دین اسلام اور ہمارا معاشرہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • دین اسلام اور ہمارا معاشرہ

    پاکستان 98 فیصد مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ہے۔اسے مذہبی بنیاد پر مسلمانوں کی ایک الگ اور آزاد ریاست کے طور پرحاصل کیا گیا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔

    By شیر افضل خان Published on Dec 12, 2019 Views 3953
    دین اسلام اور  عصری تقاضے :
     تحریر: شیر افضل خان، کراچی

    پاکستان 98 فیصد مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ہے۔اسے مذہبی بنیاد پر مسلمانوں کی ایک الگ اور آزاد ریاست کے طور پرحاصل کیا گیا اس کےلیے ہمارے بزرگوں نے اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کیا اور کئی خاندان اس تقسیم کی وجہ سے ایک دوسرے سے ہمیشہ کےلیے جدا ہوگئے۔ آئیے ذرا اس وطن عزیز  کا تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ ان مقاصد واھداف کی تکمیل ھوئی ؟ اگرجواب نفی میں ہے تو اس کے اسباب کیا ھیں اور ان کا تدارک کیسے ممکن ھے؟
    اسے سمجھنے کےلیے ہم یہاں عرب معاشرے کا مختصراٙٙجائزہ لیں گے۔عربوں کی حالت قبل اسلام بالکل ایسی ہی تھی جیسے کسی زوال پذیر معاشرے کی ہوتی ہے یعنی ایسا معاشرہ جس کی فکر طاغوتی ہو وہاں ظلم و بربریت کا راج ہوتا ہے شیطان صفت عناصر کا پورے معاشرتی نظام پر کنٹرول ہوتا ہے۔سرمائے کو بالا دستی حاصل ہوتی ہے۔بھوک انسانوں کا مقدر بتلائی جاتی ہے۔خوف،قتل و غارت گری،درندگی کا راج ھوتا ھے۔حق تلفی ،بد اخلاقی، بدکرداری،انسان دشمنی جیسی بیماریاں انسانی معاشرے کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔بعینہ یہی حالت عرب معاشرے کی تھی۔اللہ پاک کی ذات نے عرب معاشرے کی اس حالت پر احسان کرتے ہوئے ان کی طرف اپنا برگزیدہ پیغمبررحمةللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کو اپنا دین حق دےکر بھیجا تاکہ وہ اسے معاشرے میں موجود تمام ادیان پر غالب کردے۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےاس فکر کی اساس پر عرب معاشرے کی تشکیل نوکی اور اس کی بنیاد انسان دوستی اور خدا پرستی پر رکھی۔ حضور پاکؐ نے اس فکر پر ایک ایسی اجتماعیت کی تیاری کی جن کو سیاسی،معاشی،تعلیمی و دیگر سماجی علوم،جماعتی نظم و ضبط کا پابند بنایا اور ایسی تربیت کی جس کے ذریعے سے اس جماعت نے تباہ شدہ معاشرے کو زوال سے نکال کر ترقی و کامرانی کی راہ پر گامزن کیا۔ ظالمانہ معاشی نظام جو بھوک و افلاس کا باعث تھا اس کی جگہ  عادلانہ نظام معیشت کی بنیاد رکھی جس نے تمام انسانوں کی معاشی ضروریات پوری کیں۔قتل و غارت گری،  زندہ درگور کرنے والے بھیانک معاشرتی نظام کی جگہ انسانی امن و امان اور انسانی وقار کی پہچان والا نظام متعارف کروایا ، انسانوں کو سماج میں عزت دلوائی اور ان کو ایک دوسرے کا بھائی بنادیا۔اس طرح عرب معاشرہ زوال سے نکل کر عروج کی راہ پر نہ صرف خود گامزن ہوا بلکہ دنیا کی دیگر اقوام کو بھی زوال سے نکال کر ترقی کی صف میں لاکھڑا کیا اور تمام معاشروں کےلیے رہتی دنیا تک ایک مثالی معاشرہ بن گیا۔
    وطن عزیز کی آزادی کے بعد سب سے پہلا تقاضا نظام تعلیم کی تبدیلی کا تھا، جس کے نتیجے میں اس کے باسی،اپنے خالق کے ساتھ تعلق مضبوط کرتے ہوئے انسانوں میں خوشحالی،محبت،امن و سکون اور ترقی کا ماحول پیدا کر سکیں اور اپنے ملک کواقوام عالم میں اونچا مقام دلواسکیں، جاگیرداری نظام کا خاتمہ کریں اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کریں تاکہ اجتماعیت مضبوط ھو، لیکن اس کے علی الرغم مذہبی فرقہ واریت کو فروغ دیا گیا، تقسیم درتقسیم کی پالیسی اختیار کی گئی اور نوجوان نسل کو فکری مغالطوں میں الجھانے کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کے راستے بھی ان کے لیے مسدود کر دیے گئے اور ملک چھوڑنے پر انہیں مجبور کیا گیا۔آج ضرورت ھے کہ قرآن مجید کو اسی طرح سمجھا جائے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سمجھایا اور اس کے مطابق ایسی مضبوط سماجی تشکیل کی جس سےفرد، خاندان، قومی اور بین الاقوامی سطح پر راھنمائی،امن و امان اور معاشی خوشحالی، اسلام کی پہچان بن گئی،  اس کے لیے وارثین نبوت علماء ربانیین کے فکروعمل کی پیروی کی ضرورت ھے کہ یہی جامع فکر ھے اور آج اس شعور و فہم کو حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 
    Share via Whatsapp