انبیاؑء کی تبلیغ کا ھدف: سیاسی و سماجی تبدیلی یا محض انفرادی اصلاح - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انبیاؑء کی تبلیغ کا ھدف: سیاسی و سماجی تبدیلی یا محض انفرادی اصلاح

    انبیاءؑ کی جدوجہد کاھدف وقت کے فرعونوں کو شکست دے کر انسانیت کو آزادی دلانا اور پھر صالح سیاسی و معاشی نظام قائم کر کے سماجی تبدیلی پیدا کرنا ہے

    By UMAR FARUQ Published on Jun 08, 2020 Views 2481

    انبیاؑء کی تبلیغ کا ھدف: سیاسی و سماجی تبدیلی یا محض انفرادی اصلاح

    تحریر: عمر فاروق۔ راولپنڈی


    جب بھی کوئی نبیؑ کسی قوم کی طرف مبعوث ہوئے تو ان کی قوم کے حکمران اور سردار ان کے خلاف ہو گئے جبکہ نبیؑ کی دعوت پر لبیک کہنے والےابتدا ئی طور پر ہمیشہ غریب لوگ ہی تھے  آخرایسا کیا تھا نبیؑ کی دعوت میں کہ سردار اور حکمران دشمن بن جاتے تھےاگر نبیؑ کوان طبقات کے ظلم سے سروکار نہ ہوتا تو شاید کوئی بھی حکمران یا مالدارنبیؑ کا مخالف نہ ہوتا بلکہ انفرادی اصلا ح کےلیے اس کی مالی معاونت بھی کرتا تاکہ غریبوں کا مالی استحصال کرنے کے باوجود وہ ان کا ہیرو قرار پاتا۔

    بقول شاعر

    رات کو پی لی اور صبح کو توبہ کر لی

    رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

    جیساکہ موجودہ دور میں ہو رہا ہے آج کے جاگیردار، سرمایہ دار اور مل مالکان  علماء اور نام نہادگدی نشینوں کو اپنے ہاں کھانوں پر مدعو کرتے ہیں ان کے مدرسوں اور دربا روں کو چندے اورنذرانے دیتے ہیں اور الیکشن کے دنوں میں ان کی اور ان کے متعلقین کی حمایت حاصل کرتے ہیں جبکہ غریب مزدوروں اور کسانوں کے معاشی  استحصال کو بند نہیں کرتے۔اس کے برعکس انبیا

    کی دعوت کے مخالف یہی لوگ ہوتے تھے چنانچہ سورۃا لاعراف میں اللہ تعالیٰ مختلف انبیاؑء کے مخالف طبقے کا ذکر اس انداز میں کرتا ہے

    اس کی قوم کے سرداروں نے کہا    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   (حضرت نوحؑ کی مخالفت میں)

    اس کی قوم کے منکر سرداروں نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  (حضرت ھودؑ کی مخالفت میں)   

    اس کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  (حضرت صالحؑ کی مخالفت میں)                   

    اس کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاؑء کی دعوت کا ھدف سیاسی تبدیلی کے ذریعے سماجی تبدیلی تھا اگرچہ انہوںؑ نے ابتدا عقیدے کی اصلاح سے کی اور ضروری بھی تھا کہ جو جماعت معاشرے میں تبدیلی پیدا کرنا چاہتی ہے وہ سب سے پہلے انسانوں کے بنائے ہوئے خداؤں کا انکار کرے کیونکہ شرک سے ہی ظلم اور طبقاتیت کی ابتدا ہوتی ہے چنانچہ قرآن مجید میں بھی شرک کو ظلمِ عظیم قرار دیا گیا ہے۔  اور اس جماعت کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ توحید کے نظریےکواپنائے۔اور اس کا سماج میں عملی اظہار کرے تاکہ انسانیت میں وحدت پیدا ہو۔رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ آپؐ کی تبلیغ کا ھدف محض انفرادی اصلاح نہ تھا چنانچہ جب آپ کے چچا ابوطالب کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے قریش کا ایک وفدجو بڑے بڑے سرداروں پر مشتمل  تھا ابوطالب کے پاس آپؐ کے ساتھ ڈائیلاگ کے لیے آتا ہے تو آپؐ نے ان کو جو جواب دیا وہ آپ کے ھدف کو بڑی اچھی طرح واضح کرتا ہے آپؐ نے فرمایا:

