ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم
اسوہ رسولﷺ ہمارے لیے کامل نمونہ ہے جس کی روشنی میں ہم سیاسی،معاشرتی و معاشی اصول اپنا کر فلاح انسانیت کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ہادئ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تحریر:۔محبوب الرحمٰن سہرؔ۔اوگی مانسہرہ ۔
دین کی جامعیت
دین ِاسلام کی تعلیمات اپنے اندر جامعیت کا ایک ایسا خزینہ رکھتی ہیں،جن کو اُسوہ بنا کر کل انسانیت اپنے لیے دُنیوی و اُخروی کامیابی سمیٹ سکتی ہے۔ ان تعلیمات میں ایک طرف عقائد و افکار کی درستگی اور صحیح پیرائے میں فلسفہ و فکر موجود ہے تو دوسری طرف یہی تعلیمات عملی زندگی میں ہمیں شریعت،طریقت اور سیاست جیسے اہم اصولوں کی مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
بعثت نبوی کا مقصد
دین ِاسلام کی آمد سے قبل یہ رہنمائی سرے سے ناپید تھی۔ہر طرف جہالت اپنے عروج پر تھی۔ایسے میں نبی آخرالزماں سرور کونین ﷺ کل انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے تشریف لائے۔آپؐ کےظہور کا مقصد عرب و عجم میں چھائی تاریکیوں کو ختم کر کے عدل و انصاف، مساوات و رواداری، صلہ رحمی اور باہمی شفقت و محبت جیسی اعلیٰ صفات کو پروان چڑھانا تھا۔آپؐ کی بعثت مبارک سے معاشرے میں معاشرتی و معاشی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ سماجی و خانگی زندگی کے اعلیٰ اصولوں کی بنیاد کا آغاز ہوا۔
نبی کریم ﷺ کی زندگی کے لاتعداد پہلو ایسے ہیں، جن کا احاطہ ناممکن ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل
نبی آخر الزماں ﷺ فضیلت و افضلیت کے اعتبار سے تمام انبیا ئےکرام علیہم السلام پر چھ وجوہات کی بنا پر فوقیت رکھتے ہیں۔آپؐ کے جلیل القدر صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے مطابق آپﷺ نے فرمایا کہ’’ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے پہلے نبیوں اور رسولوں پر چھ چیزوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔
پہلی فضیلت:
آپﷺ کے اقوال جوامع الکلم کاخزینہ ہے جو تمام انسانیت کی دُنیوی و اُخروی فلاح کا موجب ہے۔
دوسری فضیلت:
سرور کونین ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کا وہ رُعب و دبدبہ ہے جو آپﷺ کے مخالفین پر طاری ہو جاتا تھا۔یہ فتح و کامیابی اس لیے بھی قابل ذکر و قابل رشک ہے کہ یہاں سے ہی دراصل اسلام کے عادلانہ نظام کی ابتدا ہوئی اور کفر و شرک کے ایوانوں میں اشرافیہ کے ظلم و استبداد کا باب بند ہوا۔
تیسری فضیلت:
میدان جہاد میں دشمن کی صفوں کو تتّربتّر کرکےان کے چھوڑے ہوئے مال یعنی مالِ غنیمت کو اپنی جماعت اورتمام مسلمانوں کے لیےحلال قراردینا بھی خاص اہمیت کا حامل ہے، جس سے جماعت صحابہ و مسلمین کی مالی تقویت کے ساتھ ساتھ اس جماعت کو اسلام کے عَلَم کو بلند کرنے کے لیے مزید ہمت و قوت ثابت ہوتی ہے۔
چوتھی فضیلت:
آپﷺ کی فضیلت اس طور بھی نمایاں مقام رکھتی ہے کہ آپ ؐ کی امت کے لیے زمین کا ہر حصہ سجدہ توحید کے لیے پاک قرار دیا گیا۔گویا کہ توحید کا بول بالا اور کفر و شرک کی کمر توڑنا بھی مقاصد نبوت میں سے تھا۔
پانچویں فضیلت:
آپ علیہ الصلوۃ و السلام کے فضائل میں یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ آپ ﷺ کو کل انسانیت کے لیے پیغمبر و رسول بناکر مبعوث فرمایا گیا۔ بایں طورکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے نافذالعمل و ذریعہ فلاح و نجات قرار پائی۔
چھٹی فضیلت:
