انبیاء علیہم السلام کی جدوجہدکی شاہراہِ فکروعمل - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انبیاء علیہم السلام کی جدوجہدکی شاہراہِ فکروعمل

    انبیاء علیہم السلام تاریخِ انسانی کی وہ اعلیٰ شخصیات ہیں جنہوں نے اپنے معاشروں کی تعمیر و تشکیل بہترین منظم انداز میں کی ۔

    By Jawad Aziz Published on Sep 01, 2020 Views 1922

    انبیاء علیہم السلام کی جدوجہدکی شاہراہِ فکروعمل

    تحریر: جواد عزیز۔ چکوال 


    انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بخشا ہے۔ کائنات کی باقی تمام مخلوقات انسان ہی کے لیے مسخر کی گئی ہیں۔ کائنات کاایک اہم مرکز انسانی سوسائٹی ہے جہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں یعنی انبیاء علیہم السلام کو انسانی اجتماع کی درست تعمیرو تشکیل کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔اسی لیے تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنے اپنے دور میں اپنی اجتماعی طاقت کو منظم کرکے بہترین تنظیم اور عمدہ سماجی ترتیب کے ذریعے دنیا کے شیطانی اور طاغوتی نظاموں کو توڑا اور دینِ الہی کی تعلیمات کی اساس پر اپنے اپنے معاشروں میں انسانی فطرت کے عین مطابق بہترین نظام قائم کیا۔حضرات انبیاء علیہم السلام ہی تاریخ ِ انسانی کی وہ  قابلِ قدر ہستیاں ہیں جنھوں نے اپنے معاشروں کی بھرپور اور منظم انداز میں تعمیر و تشکیل فرمائی اور بکھری ہوئی انسانیت کو انتشار، پستی اور زوال کی حالت سے نکال کر بامِ عروج بخشا۔ 

    حنیفی تحریک جو انبیاءؑ کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے، اس کے داعی امام انسانیت حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔آپ ؑ نے انسانیت کو انسانی خداؤں اور ان کے قائم کردہ جبر سے نجات دلانے اور انھیں عقلی انداز میں خدائے واحد اور انسانی باطن میں چھپے اعلٰی انسانی کمالات اور ان کی بنیاد پر معاشرتی و اجتماعی تشکیل کی جانب متوجہ فرمایا۔یوں انسانیت نے دور کے نمرودوں کے پیدا کردہ سماجی انتشار اور طبقاتیت کے خلاف انسانیت گیر دینی فکر کی اساس پر یکسو ہو کر جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔اسی مقصد کے حصول کےلیے تمام حضرات انبیاء علیہم السلام نے معاشرے پر پھیلے شرک اور جہالت کے پردوں کو چاک کرکے صحیح علم وشعور کو عام کیا۔اسی علم و شعور کی علمی وعملی تنظیم نے معاشرے کو عادلانہ بنیادوں پر استوار کرنے کی راہ ہموار کی۔کیونکہ جہالت اور بے شعوری  کسی بھی سوسائٹی کی تباہی اور بربادی کا سبب ہوتی ہے۔ اسی لیے دینی فکر اور انسانی شعور کی اساس پر فتح مکہ کے بعدقومی سوسائٹی کے قیام کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں ارشاد فرمایا:

     خبردار لوگو!جاہلیت کے جتنے بھی کام ہیں آج میرے دونوں پاؤں کے نیچےروند دیے گئے ہیں۔

    انسانی عقل وشعور جب بےدار ہوتا ہے تو انسان اپنے گردوپیش کے حقائق کو کھوجنا شروع کردیتا ہے۔جس کے نتیجے میں کائنات میں خالقِ کائنات کا جاری کردہ ایک بہترین نظام اس کے سامنے آتا ہے جس میں پوری کائنات ایک خاص منظم انداز میں حرکت پذیر ہے۔ فلکی اجسام میں ایسی زبردست ترتیب ہے کہ کروڑوں، اربوں کی تعداد میں موجود ہونے کے باوجود بھی یہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں کام کر رہے ہیں اوراس نظمِ افلاک کے اندر کسی قسم کی کوئی بےترتیبی انتشار یا ٹکراؤ نہیں ہے اور پھراس پورے نظام کو چلانے کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی کے عرش کے ساتھ فرشتوں کی ایک منظم جماعت بھی موجود ہے۔

