سیرتِ رسول ﷺ کا انقلابی کردار
سیرتِ رسول ﷺ ہمیں نظام ظلم سے نفرت اور اس کے خلاف جدوجہد کر کے اس نظام کو توڑ کر عدل کے نظام کے قیام کا درس دیتی ہے
سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلابی کردار
تحریر: اسامہ احمد۔ اسلام آباد
" اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔"
کسی بھی سوسائٹی(society) میں جب درست نظریہ وجود میں آتا ہے تو اس کے نتیجے میں دو طرح کے رویے سامنے آتے ہیں۔
ایک وہ جو اس نظریے کو درست سمجھ کر اس کو اپنا لیتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس کو غلط سمجھ کر اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔
جو لوگ اس نظریے کو پیش کرتے ہیں، وہ اسے درست ثابت کرنے کے لیے اس کے حق میں دلائل جمع کرتے ہیں۔ ان دلائل کی بنیاد پر مخالف نظریے کا رد کرتے ہیں۔ نبی کریم جوانی میں قومی سطح پر انسانی بھلائی کا ایک اہم کام کرتے ہیں۔معاہدہ حلف الفضول میں شرکت کرتے ہیں۔ اس معاہدے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں ، جس کا منشور یہ تھا کہ’’حق دار کو اس کا حق دلوائیں گے۔‘‘ اب یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ابھی وحی الٰہی کا آغاز نہیں ہوا، لیکن پھر بھی نبی کریم معاشرے کی اجتماعی بھلائی کے کام میں شریک ہوتے ہیں۔ آپ کسی خاص مذہبی عقیدے کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر یہ کام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔
نبی اکرم کو نبوت کا انقلابی نظریہ دیا گیا تھا۔ اس نظریے کی بنیاد پر نبی کریم نے ابوجہل، عتبہ، شیبہ اور دیگرسرداران قریش کو چیلنج کیا !کہ یا تو ہمارےنظریے کو مان کر اپنے ظالمانہ نظام کو بدلو! دوسری صورت میں ہم تمھارے خلاف ایک سیاسی جماعت میدان عمل میں لائیں گے ( جس کا ذکر سورہ علق میں ہے) وہاں پر نبی کریم نے یہ بالکل نہیں کہا کہ فلاں فلاں مخصوص قسم کی عبادت،رسم و رواج اپنا لو، اپنا حلیہ بدل لو، بلکہ وہاں پر دو ٹوک انداز سے بات ہوتی ہے کہ اپنا مروجہ ظالمانہ نظام بدلو۔
جب مکہ کے ظالم اور طاغوتی حکمرانوں نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نظریے کی مخالفت شروع کی تو آپ نے اپنے اس سچے اور عدل کے نظریے پر جماعت سازی شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ نے بھی کہہ دیا کہ " کفوا اید یکم " کہ جب تک تمھارا جماعت سازی کا عمل مکمل نہیں ہوتا اس وقت تک اس ظالمانہ نظام کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔اسی دوران ظالم نظام کی طرف سے نبی اکرم کو ایک Compromising deal کی پیش کش ہوتی ہے کہ ہم آپ کے دین کو قبول کر لیتے ہیں،لیکن آپ کو ہماری دو شرائط ماننا ہوں گی:
۱- ہمارے بتوں کو بُرا کہنا چھوڑ دیں ۔ (ظلم کا نظام )
۲۔ طبقاتیت پر مبنی سماجی ڈھانچہ برقرار رکھا جائے گا ۔ (غلام اور آقا برابر نہیں)
