سیرت ِ نبویﷺاور ہماری زمہ داریاں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سیرت ِ نبویﷺاور ہماری زمہ داریاں

    سیرت ِ نبویﷺ پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم اپنے سلگتے ہوئے مسائل حل کر سکتے ہیں.

    By محمد عتیق تنولی Published on Dec 31, 2019 Views 8181

    سیرت ِنبویﷺ اور ہماری ذمہ داری

    تحریر: محمدعتیق تنولی ، کراچی


    یہ بات مسلم ہے کہ دنیا کی تمام اقوام اپنے رہنماؤں کی سیرت و کردار سے سبق حاصل کرتی ہیں اور ہر قوم کا ایک فکر اور راہنما ہوتا ہے۔

    نبی اکرمﷺ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے مینارہ نور ہیں۔ اللہ تعالی نے آپؐ کو رحمت اللعلمین بنا کر بھیجا ، گویا تمام انسانیت کے لیے رحمت پر مبنی نظام بنانا حضورﷺ کی نمایاں ترین خصوصیت اور اعلیٰ ترین کارنامہ ہے۔ آپؐ کی سیرت سے بالعموم  تمام انسانوں کا رہنمائی لینا کامیابی کی ضمانت ہے ۔

    مسلمان جو کہ اپنے آپ کو نبی اکرم ﷺ کا امتی کہلاتے ہیں، بالخصوص اسلام کے نام پر(جیساکہ مشہور ہے) معرضِ وجود میں آنے والے ملک پاکستان کے مسلمانوں کے لیے تو سیرت نبویﷺ سے راہنمائی حاصل کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔

    ہم پچھلے ۷۲ سالوں  سے بہت مشکل حالات سے دوچار ہیں- ہمارے معاشرے میں سیاسی عدم استحکام (خوف اور بدامنی) ہے،ہمارا سیاسی نظام اور اس کے ادارے امن و امان قائم کرنے اور انسانوں کی جان، مال،عزت و آبرو کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

    ہمارا معاشی نظام  یہاں بسنے والے انسانوں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر سکا نیز ( پیدائش ،تقسیم ، تبادلہ اور صرفِ دولت) کا مبنی بر عدل نظام نہ ہونے اور قرضوں کی معیشت کی وجہ سے معاشی ابتری، غربت،بھوک و افلاس نے ہمارے ملک میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور عدل وانصاف کی بجائے

     ظلم،بددیانتی،فکری انتشار ،طبقاتیت اورفرقہ واریت  کے بادل ہر طرف چھائے ہوئے ہیں۔

    ایسے مشکل حالات میں حضوراکرمﷺ کی سیرت اور قرآن حکیم ہماری کیا رہنمائی کرتے ہیں؟

     آپؐ نے کن مشکل حالات میں جدوجہد کر کے انسانوں کو غلامی سے نجات دلائی، اورترقی و کامیابی کی راہ پر گامزن کیا ؟

    اگر ہم ان سوالوں پر غور کر کے سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ آپؐ کی بعثت جس معاشرے میں ہوئی وہاں بھی کم و بیش اسی طرح کے حالات تھے۔

    عرب معاشرے میں بھی تین بڑے امراض پائے جاتے تھے۔۱) فکری طور پر وہ معاشرہ  ظلم ،شرک، بت پرستی اور فرقہ واریت کا شکار تھا، ۲) ابو جہل کا معاشی بھوک و افلاس اور طبقاتیت پر مبنی نظام موجود تھا،۳)  لوٹ مار ، خوف ، بدامنی اور قتل و خون ریزی نے عرب معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رکھا تھا۔

    قرآن حکیم نے سورت النحل میں انسانی معاشروں کے تجزیے کے معیار اور اصول واضح کیے کہ  "وہ معاشرہ مثالی اور ترقی یافتہ ہو گا جس میں عدل و انصاف ، امن اور معاشی اطمینان یعنی خوشحالی ہو گی"  اور زوال پذیر معاشرے کی علامات بھی بتائیں کہ " وہاں ظلم، بھوک اور خوف ان کا لباس بن چکا ہو گا۔"