حدیث مبارکہ میں آخر الذکر فضیلت آپ ﷺ کو ختم نبوت کا تمغہ و مہر عطا ہونا ہے جو قیامت تک کے لیے اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ؐ کی شریعتِ مبارکہ اور ذاتِ اقدس تمام انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے ۔
نبی کریم ﷺ کی ذات کل انسانیت کے لیے عفت و امانت،ریاضت و عبادت،شجاعت و سخاوت اور اعلیٰ اوصاِف حمیدہ کی وہ جامع ترین نمونہ تھی، جس کی نظیر نہیں ملتی۔آپؐ کی مبارک زندگی کا ہر ایک گوشہ علم و عمل کا ایک لامحدود بحر ہے، جس کی گہرائی میں بکھرے موتی تلاش کرکے ہر عام و خاص سرور کونین ﷺ کی شفاعت سے فیض یابی حاصل کر سکتا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سوال کیا۔۔۔؟
یارسول اللہ! آپؐ کا اُسوہ حسنہ کیا ہے؟
آپﷺ نے فرمایا۔۔۔۔معرفت الٰہی میرا رأس المال ہے۔
عقل ،میرے دین کی اصل ہے۔
محبت، میری زندگی کی بنیاد ہے۔
شوقِ الٰہی، میرا مرکب ہے۔
اللہ کا ذکر، میرا مونس ہے۔
وقار و ثقاہت،میرا خزانہ ہے۔
آخرت کا درد،میرا رفیق ہے۔
علم،میرا ہتھیار ہے۔
صبر،میری چادر ہے۔
خدا کی مشیت پر رضا،میرا مال غنیمت ہے۔
عاجزی،میرا فخر ہے۔
زُہد،میرا پیشہ ہے۔
یقین،میری قوت ہے۔
سچائی،میری شفاعت ہے۔
طاعتِ الٰہی ،میرا حسب و نسب ہے۔
جہاد،میرا خُلق ہے۔
نماز،میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
میرے دل کا ذکر،اللہ ہے۔
میں،اپنی اُمت کا دردمند ہوں۔۔۔۔۔اور۔۔
اپنے رب کی ملاقات کے شوق میں زندگی بسر کرتا ہوں۔
گویا رسول کریم ﷺاپنے ذاتی خصائل میں اعلیٰ ترین مراتب پر فائز تھے۔عبادات و معاملات میں کامل ترین شخصیت تھے۔نظافتِ جسمِ اطہر کا یہ عالم تھا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’آپ ﷺ کے جسمِ اطہر سے ایسی خوش بو مہکتی تھی کہ میں نے ایسی خوشبو نہ مُشک میں پائی نہ عنبر میں‘‘۔سرور کونین ﷺ کمالِ عقل کے اعلیٰ ترین درجہ پر فائز تھے۔حیا اس قدر غالب رہتی کہ کسی ناپسندیدہ امر کے ناگوار محسوس ہونے پر بھی غصہ کے بجائے چہرہ مبارک سرخ مائل ہو جاتا اور زبانِ مبارک خاموش رہتی۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’ ہر دین کے اخلاق کا ایک عنوان ہوتا ہے۔مذہبِ اسلام کے اخلاق حسنہ کا عنوان حیا ہے‘‘۔حِلم و عفو ،نبی کریم ﷺ کا خاصہ تھا جس کی مثال فتح مکہ کے موقع پر تمام دشمنانِ اسلام کو معاف کرکےعالمِ انسانیت کے لئے اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔نرم خوئی آپ کی ذاتِ مبارکہ میں رَچی بسی تھی کہ کسی نادان کی بے تکلفی و بے ادبی پر بھی نرم گفتاری زبان مبارک سے ادا ہوتی۔ خُلق ِحُسن،حسن ِمعاشرت،تواضع و انکساری،سخاوت و استغنا،شجاعت و بہادری،عبادت و ریاضت،عفت و امانت اور زُہد و تقویٰ جیسے اوصاف نبی کریم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ میں ہمہ وقت موجود تھے۔گویاآپ علیہ الصلو ۃوالسلام ایفائے عہد کے علمبردار، شفقت و رحمت کے پیکر،عدل و انصاف کے داعی اور ظلم و استبداد کا قلع قمع کرکے تما م مخلوق کے لیے رحمت اللعٰلمین بن کر اِس جہاں میں تشریف لائےکہ آپ ﷺ کی سیرت و اُسوہ ہم سب کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
بقول شاعرؔحجّۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔
الٰہی کس سے بیاں ہو سکے ثنا اُس کی۔
کہ جس پہ ایسا تری ذاتِ خاص کو ہو پیار۔
جو تو اُسے نہ بناتا تو سارے عالم کو۔
نصیب ہوتی نہ دولتِ وجود کی زنہار۔
تو فخر کون ومکاں،زبدۂ زمین و زماں۔
امیر لشکر پیغمبراں،شہِ ابرار۔
تُو بوئے گُل ہے اگر،مثلِ گُل ہیں اور نبی۔
تُو مثلِ شمس ہےاگر اور نبی ہیں شمسِ نہار۔