پہلی شرط سے مراد ظلم کا نظام برقرار رکھنا تھا ۔ یعنی جھوٹے خداؤں کی بنیاد پر بنایا ہوا جھوٹا نظام برقرار رکھنا ہوگا ۔ دوسری شرط سے مراد طبقاتیت پر مبنی معاشرہ کے تصور جہاں اونچ نیچ برقرار رہے گی۔ غلام غلام کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائے گا اور آقا کو کوئی پوچھنے والا نہ گا۔ اس نظام کی سیاسی اور معاشی حیثیت کو برقرار رکھنا ہوگا ۔ غلا م قوت کاسبہ کے طور پر کام کرتا رہے اور آقا اس کی کمائی پر پرتعیش زندگی گزارتا رہے۔ نبی اکرم نے نبوت کے انقلابی نظریے کے تقاضے کے تحت اس سمجھوتے کی پیش کش کو مکمل طور پر ٹھکرا دیا۔
نبی اکرم 13 سال کے طویل عرصے میں اپنی جماعت تیار کرتے ہیں۔اس کی تربیت کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ اس جماعت کی تعداد 85،84 افراد تک پہنچ جاتی ہے۔ ان 13 سالوں میں آپ پر سخت سے سخت تکالیف اور مصیبتیں ڈھائیں جاتی ہیں۔ اس دوران آپ اور آپ کی جماعت کو صبر کا دامن تھامنے اور نظریے پر پختہ رہنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
پھر 13 سال کے بعد اسی نظریے کی بنیاد پر دوسرے نظریے کے حامل افراد کے ساتھ قومی و سیاسی معاہدات کیے جاتے ہیں ۔ وادی یثرب میں ایک الگ ریاست مدینہ بنائی جاتی ہے۔ پھر اس نظریے پر تیار کردہ جماعت کو مکہ کے ظالم اور طاغوت حکمرانوں سے لڑنے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ تا کہ انسانیت کو اس ظلم اور ناانصافی سے نجات دلائی جائے۔ وہ جماعت اس طاغوت کا مقابلہ کرتی ہے اور فتح حاصل کرتی ہے۔ بدر کے بعد 7 سال میں مکہ کی طاغوتیت کو مکمل طور پر توڑ دیتی ہے۔ انسانیت کو ظلم سے نجات دلاتی ہے۔ ان سے کسی مذہبی عقیدے کی بنیاد پر کوئی لڑائی نہیں لڑی جاتی ۔
سیرتِ رسول ہمیں نظام ظلم سے نفرت سکھاتی ہے۔اس کے خلاف جدوجہد کر کے اسے توڑ نے کا حکم دیتی ہے۔اس سے عدل کے نظام کو قائم کرنے کا عملی نمونہ ملتا ہے۔ نظام ظلم میں رہ کر اس کی اتباع کرتے ہوۓ اصلاحی نظریہ کی کوئی تعلیم نہیں ملتی ہے۔ سیرتِ رسول ایک مکمل انقلابی تحریک کا تعارف کرواتی ہے۔ آج بھی اگر ہم ریاست مدینہ اور سیرتِ رسول کو بطورعملی نمونہ دیکھنے کے حقیقی طور پر دعویدار ہیں تو ہمیں الفاظ اور عمل کے درمیان مطابقت پیدا کرنی ہوگی ۔اگر خطابت میں ہم ریاست مدینہ کا نام لیں اورعمل میں نظام ظلم کی تابعیت اختیار کیے رکھیں تواسے منافقت کہتے ہیں ۔
نبی اکرم کی یہی تحریک مکہ اور مدینہ کے قومی انقلاب کے بعد اگلے مرحلےمیں بین الاقوامیت اختیار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔قیصرِ روم اور کِسریٰ ایران کےسیاسی ، معاشی ڈھانچوں پر مبنی طبقاتی نظام کو توڑ کر خدا پرستی اور انسان دوستی کا نظام نافذ کر تی ہوئی نظر آتی ہے۔انسانیت کو ظلم سے نجات دلاتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سیرتِ رسول کا انقلابی کردار سمجھا جائے اور عملی طور پر اس کو اپنایا جائے تاکہ انسانیت کو ظلم سے حقیقی معنوں میں آزادی مل سکے۔