    گویا یہ انسانی عقل وشعور ہی ہے کہ جس کی بدولت انسان کائنات میں جاری اس نظامِ ربوبیت سے اپنا ربط قائم کرتا ہے۔اور پھر اسی سے رہنمائی لے کر انسان اپنی انسانی ذمہ داریوں کی جانب متوجہ ہوتا ہےاور اسی طرز کا نظم و نسق اپنی سوسائٹی میں قائم کرنے کی جدوجہد کا راستہ چنتا ہے۔اس عظیم نظمِ کائنات کے شعوری فہم کے حصول کے بعد اس کائنات کے خالق کی جانب متوجہ ہونا اور اس کی عظمت، ہیبت اور جلال کا ادراک کرتے ہوئے اس سے تعلق قائم کرنے کا جذبہ انسان کو وجدانی طور پر اللہ رب العزت کی جانب کھینچتا ہے اور وہ اللہ رب العزت کی جناب میں اپنی اس عاجزی اور خشوع کا اظہار چاہتا ہے۔دینِ اسلام  کا نظام عبادات، دراصل انسان کے اسی باطنی جذبے کی تسکین کا ایک مکمل اور جامع نظام فراہم کرتا ہے۔دین اسلام کا نظام عبادات جہاں انسانی قلوب کو اپنے خالق کی جانب متوجہ کرتا ہےتو دوسری طرف ان سماجی اقدار کا شعور بھی پیدا کرتا ہےجس کے ذریعے انسان اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کا ادراک کرتا ہے۔ مثال کے طور پر نماز کے ذریعے تنظیمِ اوقات، صف بندی اور امام کی اتباع  کے ذریعےقیام ِاجتماعیت،معاشرے سے سماجی و اجتماعی جرائم (فحشاء و منکرات) کے خاتمے کا درس اور نمازیوں کو سوسائٹی کے محروم طبقات کے حقوق کی بجاآوری کی جانب متوجہ کیا جاتا ہے۔اسی طرح روزے کے ذریعے اعلٰی سماجی امور کی انجام دہی کے لیے زبردست اخلاقی قوت کا مظاہرہ اور سوسائٹی کی بھوک ختم کرنے کا فہم و شعورکاپیدا ہونا، نظام زکوٰۃ کے ذریعے محروم المعیشت طبقات کو مفلوک الحالی سے نکالنے کی سوچ اور حج کے ذریعے سے ان اعلیٰ سماجی اقدار کے حامل بین الاقوامی معاشرے کے قیام کا وژن اختیار کیا جاتا ہے۔

    اسی طرح مذکورہ بالا اقدار کی بنیاد پر سماجی تشکیل کا ایک مکمل نظام قرآن حکیم کی شکل میں انبیاء علیہم السلام کے مشن کی تکمیل کی آخری کڑی یعنی حضور سرورکونین ﷺ کے ذریعے نازل کیا گیا جو کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی جانب سے انسانیت کے لیے آخری ہدایت نامہ ہے اوراس کی تمام تعلیمات کی اساس دوبنیادی باتیں ہیں،"سچائی" اور " عدل و انصاف" جیسا کہ  ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    تیرے رب کے کلمات کا منتہیٰ سچائی اور عدل ہے۔ (6:115)

    تمام انبیاء علیہم السلام اور امام الانبیاء محمد مصطفیﷺ نے انہی تعلیمات کی اساس پر معاشرتی تشکیل کا عمل اختیار فرمایا۔انسانیت کو عقل و شعور کی دعوت دے کر انھیں سچ اور جھوٹ میں تمیز سکھائی۔معاشرے میں رائج فرسودہ اور باطل افکار کا تار پود بکھیر کر حق ، سچائی اور فطرتِ انسانیہ سے ہم آہنگ  افکار و نظریات کو عام کیا ۔اور ان افکار کی بنیاد پر معاشرے سے ظلم و بربریت کے خاتمے اور انسانی فطرت کے ایک بہت بڑی سچائی یعنی عدل و انصاف کے قیام کے لیے معاشرے کے صالح عناصر کو ساتھ لے کر باقاعدہ جماعت بندی کی اور اپنی جہدِمسلسل  سے بالآخر انسانی معاشروں کو عدل و انصاف کے نور سے منور کیا۔