     "میں ان سے ایک ایسی بات چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہو جائیں تو عرب ان کے تابع فرماں بن جائیں اور عجم انہیں جزیہ ادا کریں"

    جزیہ کون دیتا ہے؟ جو ہو تو غیرمسلم مگر سیاسی طور پر مغلوب ہو جائے۔حضرت براءؓ  کا بیان ہے کہ جنگِ خندق کے موقع پر ایک سخت چٹان آ پڑی جس سے کدال اچٹ جاتی تھی کچھ ٹوٹتا ہی نہ تھا۔ہم نے رسولؐ اللہ سے شکایت کی۔ آپؐ  تشریف لائے کدال لی اور بِسمِ اللہ کہہ کر ایک ضرب لگا ئی(تو چٹان کا ایک ٹکڑا ٹوٹ گیا) اور فرمایا:

    "اللہ اکبر! مجھے ملک شام کی کنجیاں دی گئیں واللہ! میں اس وقت وہاں کے سرخ محلوں کو دیکھ رہا ہوں“  پھر دوسری ضرب لگائی (تو ایک دوسرا ٹکڑا کٹ گیا) اور فرمایا:  ”اللہ اکبر!  مجھے فارس دیا گیاواللہ! میں اس وقت مدائن کا سفید محل دیکھ رہا ہوں“  پھر تیسری ضرب لگا ئی اور فرمایا:  ” بسمِ اللہ“  تو باقی ماندہ چٹان بھی کٹ گئی اورفرمایا:  ”اللہ اکبر!  مجھے یمن کی کنجیاں دی گئیں واللہ! میں اس وقت صنعاء کے پھاٹک دیکھ رہا  ہوں“

    اُس زمانہ میں ملک شام قیصر کی سلطنت کا ایک اہم ستون، مدائن کسرٰی کا پایۂ تخت اور صنعاء یمن کا دارالحکومت تھا اس حدیث میں قیصر و کسرٰی اور عرب کی سیاسی قوتوں کی شکست کی پیشین گوئی کی گئی ہے جو حضرت عمرؓ  کے دور میں پوری ہوئی۔پھر یہی غزوۂ خندق کا موقع تھا جب بنو قریظہ نے مسلمانوں سے بد عہدی کی تو منا فقین نے بھی سر نکالا اور کہنے لگے کہ محمدؐ  تو ہم سے وعدے کرتے تھے کہ ہم قیصرو کسرٰی کے خزانے پائیں گے اور یہاں یہ حالت ہے کہ پیشاب پاخانے کے لیے نکلنے میں بھی جان کی خیر نہیں۔  وعدہ اسی چیز کا کیا جاتا ہے جس کے لیے جدو جہد کی جا رہی ہو۔حضورؐ  کی بعثت کے مقا صد میں شامل تھا کہ قیصرو کسرٰی جیسی انسانیت پر بوجھ حکومتوں کا خاتمہ کر کے ان کے مرتکز خزانوں کو مجبور اور بے بس انسانیت کے قدموں میں ڈھیر کر دیا جائے۔جب عدیؓ بن حاتم حضورؐ  سے ملنے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپؐ  نے عدیؓ کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا تھاکہ     ”اے عدی!  میں سمجھتا ہوں تم اس دین کوکس لیے قبول نہیں کرتے تمھارا خیال ہے کہ مسلمان ایک کمزور، نادار اور مفلس قوم ہے اور ان کے مقابل” مشرک اور عیسائی قومیں“  مالدار اوربارسوخ ہیں اگر تمھارا یہی خیال ہے تو اے عدی!  وہ وقت دور نہیں جب اس مفلس قوم میں خدا تعالیٰ اتنی فراوانی کرے گاکہ ایک متمول کسی سائل کو تلاش کرے گاتو اس کے مال کو قبول کرنے والا تک ہاتھ نہ آئیگا۔نیز تمھارا خیال ہے کہ ان کے دشمنوں کی تعداد بہت ہے اور ان کی تعداد بہت کم ہے۔ تو اے عدی! تم نے کبھی حیرہ (شام کے ایک شہر کا نام) دیکھا ہے؟ عدیؓ   نے عرض کی دیکھا تو نہیں البتہ سنا ضرور ہے آپؐ  نے فرمایا:  ”عدی! خدا اس امر (اسلام) کی تکمیل کے لیے وقت مقرر کر چکا ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب عورت تنہا حیرہ سے چل کر مکہ(مکرمہ) زیارتِ کعبہ کے لیے آئے گی تو اس کو کوئی خوف نہ ہوگا"یعنی اسلام کے عادلانہ سیاسی ومعاشی نظام کی بدولت شام سے عرب تک امن ہی امن ہو گااور اکثریت آبادی مسلمان ہو جائےگی۔