    چناں چہ ارشاد الہی ہے:

     وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ۔

    اور اللہ ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جہاں ہر طرح کا امن چین تھا اس کی روزی با فراغت ہر جگہ سے چلی آتی تھی پھر اللہ کے احسانوں کی ناشکری کی پھر اللہ نے ان کے برے کاموں کے سبب سے جو وہ کیا کرتے تھے یہ مزہ چکھایا کہ ان پر فاقہ اور خوف چھا گیا۔

    انہی تعلیمات کی روشنی میں حضور نبی اکرمﷺ نے عرب معاشرے میں ۲۳ سال جدوجہد کر کے انقلاب برپا کر دیا ، ظلم کے مقابلے میں بلا تمیز رنگ , نسل اور مذہب،  عدل و انصاف کا ایسا نظام قائم کیا کہ یہودی اور دیگر اقوام  بھی اپنے فیصلے کروانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بت پرستی، طبقاتیت اور فرقہ واریت کو مٹا کر انسانوں کا تعلق حق تعالی کے ساتھ  جوڑ دیا۔

    نظام ظلم کا خاتمہ کر کے ایسا عادلانہ امن کا نظام قائم کیا کہ بغیر کسی ڈر اور خوف کے لوگ دور دراز کے سفر کیا کرتے تھے۔

     حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے آپؐ سے پوچھا کہ آپ کا نظام قبول کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عدی ! ایک عورت زیورات سے لدی ہوئی شام سے مکہ آئے گی اور کوئی آدمی اس کو غلط نظر سے نہیں دیکھے گا۔

    حضرت عدی بن حاتم فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کے قائم کردہ نظام میں، میں نے اس عورت کو اپنی آنکھوں سے شام سے مکہ آتے ہوئے دیکھا جس کا حضورؐ نے بتایا تھا اور کوئی آدمی اس کو بری نظر سے دیکھنے والا نہیں تھا۔

    ابو جہل کا معاشی بھوک و افلاس اور طبقاتیت پر مبنی نظام توڑ کر معاشی خوشحالی کا نظام قائم کر دیا گیا جس میں زکوۃ دینے والے سب تھے، لینے والا کوئی نہیں تھا۔اور یہ سب صرف جزیرۃ العرب تک نہیں بلکہ معروف دنیاعراق،شام،ایران،ہندوستان،افریقااور یورپ کے اکثر حصے میں بحرِ اوقیانوس سے لےکر بحرالکاہل تک دین اسلام کے غلبے کا نظام قائم ہوا۔یہ دراصل سیرت نبویﷺ کا اجتماعی پہلو ہے، ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اس کی روشنی میں اپنا تجزیہ کریں کہ ہم نے سیرت نبویﷺ سے کیا راہنمائی حاصل کی؟

    ہمارا معاشرہ مثالی ہے یا زوال پذیر؟

    اور ہم سیرت نبویﷺ  کی روشنی میں نظام قائم کرنے کے حق میں کیوں نہیں ہیں؟

    سیرت نبویﷺ کے اسباق کے مطالعے اور تجزیے کی روشنی میں آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟

    ہم نے اپنے معاشرے کی تشکیل سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں کی ہے یا آج بھی ہمارا نظام وہی غلامی کا ہے جو  (۲۵۰) سال پہلے ایک بدیسی قوت نے ہمیں غلام بنانے کے لیے ہم پر مسلط کیا تھا؟اگر نہیں ! توہمیں ان باتوں کو سوچنا ہے اور یہ شعور حاصل کرنا ہے کہ اسوہ حسنہ اور قرآن حکیم ہمارے سلگتے ہوئے مسائل کا کیا حل پیش کرتے ہیں ؟ اور ہماری یہ اولین ذمہ داری ہے کہ ہم غلامانہ نظام کو ختم کر کے عدل و انصاف اور معاشی  خوشحالی پر مبنی نظام قائم کرنے کی اجتماعی جدوجہد میں شامل ہوکر اس کے لیے ہر ممکن تیاری کریں۔

    Share via Whatsapp