عید الفطر کے شب وروز
نبی کریم نے فرمایا کہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔ ہر قوم اپنے فکر و نظریہ کے مطابق اس اجتماعی دن کی خوشی کو مناتی ہے۔
عید الفطر کے شب وروز
تحریر؛ اویس میر۔ راولپنڈی
ہر قوم اپنے فکر و نظریہ کے مطابق ايک دن اجتماعی خوشی مناتی ہے، جسے وہ اپنی عید کہتے ہیں۔
1۔ عيدالفطر كی حقيقت :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔
اَب ہم نے عید کے احکامات کے تناظر میں یہ سمجھنا ہے کہ ہماری عید کا فلسفہ اور اس کا پیغام کیا ہے؟
عید کی تکبیرات ہمیں واضح اور دو ٹوک پیغام دیتی ہیں کہ حکمرانی صرف اللہ کی ہی ہے اور اس کی نمائندگی و اِظہار دنیا میں اس کے بتائے ہوئے احکامات پر عادلانہ نظام بنا کر ہی ہوسکتا ہے، جس کا دائرہ کار معاشی، سماجی اور سیاسی عدل پر محیط ہو۔
اسی کے عملی اِظہار اور عزم کو ذہن میں رکھ کر ہم بہ آواز بلند ان تکبیرات کو کہتے ہوئے گھر سے نکلتے ہیں اور ایک کھلے میدان میں اکٹھے ہوکر ایک اجتماعیت تشکیل دے کر اس مشن کو دُہراتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں حاکمیت صرف اللہ ہی کی ہونی چاہیے۔
2۔ صدقہ فطر
نمازِعید پڑھنے سے پہلے ہر ممکن اس کی ادائیگی کی تلقین کی گئی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ دینِ رحمت اس موقع پر معاشرے کے کمزور، نادار اور غربا کو بھول جاتا۔ صدقہ فطر ،فدیہ اور زکوۃ کے ذریعے سے ایک معاشی سرگرمی پیدا ہوتی ہے، جس سے ان لوگوں کو بھی خوشی میں برابر کا شریک کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی خوشی کا مزہ تب ہوتا ہے، جب سب خوش ہوں۔ ان کے اچھے لباس، کھانے اور دوسری ضروریات کے حوالے سے انتظامات ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس عزم کو بھی دُہرایا جاتا ہے کہ مستقل بنیادوں پر کوشش کرکے ایک ایسے معاشی نظام کی تشکیل کے لیے تگ و دو کرنی ہے جو ہميشہ ایسے افراد کی ملکی سطح پر کفالت اس انداز سے کرے کہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو اور یہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر دینے والے بن جائیں۔
3۔ ملنا ملانا اور کھانا پینا
یہ وہ دن ہے، جس میں ملنے ملانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے سے مل کر آگے بڑھ کر دِلوں میں موجود کدورتوں اور نفرتوں کو مٹانا چاہیے، دِلوں کو صاف کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کو معاف کرنا چاہیے۔ مل جل کر میسر وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کھانے پینے کا انتظام بھی کرنا چاہیے۔ اللہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسی وَجہ سے اس دن روزہ رکھنے کی بھی ممانعت ہے۔
4۔ لیلۃ الجائزہ
عیدالفطر سے جو پہلی رات ہے وہ لیلۃ الجائزہ کہلاتی ہے۔ یہ نہایت اہم رات ہے، جس میں انسان اپنے پورے رمضان کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتا ہے اور مستقبل کے حوالے سے حکمتِ عملی بناتا ہے۔ اس رات سے مستفید نہ ہونے کو اس سے تشبیہ دیا گیا ہے کہ جیسے مزدوری کرکے اس کی مکمل اجرت وصول نہ کی جائے۔ لہٰذا اپنے رکھے گئے روزوں ، تلاوتِ قرآن پاک، ذکراللہ، قیام اللیل کے حوالے سے اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوکر اس کی قبولیت کےلیے گڑگڑا کر دعا کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ اس تربیت کی طرف بھی توجہ مرکوز رہنی چاہیے جو اس مہینے کی ریاضت کا اصل ہے۔ اسی مہینے میں غزوہ بدر اور فتح مکہ کے واقعات ہوئے تھے، جس سے ہمیں رہنمائی ملتی ہے کہ سیاسی و معاشی آزادی کتنی اہم ہے اور کیا ہم اس وقت سیاسی و معاشی طور پر آزاد ہیں؟اور اگر نہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری اِنفرادی و اجتماعی اِصلاح کرے اور اس تربیتی مہینے کے مطلوب مقاصد حاصل کرنے میں ہماری مدد فرمائے اور حقیقی عید منانا نصیب کرے۔