    پھر فرمایا  ”اے عدی! تم کو یہ بھی خیال ہے کہ مسلمانوں کے پاس ملک و سلطنت نہیں اور یہ شوکت و سطوت سے محروم ہیں تو اےعدی! تو عنقریب سنے گا کہ بابل (عراق) کے مشہور قصرِ ابیض مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوں گے“۔             

    عدیؓ ان کلماتِ طیبات کو سن کر مشرف بہ اسلام ہو گئے اور اپنی زندگی میں ہی سب کچھ دیکھ لیا جس کی بشارت نبیؐ  نے دی تھی۔

    واقعہ ایلاء کے زمانے میں حضرت عمرؓ  نے حضورؐ  کو اس عالم میں دیکھا کہ آپ کھردری چارپا ئی پر لیٹے ہیں اور بدن مبارک پر نشان پڑ گئے ہیں اِدھر اُدھر دیکھا توایک طرف مٹھی بھرجَو پڑے ہیں اور ایک کونے میں کسی جانور کی کھال ایک کھونٹی پر لٹک رہی ہے یہ منظر دیکھ کرحضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے آپؐ  نے رونے کا سبب پوچھا تو حضرت عمرؓ  نے عرض کی: ”یا رسو لؐ اللہ! قیصر و کسرٰی تو عیش کریں اور آپؐ  کا یہ حال رہے فرمایا:  ”عمرؓ!  کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ وہ دنیا لے جائیں اور ہمیں آخرت ملے“۔       

    یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ  نے حضورؐ  کی حالت کا موازنہ قیصر و کسرٰی سے کیوں کیا؟ کسی عیسائی و یہودی عالم، راہب یا تارک ا لدنیا سے کیوں نہیں کیا؟ تو اس کا جواب یہی بنتا ہے کہ ایک طرف تو حضورؐ عرب کے حکمران تھے اس لیے حکمران کا موازنہ دیگر حکمرانوں سے کیا۔ دوسرا یہ کہ آپؐ  کی بعثت کا مقصددینِ اسلام کا بین الاقوامی سیاسی غلبہ تھا جو ان دونوں طاقتوں کی شکست کے بغیر ممکن نہ تھا چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ  ہے:

    "وہی ہے ذات جس نے اپنے رسولؐ کوہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے خواہ مشرکین کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے“(سورۃ الصف،۹)

    ان تمام قرآنی آیات اور احادیث سے پتا چلتا ہے کہ انبیاءؑ  کی جدوجہد کاھدف وقت کے فرعونوں کو شکست دے کر انسانیت کو آزادی دلانا اور پھر صالح سیاسی و معاشی نظام قائم کر کے سماجی تبدیلی پیدا کرنا ہوتا ہے چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ جیسے ہی قیصر و کسرٰی کے ظالمانہ نظاموں سے انسانیت کو نجات ملی تو انہوں نے اسلام کو بخوشی و رغبت قبول کر لیا۔آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تبلیغ کا مقصد صرف انفرادی اصلاح سمجھ لیا اور سیاست و معیشت کو دنیا داری کہہ کر طاغوت کے حوالے کر دیا تو نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ تبلیغی و اصلا حی جماعتوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود ہمارے معاشرے میں برائیاں اور بد اخلاقیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔چونکہ ان معاشرتی برائیوں کا ذمہ دار ہمارا غلط سیاسی و معاشی نظام ہے لہٰذا اسے تبدیل کیے بغیر راہِ نجات ممکن نہیں۔

    سیرتِ طیبہؐ  سے اتنی واضح رہنمائی کے باوجود اگر ہم محض عقیدے اور اخلاقی اصلاح(جو متذکرہ بالا عوامل کے تدارک کے بغیر ممکن نہیں)پر اپنی صلاحیتیں صَرف کرتے رہیں تو یہ عقل و دانش سے دور کی بات ہوگی۔

    Share via Whatsapp