہ میں حالات سازگار ہوگئے تو بالآخر مدینہ کی طرف منتقل ہو گئے۔ اس سارے عمل کا مقصد کیا تھا؟ انسانی سرمائے (Human Capital) کو بچانا، کیوں کہ یہی وہ بنیاد تھی، جس پر مستقبل کا نظام تعمیر ہونا تھا۔ 
    تبدیلی کا دوسرا مرحلہ: ریاستِ مدینہ کی تشکیل
    نبی اکرمﷺ نے مکہ کے نظام کو اس وقت تک چیلنج نہیں کیا، جب تک کہ مدینہ میں ایک مضبوط جماعت، منظم ریاست اور ایک مربوط نظامِ حکومت وجود میں نہیں آ یا۔ یہاں آپؐ نے ثابت کیا کہ حقیقی تبدیلی محض حکومت کو گرانے یا احتجاج کرنے سے نہیں آتی، بلکہ ایک متبادل نظام کی تعمیر سے آتی ہے۔ ریاستِ مدینہ عدل، تعلیم اور اخلاقی اقدار پر مبنی ایک ایسا ماڈل تھی، جس نے نہ صرف عرب بلکہ پوری انسانیت کو ایک نئی سمت دی۔ 
    آج کے سماجی کارکنان کے لیے سبق 
    1۔ تعلیم و تربیت پر زور: تبدیلی کا عمل ٪80 تعلیم، تربیت اور شعور بیدار کرنے میں پوشیدہ ہے۔ جذباتی ردِعمل یا بغیر تیاری کے نظام کو چیلنج کرنا ناکامی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ 
    2۔ انسانی سرمائے کی حفاظت: کسی بھی تحریک کی سب سے بڑی طاقت اُس کے کارکنان ہوتے ہیں۔ انھیں بے مقصد جدوجہد میں ضائع کرنے کے بجائے اُن کی صلاحیتوں کو نکھارنا چاہیے۔ 
    3۔ عدم تشدد: ایک سٹریٹجی، کمزوری نہیں: نبی اکرمؐ نے ثابت کیا کہ صبر اور حکمت سے طویل جنگ لڑی جا سکتی ہے۔ قانونی جنگ صرف اُسی وقت جائز ہے، جب عملی نظام قائم ہوجائے۔
    4۔ متبادل نظام کی تعمیر: موجودہ نظام کو گِرانے سے پہلے اُس کے متبادل کی تشکیل ضروری ہے۔ ورنہ خلا میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ 
    نتیجہ: تبدیلی ایک "سائنس" ہے
    جو گروہ یہ سمجھتے ہیں کہ چند مظاہروں یا تقریروں سے نظام بدل جائے گا، وہ غلطی پر ہیں۔ حقیقی تبدیلی وہ ہے جو ایک اعلی ٰ نظریہ پر جماعت سازی، تعلیم وتربیت اور صبروتحمل کے ساتھ ساتھ اعلیٰ نظریہ پر استقامت کے طویل سفر سے گزر کر آتی ہے۔ نبی اکرمؐ نے 13 سال مکہ میں اور 10 سال مدینہ میں یہی سفر طے کیا۔ آج بھی کوئی جماعت اگر اِس اصول پر کاربند ہو تو وہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیں کہ ابوجہل کی سپورٹ سے بننے والی تحریکیں کبھی پائیدار نہیں ہوتیں۔ تبدیلی کا راستہ صبر، علم اور حکمت سے جُڑا ہوا ہے،یہی نبی اکرمؐ کا سائنسی فارمولا ہے۔
    یقین، محکم ،عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
    جہاد زندگانی میں یہ مردوں کی ہیں شمشیریں
    Share via Whatsapp