    آج کتنا بڑا المیہ ہے کہ دنیا میں طاقت کے زور پر جھوٹ اور خلاف فطرت افکار کو زبردستی انسانی ذہنوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔انسانی فطرت کے برخلاف معاشرے میں ان افکارِفاسدہ کو پھیلایا جارہا ہے جن کے ذریعے  معاشرے میں ظالمانہ نظاموں کے تسلط کو اخلاقی و مذہبی جواز فراہم کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے کُل انسانیت پر ظلم و جبر کے نظام غالب ہیں۔سچ کے مقابلے میں جھوٹ، عقل و شعور کے مقابلے میں جہالت اور عدل کے مقابلے ظلم و بربریت آج کے معاشروں کی پہچان بن چکے ہیں۔انسانی شناختوں ، مختلف رنگ و نسل اور مذہبی عنوانات سے انسانی معاشرے تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔آئے روز نت نئے بحران اسی لیے پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ انسانی معاشروں کی اجتماعیت پارہ پارہ ہو جائے۔ابھی حال ہی میں دنیا پر مسلط سامراجی طاقتوں نے COVID-19کی روک تھام کی آڑ میں جو مکروہ طرز عمل اختیار کیا ہے اس نے انسانوں میں چھوت چھات کے تصورات کو مزید فروغ دیا ہے۔وہ انسان جو پہلے ہی سامراجی سازشوں کا شکار ہوکر مختلف عنوانات اور ٹائٹلز کی وجہ سے ایک دوسرے سے ذہناً، فکراً اور عملاً دور تھے ۔انھیں صحت کو لاحق ایک موہوم خطرے کی بنیاد پر مزید دور کردیا گیا ہے۔اور پھرطبی احتیاط یا  Physical Distancing کا عنوان استعمال کرنے کے بجائے Social Distancingکا عنوان خود اس امر کی عکاسی کررہا ہے کہ سماجی اجتماعیت کو توڑنا گویا بنیادی ایجنڈے کا حصہ تھا۔ پھر اسی آڑ میں دنیا بھر میں حکومتوں کا جبر قائم کرنا اورعوام کو لاک ڈاؤن کا شکار کرکے ان کی معاشی اور سیاسی آزادی کو چھیننا وغیرہ اس مکروہ سامراجی عمل کو سمجھنے کے بہت سے نئے زاویے فراہم کرتا ہے۔

    اس لیے آج کے دور میں بالخصوص اسلام کے نام لیواؤں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سامراج کے ایجنڈے یعنی معاشروں میں جہالت عام کرکے پروپیگنڈے کی طاقت کے ذریعے سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم کردینا اور انسانی اجتماعیت کو توڑ کر اپنا ظالمانہ سامراجی نظام مسلط رکھنےکےاس مکروہ عمل کو سمجھیں اور پھر اس مقصد کے حصول کے لیے ہردور میں سامراجی طاقتوں کی جانب سے نت نئے حربوں کے استعمال کا شعور بھی حاصل کریں تاکہ حق و باطل اور عدل وظلم میں امتیاز باقی رہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ دین اسلام کے حقیقی مقاصد اور ان کے حصول کے لیے انبیاء علیہم السلام نے جو شاہراہِ فکروعمل اپنی قابل قدر جدوجہد کے نتیجے میں متعین کی ہے اس سے وابستہ ہو جائیں۔اس سلسلے میں آج ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ دین اسلام کی سچی انسانیت دوست تعلیمات کا گہر ا فکروشعور حاصل کریں اور اس پر ایک منظم سماجی طاقت پیدا کریں تاکہ جھوٹ کی ترویج اور ظلم کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے اور دینی فکر کی اساس پر ایک عادلانہ سوسائٹی کا قیام ممکن ہو۔

    Share via Whatsapp